چند روز قبل کی بات ہے کہ کچھ اہم لوگوں سے بات چیت ہو رہی تھی۔ کچھ کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار پاکستان کی تاریخ کے متحرک ترین چیف جسٹس ہیں۔ اور کچھ کا خیال تھا کہ وہ جن معاملات پر آواز اٹھا رہے ہیں وہ اسٹیٹ کی ذمہ داری ہے اور وہ کام اسٹیٹ کو کرنے چاہئیں۔ہمارا موقف تھا کہ جب حکومت کے مختلف محکمے خصوصاً پولیس، ہیلتھ، ریونیو، ایجوکیشن، ایکسائز، انکم ٹیکس اور جن بھی محکموں کا عوام سے براہ راست رابطہ ہے، اگر وہ محکمے کام نہیں کریں گے تو لوگ کس کے پاس جائیں گے۔ جس طرح پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں نیب کے بارے میں جو باتیں بتائی ہیں وہ نہ صرف باعث افسوس ہیں بلکہ بہت خوفناک ہیں، اس بارے میں چیف جسٹس کو ضرور کوئی قدم اٹھانا چاہئے۔ جب ریاست کے ادارے پولیس، نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن حتیٰ کہ انکم ٹیکس اور ایکسائز جیسے ادارے بھی خوف اور دہشت کی علامت بن جائیں گے تو لوگ کہاں جائیں گے؟ یقیناً انہیں پھر انصاف اور اپنی شکایات کے ازالہ کے لئے کوئی تو سہارا چاہئے ہوگا۔ ہم قطعاً چیف جسٹس میاںثاقب نثار کی خوشامد نہیں کر رہے لیکن حقیقت بیان کر رہے ہیں کہ جس طرح سپریم کورٹ لاہور رجسٹری اور کراچی رجسٹری میں مظلوم اور حالات کے ہاتھوں پسے ہوئے لوگ آتے ہیں اور جس طرح ان کے چہروں پر زمانے کی تکلیفوں، اور غموں کی زیادتیوں کی بھرپور عکاسی ہو رہی ہوتی ہے وہ ناقابل بیان ہےاب تو موسم سرما آچکا ہے۔ شدید گرم موسم میں ہم نے ان خواتین اور بوڑھے مردوں کو چلچلاتی دھوپ اور تپتی سڑک کے فٹ پاتھ پر بیٹھا دیکھا ہے۔ اپنوں کی زیادتیاں، جھوٹے مقدمے، پولیس کی زیادتی کیا بیان کریں۔ اگر عوام کو سرکاری محکموں خصوصاً پولیس سے ریلیف ملتا ہو تو پھر کسے ضرورت پڑی ہے کہ وہ چیف جسٹس کی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے، لوگوں کو انصاف نہیں ملتا۔ آج بھی پولیس جھوٹے مقدمے بنانے سے باز نہیں آتی۔ پھر پتہ نہیں ہر آئی جی سیٹ سنبھالنے کے بعد کیوں یہ غلط بیانی کرتا ہے کہ اس کے دور میں پولیس اور عوام کے فاصلے کم ہوں گے، تھانہ کلچر بدل جائے گا۔ یقین کریں آج بھی عدالت میں اور سپریم کورٹ کے باہر سب سے زیادہ شکایات ہی پولیس کے خلاف ہیں۔ اگر ریاست اپنی ذمہ داریاں پوری کرتی ہو تو پھر عوام کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ چیف جسٹس کے پاس آئیں۔ تھر میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔ ایک مدت سے تھر میں بچے اور حاملہ خواتین غذا کی کمی کا شکار ہو کر مر رہی ہیں مگر سندھ حکومت خاموش ہے۔ پچھلے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ رنگ برنگے بیان دیتے رہے۔ اب اس مسئلے پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار بولتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ ان کی ذمہ داری نہیں، پھر پبلک سروس کون کرے گا؟ پاکستان کی تاریخ میں آج تک کسی چیف جسٹس نے لوگوں کے اتنے مسائل حل نہیں کئے ۔ کیا پینے کے لئے صاف پانی مہیا کرنا اور پانی فروخت کرنے والی کمپنیوں کے خلاف اقدام حکومت کی ذمہ داری نہ تھی۔ جتنا پانی بنانے والی ایک کمپنی نے عوام کو لوٹا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بالکل صحیح ایکشن ان کمپنیوں کے خلاف لیا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں ! دو سرکاری اسپتالوں کی لفٹیں ایک مدت سے خراب تھیں۔ کیا لفٹوں کو چالو حالت میں رکھنا اسپتال کے ایم ایس کا کام نہیں تھا۔ یہ کام بھی چیف جسٹس نے کر دیا۔ اگر آپ پچھلے دو برس کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آئے گی کہ کئی سرکاری اسپتالوں میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے جا کر وہاں پر مسائل کو حل کر دیا۔ یہ وہ مسائل تھے جو اسپتال کی انتظامیہ کو حل کرنے چاہئے تھے۔ اس وقت لاہور کے چار سرکاری ٹیچنگ اسپتالوں کی ایم آر آئی، سی ٹی اسکین مشینیں خراب پڑی ہیں۔ ان میں جناح اسپتال، جنرل اسپتال، سر گنگا رام اسپتال اور گورنمنٹ شاہدرہ اسپتال شامل ہیں۔ کیا ان مشینوں کے بارے میں معلومات رکھنا پنجاب کی وزیر صحت پروفیسر ڈاکٹر یاسمین راشد کا کام نہیں۔ اس وقت دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ آپ جب بھی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کو فون کریں تو آگے سے ان کا پی اے کہے گا کہ منسٹر صاحبہ میٹنگ میں ہیں۔ وزیر صحت پورا دن صرف میٹنگ میٹنگ کھیلتی رہتی ہیں۔ ساری عمر گائنی کی پروفیسر رہی ہیں اور شعبہ گائنی کے مسائل حل نہیں کرسکیں۔ دوسری جانب 10دسمبر کو پی ٹی آئی کے سو دن پورے ہو جائیں گے۔ وہ جو دعوے کئے گئے تھے کہ سو دن میں ملک کی تقدیر بدل جائے گی وہ کہاں ہیں؟ کیا سوویں دن کوئی دھماکہ کرنا ہے۔ اس وقت پنجاب میں شعبہ صحت بدترین حالات سے دوچار ہے۔ لیڈی ڈاکٹر زکی تعیناتی ڈی ایچ کیو، رورل ہیلتھ سنٹر اور بنیادی مراکز صحت میں بے شمار مسائل پیدا ہو چکے ہیں۔ ہر وزیر سے رابطہ کرنا انتہائی مشکل ہے۔ شعبہ تعلیم الگ مسائل کا شکار ہے۔ ایل ڈی اے کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے۔ ڈی جی ایل ڈی اے کو ملنا کوئی آسان کام نہیں۔ ڈی جی ایل ڈی اے آمنہ عمران نے لاہور شہر کی ترقی کے لئے 20سالہ ماسٹر پلان تیار کر لیا ہے۔ ہم تو ڈی جی ایل ڈی اے کو کہیں گے کہ اس سے قبل بھی ایل ڈی اے نے جتنے پلان تیار کئے سب ناکام ہوئے ہیں۔ وہ صرف اور صرف ڈی ایچ اے لاہور سے ہی پلان لے لیں، بس کچھ نہ کریں۔ میٹنگوں اور اپنے نالائق ماہرین سے ملاقاتوں پر وقت اور پیسہ برباد نہ کریں۔ ایل ڈی اے کی ایک بستی بھی لاہور ڈی ایچ اے کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اس کے مقابلے میں ایل ڈی اے کے پاس ڈی ایچ اے کےمقابلے میں دس گنا زیادہ اسٹاف ہے۔ ہم تو چیف جسٹس سے درخواست کریں گے کہ وہ ایل ڈی اے کا آڈٹ کرائیں کہ ان کے افسران جو تنخواہیں اور سہولیات لے رہے ہیں اس کے مقابلے میں انہوں نے کتنا کام کیا ہے؟ آج عوام کو سب سے زیادہ شکایات ایل ڈی اے سے ہی ہیں۔ پھر یہ کہنا کہ چیف جسٹس کے یہ کام کرنے کے نہیں۔ ارے بھائی اگر پبلک سروس کے سارے محکمے درست سمت میں کا م کر رہے ہوں اور عوام کے کام بغیر رشوت اور سفارش کے ہو رہے ہوں تو پھر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ ہر محکمے کی کارکردگی کو چیک کریں۔ کیا ڈیمز بنانا (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کا کام نہیں تھا۔ اس ملک کی بربادی 1972ء میں شروع ہوئی جو اب تک رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ کے آئی جی ذرا ایک مرتبہ خود سپریم کورٹ کی رجسٹری لاہور اور کراچی تو آکر دیکھیں کہ عوام پولیس کے بارے میں کیا کہتی ہے۔ لاہور کی پہلی خاتون ڈپٹی کمشنر صائمہ سعید نے تمام اسسٹنٹ کمشنرز کو ہدایت کی کہ وہ کھلی کچہری لگائیں، بہت اچھا اور احسن قدم اٹھایا ۔ تمام ڈی پی اوز کو چاہئے کہ وہ ایسا کریں۔دوسرے اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کو بھی ایسی ہدایات جاری کرنی چاہئیں۔
کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)