آرٹس کونسل آف پاکستان ،کراچی میں چارروزہ گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس ادب و ثقافت کے خوب صورت رنگ بکھیر کرگزشتہ ویک اینڈپر اختتام پزیر تو ہو گئی لیکن اب بھی اس کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ہر سیشن میں ایسے ایسے سوال اٹھے کہ سامعین کی پرزور تالیاں اور مہمانوں کے جوابات نےکانفرنس کے میزبان کوشاید ’’یوٹرن‘‘لینے پر اکسایا ہو کہ کیوں نہ چار روزہ کانفرنس کو سات روزہ کر دوں،لیکن ایسا کر کے شاید وہ لیڈر نہ بن پاتے،بہرحال کانفرنس کے تیسرے دن ہم بھی وہاں موجود تھے،وہاں کے رنگوں میں محو ہوکر اجلاس میں شرکت کرنے ہال میں داخل ہوئے توچاروں طرف نظریں دوڑانے کے بعدبیٹھنے کی جگہ نظر نہ آئی،اس امید پر کہ جگہ مل ہی جائے گی چند منٹ کھڑے رہے اور پھر اچانک ایک خاتون نے نشست خالی کردی ،جہاں ہم براجمان ہوگئے۔چند ثانیے بعدسیشن کا آغاز ہوا۔یہ سیشن ”پاکستان میں ٹی وی اور تھیٹر کی صورتحال“ کے حوالے سے تھا۔ پینل میں بھارت سے آئی ہوئی تھیٹر کی معروف اداکارہ نادرہ ظہیر ببرکے علاوہ طلعت حسین، حسینہ معین، نورالہدیٰ شاہ، ایوب خاور، اقبال لطیف، زین احمد ، ساجد حسن اور اختر وقار عظیم شامل تھے،جبکہ نظامت کے فرائض صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے انجام دیے۔ معروف اداکار طلعت حسین کا کہنا تھا کہ تھیٹر یا ڈراما ہماری تہذیب کا حصہ نہیں ہے۔ہماری تہذیب کا حصہ شاعری ہے۔ مجھے چونکہ ڈرامے کا شوق تھا اس لئے خاندان کی مخالفت کے باوجود میں اداکار بن گیا۔بعدازاں تھیٹر کے اسرارورموز سیکھے، ڈراما چونکہ ہماری صنف ہی نہیں تھا لہٰذا اس کا ترقی کرنا بھی مشکل ہے۔ ڈرامے کی روایت تبدیل کرنے والی ڈرامہ رائٹر حسینہ معین نے کہا کہ جس طرح تصویر کے دو رُخ ہوتے ہیں اسی طرح معاشرے میں برائیاں اور اچھائیاں دونوں ہوتی ہیں، مجھے ہنستے ہوئے لوگ اور معاشرہ اچھا لگتا ہے، میں نے لوگوں کو ہنسانا سکھایا ہے، حالاں کہ لوگ اس وقت بھی رو رہے تھے اور اب بھی رو رہے ہیں میری کوشش ہوتی تھی کہ ناظرین کو معاشرے کی اچھی سے اچھی تصویر دکھاؤں تاکہ اسے دیکھ کر کوئی خود کو بھی اچھا اور خوبصورت بنالے، جو لٹریچر ہم نے شروع میں پڑھا اس میں عورت کو معصوم دکھایا گیا تھا، وہ سوتن کے لئے کھانا بھی بناتی تھی اور شوہر سے مار بھی کھاتی تھی، مگر میں سمجھتی ہوں کہ عورت اگر چاہے تو وہ مضبوط ہوسکتی ہے، میں اچھے خواب دیکھتی ہوں اور یہ سوچتی ہوں کہ ان خوابوں کو پورا بھی ہونا چاہئے۔
اداکار اور ڈراما نگار ساجد حسن نے کہا کہ تھیٹر کی کہانی میں رنگ بھرنا چاہیے،ہمارا المیہ یہ ہے کہ زیادہ تر ایسے لوگ نمایاں رہے ہیں جو دوسروں کو کچھ نہیں سمجھتے جس کی وجہ سے ہم بڑی پولورائز سوسائٹی تشکیل دے رہے ہیں۔تھیٹر ایسی چیز ہے جس میں چاہے جتنی بھی مایوسی ہو ،امید کی کرن ضرور ہوتی ہے۔ مہذب دنیا میں تھیٹر اس لیے ترقی کرتا ہے کہ وہاںلکھنے کی آزادی ہے،حقیقت یہ ہے کہ زمینی جنگیں تو بہت کم ہوتی ہیں،لیکن یہ جو ذہنی یا اخلاقی جنگیں ہوتی ہیں،وہ اہمیت رکھتی ہیں۔ان سے معاشرے تشکیل دیے جاتے ہیں۔ ہم تھیٹر کے ذریعے سماجی برائیوں کو بے نقاب کرسکتے ہیں،لیکن بدقسمتی سے یہاں تھیٹر زندہ نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو احمد شاہ کی مرہون منت ہے۔یہاں لوگ تھیٹر دیکھنے آجاتے ہیں۔جب صحت مند اور مثبت تھیٹر ہوتا ہے تو اس میں معاشرہ جو ریڈ لائن ڈرا کرتا ہے اسے آپ عبور کرتے ہیں ، ڈرتے نہیں ہیں۔یہ سوچتے ہیں کہ میں اپنے بچوں کے لیے بھی وہی چھوڑ کر جاؤں گا جو میرے لیے قید تھی۔ہم نے ان تمام حقیقتوں کو دیکھا ہے ۔معاشرہ ایسا ہو جہاں تھیٹر صحت مند ہو اور آپ اسے سپورٹ کریں اپنے آنے والے کل کے لیے،تو یہاں سےایسی تحریکیں بھی جنم لے سکتی ہیں جو آپ کا دماغ روشن کرسکیں۔
اداکار،ہدایت کاراورمصنف خالد احمدنے کہا کہ تھیٹر ہوتا تو رہا ہے، وقتاً فوقتاً چلتا بھی رہالیکن اکثر ذاتی کوششوں کے باعث ممکن ہوا ہے، اسی لیے ایک ادارے کی شکل نہ بن سکا۔اب کراچی میں باقاعدہ تھیٹر ہونے لگا ہے،لیکن دو کروڑ کی آبادی میں صرف دو ہال آٹے میں نمک کے برابر ہیں،لہذاتھیٹر جڑ نہیں پکڑ پایا ہے۔اس کے علاوہ اردو میں ڈراما نویسی کی روایت بھی نہیں رہی ہے۔زیادہ تر ہمارے ہاں افسانہ نگار افسانے کو ڈائیلاگ کی شکل میں لکھ دیتے ہیں جو کہ درحقیقت ڈراما نہیں ہے۔میرے خیال میں تھیٹر کے فروغ نہ پانے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ادیب و شاعروں کااسٹیج والوں سے اب تعلق نہیں رہا۔ہمارے ہاں بدقسمتی سے پرفارمنگ آرٹ کو نچلے درجے کی چیز سمجھا گیا،کہ دیکھ تو لیا جاتا لیکن پیشے کے طور پر اپنایا نہیں جاتا ،لہذا تعلق نہیں بن سکا۔یہاں پرفارمنگ آرٹ کی ایک ہی روایت ہے اور وہ ہے مشاعرہ۔شعراء اسٹیج پر پرفارم کرتے ہیں۔ ڈھاکا میں تقریباًسات یا آٹھ سور جسٹرڈ تھیٹر گروپس ہیں۔وہاں کسی دن بھی ایسا نہیں ہوتا کہ ایک یا دو تھیٹر نہ ہورہےہوں۔جہاں تک ٹی وی ڈراموں کی بات ہے تو ٹی وی ہمارا ہمیشہ سے مضبوط میڈیم رہا۔ایک وقت تھاجب ہمارے ڈرامے پورے برصغیر میں شوق سے دیکھے جاتے تھے،لیکن گزشتہ بیس سال میں ہمارے ہاں جو ٹیکنالوجی کا انقلاب آیا ہے،اس کی وجہ سے چینلز کی بہتات ہوگئی ہے۔آپ میںسے بہت سوں کو یاد ہوگا کہ ٹی وی ڈرامے کی کوئی قسط نشر ہوتی تو سڑکیں سنسان ہوجاتی تھیں،شام کے چاربجے کے بعد سے صرف ایک چینل چلتا تھا جو رات بارہ بجے تک دیکھا جاتا تھا۔پھر چینلز کی بہتات ہوگئی توڈراما لکھنے کے لیے فارمولے بھی طے ہوگئے،جیسے دوسری بیوی،ایک بہن اچھی دوسری بری وغیرہ۔اس طرح کے کئی فارمولے ہیں۔یعنی تعداد اس قدر بڑھ گئی کہ کہانی کے لیے آسانیاں پیدا کردی گئیں کہ ہر کوئی لکھنے لگا اور ڈائریکٹر بھی پیدا ہوگئے ۔ اس طرح معیار گرتا گیا۔ڈراما نگار وہدایت کارہ نورالہدی شاہ نے کہا کہ کسی بھی سماج کا عروج و زوال دیکھنا ہوتو اس کا ٹی وی ڈراما ضرور دیکھیں ،اس سے آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ وہاں کا سماج کس طرف جارہا ہے، پاکستانی چینلز پر جو کچھ نظر آرہا ہے اس پر کئی اعتراضات بھی ہورہے ہیں، کراچی میڈیا کا مرکز ہے، اس وقت جو نئے لوگ ڈراموں کے لئے کام کررہے ہیں، میں ان سے بہت کچھ سیکھ رہی ہوں اور بعض اوقات ان نئے کام کرنے والوں کے پاس ایسے ایسے آئیڈیاز آتے ہیں کہ میں خود حیران ہو جاتی ہوں اور ان سے پوچھتی ہوں کہ تمہارے دماغ میں کیسے یہ خیال آیا،میرا دھیان کیوں نہ اس طرف گیا۔کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ میںڈراموں میں آنے والےنئے بچوں کی انگلی پکڑ کر چل رہی ہوں۔ڈرامے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے نورالہدی شاہ نے کہا کہ وہ ڈراما زیادہ پسند کیا جارہا ہے جو لوگوں کی ناتمام خواہشات پر ماتم کرے، وہ ماتم آپ کو روتی دھوتی لڑکیوں کی صورت میں نظر آتا ہوگا، معاشرے میں ایک سوچ در آئی ہے ۔ڈراما بنانے والے چاہے جو بھی ہوں اب ان کے ساتھ نئے لوگ اور مڈل کلاس کی لڑکیاں بطور رائٹر کام کررہی ہیں، اب ان کو جو بھی مارکیٹنگ ٹیم کہتی ہے کہ یہ لکھیں یہ چلےگا،تو وہ اس پر عمل کررہی ہیں جبکہ ہم جب لکھتے تھے تو ہمارے حصے میں انقلاب آتا تھا ،جبکہ نئے لکھاریوںکے حصے میں مال آرہا ہے۔ہدایت کار و اداکار زین احمدنے کہا کہ تھیٹر کے حوالے سے صورتحال حوصلہ افزاءنہیں ہے تھیٹر کرنے والوں کو آج بھی یہ نہیں پتہ کہ جو کچھ انہوں نے تھیٹر کے لئے خرچ کیا ہے وہ اسے مل بھی پائے گا یا نہیں۔ ٹکٹ خریدنے کا رجحان آج بھی بہت کم ہے، لوگ اب بھی پاس مانگتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ جن سے پاس مانگا جارہا ہے اُن کے گھر کے چولہے بھی جلنے ہیں اور وہ اسی صورت میں ہوگا جب وہ ٹکٹ خرید کر تھیٹر دیکھیں گے۔میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں تھیٹر صرف لاہور، کراچی اور اسلام آباد تک محدود رہ گیا ہے ،کیونکہ تھیٹر کو ہم نے پھیلایا ہی نہیں۔ معروف پروڈیوسراختر وقار عظیم نے کہاکہ میرا ڈرامے سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں رہا مگر انتظامی حوالے سے میں کافی حد تک ان معاملات میں شریک رہا ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ ڈراما پاکستان میں آگے چلے گا اور مزید بہتر انداز میں بڑھے گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ، اس وقت ڈراما اچھا لکھا جارہا ہے۔سینئر ہدایت کار و پروڈیوسر اقبال لطیف نے طنزیہ کہاکہ تھیٹر جو اسٹیج پر ہوا کرتا تھا وہ اب آٹھ سے نو کے درمیان’ نیوز چینل‘ پر چلا گیا ہے اور ڈراما فلم کی شکل اختیار کرگیا ہے، آج کل ٹی وی ڈرامے فلم کی طرز پر بن رہے ہیں اور ایک ہی کیمرے پر کام ہورہا ہے۔ ہم اسے ڈرامہ نہیں مانتے۔ہدایت کار اور شاعرایوب خاور نے کہاکہ ڈراما بنانے والے سیٹھ ریٹنگ کے چکر میں رائٹر سے خود فرمائش کرتے ہیں کہ اس موضوع پر لکھو اور اس طرح کے مکالمے لکھو، تاکہ ہماری ریٹنگ بڑھے، بعض اینکرز طلعت حسین سے بھی بڑے ایکٹر ثابت ہوتے ہیں، ان کے سامنے جو حصہ لینے والے سیاست دان ہوتے ہیں وہ سیاست دان کم اور اداکار زیادہ ہوتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ یہ گورکھ دھندہ ہے۔
اس موقعے پر صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ جو اجلاس میں نظامت کے طور پر گفتگو میں شریک رہے انہوں نے کہاکہ آرٹس کونسل کراچی میں دو ہال بنائے ہیں ،مگر دو کروڑ کی آبادی والے شہر میں کوئی اور تھیٹر نہیں ہے،ہم نے دیگر شہروں کے فنکاروں اور ادیبوں سےکہا ہے کہ وہ آرٹس کونسل کراچی سے رجوع کریں۔ہم انہیں ہر طرح کا تعاون فراہم کریں گے۔ محمد احمد شاہ نے مزید کہاکہ حسینہ معین اور نورالہدیٰ شاہ جیسے لکھنے والوں نے خواتین کو بااختیار کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، آج کی خواتین اور بچیاں اب پہلے جیسی کمزور نہیں رہیں بلکہ وہ بہادر ہیں۔
بہرحال دل چسپ گفتگوکا سلسلہ مزید جاری رہتا اگر وقت کی تنگی نہ ہوتی۔شرکاء کی تالیوں کی گونج میںسیشن اختتام پزیر ہوا توحسب روایت سیلفیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا،ساتھ ہی دوسرے سیشن کی تیاری بھی نظر آنے لگی اور ہم نہ چاہتے ہوئے بھی ہال سے باہر آگئے۔
زندگی کی آخری سانس تک تھیٹر کروں گی،ہندوستان تھیٹر کی ڈائریکٹر،نادرہ ظہیر ببر
بھارت سے آئی ہوئی ہندوستان تھیٹر کی ڈائریکٹرنادرہ ظہیر ببر نے کہا کہ ہمارے دل میں پاکستان آنے کی دیوانگی رہتی ہے ۔ ہم کہیں بھی ہوں ایک دوسرے کے لیے نیک جذبات رکھتے ہیں۔میرے والدین کی تربیت کی وجہ سے مجھے پاکستان سے محبت ہے۔میں کینیڈا،امریکا جاتی ہوں لیکن پاکستان آنا میرے لیے اتنی بڑی بات ہے جیسے میں جنت میں آگئی ہوں۔ میں انیس سال کی تھی تو میں نے تھیٹر میں کام کرنا شروع کیا تھا۔میںاسکول آف ڈراما کی گریجویٹ ہوں ،گولڈ میڈلسٹ ہوں ۔ جرمنی سےمیں نے تھیٹر پڑھاآج میں اکہتر سال کی ہوں اور تھیٹر کر رہی ہوں ۔مجھ سے لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے ٹی وی پر کام کیوں نہیں کیا، وہاں توآپ آسانی سے پیسے کما سکتی تھیں،فلمیں کیوں نہیں کیں ،آپ تو آسانی سے کر سکتیں تھیں ،ممبئی میں رہتی تھیں،اداکارراج ببر سے شادی ہوئی تھی، فلموں سے آفر تو آئی ہوںگی،بے شک مجھے آفرز ہوئیںلیکن تھیٹرمیراجنون ہے۔ آخری سانس تک تھیٹر کروں گی۔رہ گئی معیار کی بات تو اچھا،برا،معمولی،بہترین،جو بھی کام کیا جارہا ہے یاہم سب جو یہاں بیٹھے ہیں کبھی اچھا، کبھی برا کام کرتے ہیں،کبھی کرتے ہوئے بھی ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہ اتنا اچھا نہیں ہے جتنا ہم نے سوچا تھا۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم کام کرتے ہوئے سوچتے ہیں کہ صحیح نہیں ہورہا لیکن وہ بہترین ہوجاتا ہے،کبھی اچھا سمجھتے ہیں اور وہ بہترین ہوجاتا ہے۔یہ باتیں ہم محسوس کرتے رہیں گے ،کیوں کہ اس کام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ زندہ جاوید فن ہے۔ فن کار چاہے جتنا اچھا لباس پہن لے،میک اپ کر لے،چاہے جتنی تیاری سے آجائے لیکن جب وہ اسٹیج پر آتا ہے تو فیصلہ ہوجاتا ہے کہ اسے کس سطح تک سراہا جارہا ہے۔یہ فیصلہ سامعین کرتے ہیں۔اگر سامعین بیزاری دکھاتے ہیں تو وہیں آپ کا اعتماد ٹوٹ جاتا ہے۔ایسا میرے ساتھ بھی ہوتا ہے جب میں معیاری کام نہیں کرتی ۔غیر معیاری کام ہم سب نے کیا ہوگا،کیوں کہ جب ہم خلوص سے کام کرتے ہیں تو ہم یہ جان لیتے ہیں کہ کب ہم کام بہترین کررہے ہیں اور کب نہیں۔نادرہ ظہیر ببر نے پرجوش لہجے میں کہا کہ آج یہاں سامعین کو دیکھ کر یہ کہے بنا ء نہیں رہ سکتی کہ میں نےاتنی اچھی ’’آڈینس‘‘پہلے کبھی نہیں دیکھی۔جس طرح یہ اپنے جذبات کا اظہار کررہے ہیں،کم ہی ایس نظر آتا ہے۔