آخرکار پاکستان اور بھارت کی حکومتیں باباگورو نانک کی 550ویں سالگرہ ایک منفرد اور تاریخی انداز میں منانے کیلئے رضامند ہوگئی ہیں،دونوں ممالک کے مابین روائتی تلخ سفارتی تعلقات کے تناظر میں یہ امر بہت سے لوگوں کیلئے خوشگوارحیرت کا باعث بنا ہے کہ بھارتی شہریوں کو پاکستانی علاقے میں واقع تاریخی گوردوارہ کرتار پور صاحب میں بغیر ویزے زیارت کی اجازت دینے پر اتفاق کرلیا گیاہے، کرتارپور راہداری کے حوالے سے وزیراعظم پاکستان عمران خان باضابطہ طور پر 28نومبر کوایک تقریب میں اعلان کررہے ہیں جس میں بھارتی رہنماؤں اور دونوں اطراف کے امن کے متلاشی شہریوں کی کثیر تعداد مدعو ہے۔سکھ مت کے بانی بابا گورونانک کا جنم 1469ء کو موجودہ پاکستان میں ہوا تھا، انکا شمار انسانی تاریخ کے نمایاں ترین مذہبی رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی تعلیمات سے امن، محبت، یکجہتی اور انسانیت کا درس عام کیا، باباگورونانک کا ماننا تھا کہ تمام انسان برابر ہیں اور انسان کو بغیر کسی تفریق کے اسکی صلاحیتوں اور اعمال کی بدولت پہچانا جائے، گورمکھی زبان میں انہوں نے اپنی شاعری میں زور دیا کہ خدا ایک ہے جو سب کی سنتا ہے،مخلوقِ خدا کو اپنے رب سے ڈائریکٹ رابطہ استوار کرنا چاہیے، انہوں نے کرتار پور نامی گاؤں بسایا جہاں انکے ماننے والے دن رات انکی تعلیمات سے استفادہ حاصل کرنے موجود رہتے، انہوں نے خدمت انسانیت کا عملی مظاہرہ پیش کرنے کیلئے مفت لنگر کا اہتمام کیا جہاں سے تمام لوگ ایک ساتھ اکٹھے کھانا کھاسکتے تھے، بابا نانک نے تمام مذاہب کے مابین ہم آہنگی کے فروغ کیلئے مختلف مقامات بشمول مکہ مکرمہ کا بھی سفر کیا۔ بابا گورونانک اپنی زندگی کے آخری اٹھارہ سال کرتارپور میں گزارنے کے بعد خالقِ حقیقی سے جاملے۔ انسانیت، برداشت اور رواداری کاپیغام دینے والے باباگورونانک کی آخری رسومات ہر مذہب کا ماننے والا اپنے عقائد کے مطابق ادا کرنے کا خواہاں تھا، یہی وجہ ہے کہ آج کرتار پور میں انکی سمادھی اور قبر دونوں موجود ہیں۔ برصغیر کی تقسیم نے لاکھوں کروڑوں خاندانوں کو جدا کرتے وقت بھلائی کا درس دینے والے گورونانک سے منسوب مقدس مقامات کو بھی الگ کردیا،ضلع گورداسپوربشمول ڈیرہ بابا نانک شہرکو انڈیا میں شامل کردیا گیا جبکہ دریائے راوی کے دوسرے کنارے تاریخی کرتار پور پاکستان کا حصہ بن گیا۔باباگورونانک کے ماننے والوں میں ہر مذہب کے لوگ شامل ہیں لیکن دوطرفہ تلخ سفارتی تعلقات نے انڈیاکے نانک نام لیواؤں کیلئے فقط چار کلومیٹر کی دوری پرواقع گوردوارہ کرتارپور صاحب کی یاترا ناممکن بنا دی، آزادی کے بعد پچاس برس تک گوردوارہ ایک ویرانے کا منظر پیش کرتا رہا جہاں کبھی کبھار مقامی مسلمان فاتحہ پڑھنے آجاتے، آج بھی انڈیا کے یاتریوں کو ویزے کی تمام مشکلات کو عبور کرتے ہوئے پہلے واہگہ کے راستہ لاہور آنا ہوتا ہے، جہاں سے وہ لگ بھگ 130کلومیٹر کا سفر بجانب نارووال طے کرتے ہیں، ایسی صورتحال میں سرحد پار کے یاتری بارڈر سے دوربین کے ذریعے گوردوارہ کرتارپور کی عمارت کے درشن کرکے آنسو بہایا کرتے۔ کرتارپور راہداری کا تذکرہ نوے کی دہائی میں شروع ہوا لیکن دو دہائیاں بیت جانے کے بعد رواں برس اگست میں یک دم میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا جب نومنتخب وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے بھارتی پنجاب کے وزیر نوجوت سنگھ سدھوکی پاکستان آمد ہوئی، دونوں دیرینہ دوست اور کرکٹ کے میدان کے مایہ ناز کھلاڑی رہ چکے ہیں۔ بھارتی وزیر کو انڈین میڈیا نے دوران تقریب پاکستانی آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے ساتھ بغلگیر ہونے پر ہدف تنقید بنایا، واپسی پر سدھو نے یہ اعلان کرکے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ پاکستانی فوج کے سربراہ نے انہیں آگاہ کیا ہے کہ پاکستان باباگورونانک کی 550ویں سالگرہ منانے کیلئے کرتارپور بارڈر کھولنے کیلئے رضامند ہے۔ یہ اس دن کی سب سے بڑی خبر قرار پائی اور تاحال اس پر میڈیا پر تبصرے جاری ہیں، سدھو نے مقدس ہندو ویدوں کا بھی حوالہ دیا کہ ہر حال میں رابطہ کا دروازہ کھلا رکھنا چاہیے کیونکہ رابطے کے فقدان کی بدولت شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں اور باہمی اعتماد کو دھچکا لگتا ہے۔ سدھو کے دعویٰ کی تصدیق پاکستان نے باضابطہ طور پر کرتارپور بارڈر کھولنے پر رضامندی ظاہر کرکے دی، اگلے چند دنوں میں بھارتی پنجاب کی اسمبلی نے متفقہ قرارداد منظور کرکے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ حکومت پاکستان سے ڈیرہ بابا نانک تا کرتارپور کوریڈور کی راہ ہموار کرنے کیلئے بات چیت کا عمل شروع کریں، آخرکارانڈین کابینہ نے کرتار پور راہداری کو عملی شکل دینے کی منظوری دے دی۔ میں سمجھتا ہوں کہ علاقائی امن و استحکام اور ہم آہنگی کا سفر صرف ایک راہداری تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ دونوں ممالک کو آگے بڑھ کر ایسی مزیدبے شمار راہداریاں لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کیلئے قائم کرنی چاہیے۔ تاریخ بتلاتی ہے کہ آج کی سپر پاور امریکہ کا معاشرہ بھی کسی زمانے میں کالے اور گورے شہریوں کے مابین سماجی تفریق کا شکار تھا، امریکی صدر ابراہام لنکن نے غلامی کا خاتمہ اور تمام شہریوں کو برابری کے حقوق یقینی بناکر ملک کو ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن کردیا۔یورپی ممالک کی تاریخ ایک دوسرے کے خلاف جنگوں سے بھری پڑی ہے لیکن آج وہ یورپی یونین کی چھتری تلے متحد ہیں، شمالی اور جنوبی کوریا دونوں کے درمیان عوام کی بہتری کی خاطر دشمنی ترک کرنے پر اتفاق ہوچکا ہے۔ آج احترامِ انسانیت کا درس دینے والے باباگورونانک ہمارے درمیان موجود ہوتے تو مجھے یقین ہے کہ وہ بہت خوش ہوتے کہ ستر سال کے بعد آخرکار انڈیا اور پاکستان نے بھی عوام کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی ضرورت سمجھ لی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اس تاریخی اقدام کا کریڈٹ دونوں اطراف کی سیاسی و عسکری قیادت کو جاتا ہے اور یہ امن کی راہداری وادی کشمیر کے منقسم خاندانوں کیلئے بھی امید کی کرن ثابت ہوگی۔ آج ہم سب کو ملکر خدا سے دعا کرنی چاہیے کہ کرتار پورکوریڈور عالمی امن اور مذہبی ہم آہنگی کیلئے کلیدی کردارکا حامل ثابت ہو،ایکوسِکھ نامی ایک امریکی این جی اوگوردوارہ کرتارپور صاحب کے اردگرد 100ایکڑ پر مقدس جنگل قائم کرنے کی تجویز دے چکی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایسا ہوجائے تو پاکستان مذہبی سیاحت کی بدولت دنیا بھر کے یاتریوں کی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے، کرتارپور میں گورونانک انٹرنیشنل انٹرفیتھ ہارمونی سینٹر کا بروقت قیام دنیا کے دیگر فلاحی اداروں کی توجہ بھی حاصل کرسکتا ہے۔ بطور پاکستانی ہمیں کرتارپور راہداری قائم کرتے ہوئے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انڈیا میں بھی مسلمانوں کے بہت سے مذہبی مقدس مقامات بشمول اجمیر شریف موجود ہیں، ایک تاریخی درگاہ پاک بھارت سرحد سے ملحقہ بھارتی علاقے راجا تال میں قائم ہے، یہ درگاہ دو عظیم صوفی بزرگوں حضرت خدمت علی شاہ اور حضرت عظمت علی شاہ سے منسوب ہے، قیام پاکستان کے بعد تمام مسلمان آبادی ہجرت کر گئی، بعد میں پاکستانی علاقے سے زائرین درگاہ کی زیارت کیلئے آتے رہے لیکن بارڈر پر خاردار تاریں لگانے کے بعد پاکستانی زائرین کا داخلہ بند ہوگیا۔ یہ امر باعثِ دلچسپی ہے کہ آج اس تاریخی درگاہ کے سجادہ نشین اور زائرین سب کے سب غیرمسلم ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے جانے کے بعدبطور امانت درگاہ کے انتظامات سنبھالے ہوئے ہیں۔خدا ترسی پر مبنی ایسے حقائق واضح کرتے ہیں کہ دنیا میں آج بھی خدا کا گھر آباد کرنے والے موجود ہیں، یہ خدا کے گمنام عظیم لوگوں ہی کی برکت ہے کہ تمام تر سماجی خرابیوں کے باوجود خدا نے ہمیں بڑے عذاب سے محفوظ رکھے ہوا ہے۔ کرتار پور کوریڈورکے اگلے مرحلے میں انڈیا کو بھی پاکستانی زائرین کیلئے ایسی درگاہیں، مساجد اور مزارات کی زیارت کیلئے ویزہ فری داخلے کیلئے نظام وضع کرنے کیلئے بات چیت کا آغاز کرنا چاہیے۔ آج میں کرتارپور کوریڈور کے افتتاح کے موقع پر توقع کرتا ہوں کہ حکومتِ پاکستان عالمی ہندو یاتریوں کیلئے ہنگلاج ماتا مندربلوچستان، شری آنندپور مندر ٹیری خیبرپختونخوا کھولنے کیلئے بھی اسی انداز میں انتظامات کرے گی۔ مشترکہ تاریخ کے حامل دونوں ممالک آزادی کے سترسالوں میں ایک دوسرے سے ہر محاذ پر دشمنی کرتے آئے ہیں،دوطرفہ مخالفانہ رویوں نے انہیں جنگوں اور ہتھیاروں کی دوڑ کیلئے بھی اکسایا۔کاش، آج کے دن دونوں ممالک کی قیادت باہمی طورپرعظیم ابراہام لنکن کے اس اقوام زریں کا حقیقی مفہوم سمجھنے کے قابل ہوجائے کہ "کیا میں اپنے دشمنوں کو ختم نہیں کرتا جب میں انہیں اپنا دوست بنالیتا ہوں"؟