وقت کے ساتھ خواتین کی اہمیت اور ان کی صلاحیتوں کو نہ صرف تسلیم کیا جارہا ہے بلکہ اس کا اعتراف بھی کیا جارہا ہے۔ ہرچندکہ اس کی رفتار بہت سست ہے، تاہم اسے ایک مثبت تبدیلی ضرور قرار دیا جاسکتا ہے۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کی بڑھتی ہوئی اہمیت کوتسلیم کرتے ہوئے کئی ادارے ایسی مایہ ناز سیلیبرٹیز اور خواتین کو خراج بھی پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسی ہی ایک کوشش کے تحت،بین الاقوامی جریدے Peopleنےایسی خواتین کی فہرست جاری کی ہےجنھوں نے سال 2018 کے دوران دنیا کو بدلنے کی کوشش کی ہے۔
کیتھی نجمی
کیتھی نجمی ہالی ووڈ ایکٹریس، کامیڈین اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن ہیں۔ فلمی شائقین کیتھی کو ہالی ووڈ کی فلموں Sister Actاور Hocus Pocusمیں بہترین کردار نگاری کے حوالے سے جانتے ہیں۔ وہ براڈوے کے اسٹیج ڈراموں میں بھی اداکاری کرتی ہیں۔ وہ خواتین کے علاوہ جانوروں کے حقوق کے لیے بھی کام کرتی ہیں۔ خواتین کے حقوق کے لیے شروع ہونے والی مہم MeToo# میں بھی کیتھی نجمی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ کیتھی کی ان ہی کوششوں کے باعث ہیلری کلنٹن جیسی شخصیت بھی ان کے کاموں کی معترف ہیں اور ان کی فنڈ ریزنگ مہم میں بھی شرکت کرچکی ہیں۔
پریانکا چوپڑا
2000ء میں مس ورلڈ کا ٹائٹل جیتنے کے بعد ہی پریانکا چوپڑا کو احساس ہوچکا تھا کہ وہ ایسا کچھ کرسکتی ہے، جو عالمی سطح پر فرق پیدا کرے۔ 36 سالہ ’کوانٹیکو‘ اسٹار 12سال سے یونیسیف کے عالمی خیرسگالی کے سفیر کے طور کام کررہی ہیں اور اس دوران وہ ممبئی کی کچی آبادیوں سے لے کر زمبابوے کے ان پسماندہ ترین علاقوں میں جاچکی ہیں، جہاں لوگ ضرورت پوری ہونے کے لیے ہر وقت کسی کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ پریانکا چوپڑا کہتی ہیں، ’مجھے خصوصاً فیلڈ دوروں پر جاکر لوگوں سے ملنا بہت اچھا لگتا ہے ۔
نیئا بیٹس اور صوفیا بش
نیئا بیٹس کا تعلق امریکا کی گہری رنگت سے تعلق رکھنے والی کمیونٹی سے ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ اکثر یہ دیکھتی تھیں کہ گہری رنگت کی خواتین کو سیلونز(Saloons) میں خدمات فراہم نہیں کی جاتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے اپنی بزنس پارٹنر کیٹی کاکریل کے ساتھ مل کر اپنی دوست One Tree Hillکی اسٹار صوفیا بش سے مل کر امریکی سیلونز کی اس بُری کاروباری عادت کو ’موقع‘ میں بدلنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے مل کرDetroit Blowsکے نام سے ایک سیلون کا آغاز کیا، جہاں تمام رنگت کی جِلد رکھنے والوں کو بلا تفریق خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ تینوں خواتین ہر سروس پر1ڈالر اضافی وصول کرتی ہیں اور اس میں اپنی آمدنی کا25فیصد حصہ ڈال کر تمام رقوم نئی خواتین انٹرپرنیوئرز کی مدد پر خرچ کرتی ہیں۔
جینا روڈری گز
ایک ترقی یافتہ اور پہلی دنیا کا ملک ہونے کے باوجود امریکا میں نہ صرف صنفی تفریق پائی جاتی ہے، بلکہ وہاں پر رنگت اور نسلی بنیادوں پر بھی تفریق موجود ہے۔ ہالی ووڈ جیسی آزاد خیال اور دنیا بھر کے ناظرین کو متاثر کرنے والی انڈسٹری بھی اس تفریق سے مبرا نہیں ہے، جہاں خصوصاً جلد کی رنگت کی بنیاد پر تفریق کی جاتی ہے۔ ہالی ووڈ میں نہ صرف صنفی بنیادوں پر کم زیادہ معاوضے دیے جاتے ہیں، بلکہ معاوضے کے تعین میں جلد کی رنگت کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔ہالی ووڈ فلم Jane the Virgin میں مرکزی کردار حاصل کرنے کے بعد ، گہرے رنگت کی 34سالہ اداکارہ جینا روڈری گزنے اپنے کام کی جگہ کو زیادہ متنوع بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے تحت جینا روڈری گز نے I Can and I Will Productionsکی بنیاد رکھی۔
لیزا بارڈرز
لیزا بارڈرز Time’s Upکی پہلی سی ای او اور صدر ہیں۔ یہ ادارہ خواتین کو ہراساں کرنے اور کام کی جگہوں پر خواتین کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف کام کرتا ہے۔ سب سے پہلے اسی نام سے ایک مہم کا آغاز کیا گیا تھا، یہ مہم خواتین کی بے پناہ سپورٹ ملنے کے بعد جلد ہی ایک ادارے میں بدل گئی۔ وہ کہتی ہیں، ’یہ خواتین اور مردوں کے مابین طاقت کے تعلق کو نئے سرے سے قائم کرنے کا موقع ہے۔ اکثر یہ ایک ایسا سفر ثابت ہوتا ہے جس میں ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے جانا پڑتا ہے، تاہم اس کا مقصد اتنا بڑا ہے کہ یہ کرنا بھی منظور ہے‘۔
نازنین بونیادی
ایران میں پیدائش کے 21روز بعد نازنین کے والدین اپنی بیٹی کو لے کر لندن منتقل ہوگئے تھے، جہاں خواتین کےپاس ترقی کے زیادہ مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔ ’میرے والدین نے میرے مستقبل کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ میں اس بات کوکبھی نہیں بھولتی‘، ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ساتھ6سال تک ایران میں غیرقانونی طور پر قید افراد کی رہائی کے لیے کام کرنے کے بعد اس وقت وہ ’سینٹر فار ہیومن رائٹس اِن ایران‘ کے بورڈ پر خدما ت سرانجام دے رہی ہیں۔
لینا ویتھ
لینا ویتھ گہری رنگت کی جِلد رکھنے والی پہلی خاتون ہیں، جنھوں نے نیٹ فلیکس کے Master of None کے لیے ’کامیڈی رائٹنگ ایوارڈ‘ جیتا ہے۔ شکاگو کی رہائشی 34سالہ لینا ویتھ کہتی ہیں، ’میں رائٹرز، ڈائریکٹرز اور اداکاروں کے ساتھ مل کر ہالی ووڈ کا تشخص بدلنا چاہتی ہوں۔میں امید رکھتی ہوں کہ لوگوں میں ایک دوسرے کو سُننے اوربرداشت کرنے کی ہمت پیدا ہوگی اور انھیں احساس ہوگا کہ ہم سب ایک دوسرے سے مختلف نہیں بلکہ ایک جیسے ہیں‘۔
وہ مائیں جنھوں نے اپنے بچے کھودیئے
’ہمیں لوگوں کو پیسے پر فوقیت دینا ہوگی‘، 45سالہ شینی جانسن کہتی ہیں، جنھوں نے 2010ء میں ایک پارٹی میں اپنے نوجوان بیٹے کیڈرک کو گولی لگنے کے باعث کھودیا تھا۔ کیڈرک نے سانحہ سے چند ہفتے قبل ہی ہائی اسکول سے گریجویٹ کیا تھا۔ ’ہم محض سادہ سے کامن سینس قوانین کا مطالبہ کررہی ہیں،‘ یہ پیغام ہے شینان واٹس کا، جنھوں نے 2012ء کے سینڈی ہوک ایلیمنٹری اسکول فائرنگ واقعہ کے بعد Moms Demandنامی ایک غیرجانبدار ادارے کی بنیاد رکھی ۔ 47سالہ واٹس 5 بچوں کی ماں ہیں اور وہ سمجھتی ہیں کہ امریکا میں شروع ہونے والی ہر جدوجہد کی بنیاد خواتین نے رکھی ہے۔ ’میں اعداد کی طاقت پر یقین رکھتی ہوں۔ میرا یقین ہے کہ ہم جب بھی کسی مقصد کو لے کر نکلتی ہیں، ہمیں نظر آتا ہے کہ اس مقصد کے لیے کئی اور خواتین پہلے ہی کام کررہی ہیں‘۔
جیمی مارگولن اور نادیہ نذر
جیمی مارگولن اور نادیہ نذر اپنے اسکول کے بعد فارغ وقت میں Zero Hourنامی ایک مہم پر کام کرتی ہیں۔ ’زیرو آور‘ ان نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے، جو ماحولیاتی تبدیلی کے لیے کام کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس مہم کے ذریعے جیمی مارگولن، نادیہ نذر اور ان کے ساتھ شامل ہونے والے دیگر رضاکار امریکا کے مختلف شہروں میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے متعلق آگہی پیدا کرنے کے لیے روڈ شوز اور دیگر سرگرمیوں کا انعقاد کرتی ہیں۔
شیرون فیلڈسٹین اور پیٹسی نوح
شیرون اور پیٹسی بچپن کی دوست ’پاور مدرز‘ ہیں۔ ان دونوں ماؤں کے بچے ہالی ووڈ کے معروف اداکار ہیں۔ شیرون اور پیٹسی نے معروف اور مشہور شخصیات کی ماؤں پر مشتمل ایک ادارے Your Mom Caresکی بنیاد رکھی ہے ۔ یہ ادارہ پسماندہ بچوں کے مفادات کے لیے کام کرتا ہے۔ 63سالہ فیلڈسٹین کہتی ہیں، ’ہم ان بچوں کی آواز بنتی ہیں، جن کی کوئی سُننے والا نہیں۔ ہم شکرگزار ہیں کہ ہمیں یہ نیک کام کرنے کا موقع ملا ہے۔
پامی اوریو
پامی اوریو امریکی سیاستدان، مصنفہ اور فلوریڈا کی ڈپٹی میئر رہ چکی ہیں۔ اس وقت وہ Big Brothers Big Sisters نامی ادارے کی چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیں۔ اس ادارے کا مقصد امریکی معاشرے میں فیملی سسٹم کو فروغ دینا ہے۔وہ کہتی ہیں، ’فیملی سسٹم میں رہنے والے بچے اسکول میں زیادہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں، ان کی خواہشیں زیادہ عملی اور بلند ہوتی ہیں اور ان میں عزتِ نفس بہت زیادہ ہوتی ہے‘۔
ٹارا میسن، ٹینا اسٹرائیڈ اور لیزا میلچر
مغربی ورجینیا میں آبادی کے ایک قابلِ ذکر حصے کو افیون کی لت لگ گئی تھی۔ افیون کی لت کا شکار ہونے والے افراد میں خود ٹارا میسن، ٹینا اسٹرائیڈ اور لیزا میلچر کی اپنی فیملی کے لوگ بھی شامل تھے۔ لوگوں کو اس لت سے نکال کر انھیں واپس نارمل زندگی میں لوٹانے کے لیے ان تینوں خواتین نے The Hope Dealer Project کا آغاز کیا۔ اس پروجیکٹ کا مقصد افیون کے نشئی افراد اور ان کے خاندان کو پرسنل سپورٹ فراہم کرنا تھا۔ ’ہم لوگوں کی مدد کرنے پر یقین رکھتے ہیں، چاہے وہ کسی بھی صورت میں ہو‘۔ وہ افیون کے نشئیوں کو ڈی ٹاکس اور ان کی زندگیوں کو بحال کرنے کے لیے، ضرورت پڑنے پر اپنے ذاتی وسائل سے خرچ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔
پیگی وِہٹسن
پیگی وِہٹسن وہ امریکی خاتون ہیں، جنھوں نے کسی بھی امریکی فرد کے مقابلے میں خلاء میں زیادہ وقت گزارا ہے (665دن)۔ ’اپولو 11کے چاند پر قدم رکھنے کے وقت سے ہی میں خلاباز بننا چاہتی تھی‘، 58سالہ بائیو کیمسٹ کہتی ہیں۔ وہ انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کی کمان کرنے والی بھی اولین خاتون ہیں۔ ’میں خود کو خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ مجھے اس سفر میں ان مشکلات کا احساس تک نہیں ہوا، جو میرے راستے میں آئیں‘۔ وہٹسن نے سیکڑوں تجربات پر کام کیا ہے، جن میں سپر کنڈکٹر کرسٹل سے لے کر سویابین اور اسٹیم سیل شامل ہیں، ان تجربات نے مصنوعی ذہانت (AI)، طب اور زراعت کے شعبے میں نئی جہتیں متعارف کرائی ہیں۔
بونی ہیمر
ایک جگہ بونی ہیمیر کی سوتیلی بیٹی ’کِمی‘ کو اس کی گہری رنگت کے باعث نوکر سمجھ لیا گیا ۔ اس واقعے کے بعد این بی سی یونیورسل کیبل کی چیئرپرسن بونی ہیمر نے اس غیرارادی تفریق اور تعصب کو ختم کرنے کے خلاف کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ 68سالہ بونی ہیمر نے1994ء میں Erase The Hateنامی ادارے کی بنیاد رکھی۔ اس ادارے کو حال ہی میں ری لانچ کیا گیا ہے اور یہ ان کمیونٹی لیڈرز کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے، جو اپنی اپنی کمیونٹیز میں تعصب کے خلاف کام کررہے ہیں۔ ’ہم نے سُننے کا ہُنر کھو دیا ہے، ہم یہ سُننے اور دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے کہ لوگ کیا سوچتے اور محسوس کرتے ہیں‘۔
سارا اَلمین
2016ء میں اورلینڈو نائٹ کلب میں فائرنگ کے نتیجے میں 49افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس اندوہناک واقعے کے بعد سارا نے کچھ کرنے کی ٹھانی۔ 30 سالہ سارا اَلمین لاس اینجلس میں فلم میکر ہیں۔ اس نے One Vote at a Timeکے نام سے ایک مہم کا آغاز کیا، جس کا مقصد بندوق کے ذریعے بڑھتے تشدد کو کم کرنا ہے۔ اس مہم کے تحت خواتین مل کر کام کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’امریکی کانگریس کے مقابلےمیں افغانستان کی پارلیمان میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے، یہ حیران کن ہے۔اس مہم کے ذریعے ہم خواتین کی آواز بن رہی ہیں اور یہ جتلانے کی کوشش کررہی ہیں کہ خواتین بھی ایسے واقعات سے متاثر ہوتی ہیں۔
اَناستاسیا ہیجن بوتھم
موت، نسل، طلاق اور اس جیسے کئی اور پیچیدہ مسائل کو ہیجن بوتھم اپنی کتاب Ordinary Terrible Thingsکے ذریعے نوعمر قارئین کے لیے پیش کرتی ہیں۔ ’یہ ایک ایسی سیریز ہے جو میںسوچتی ہوں کہ مجھے بھی بچپن میں حاصل ہوتی‘۔ اَناستاسیا ہیجن بوتھم 2 بچوں کی ماں ہیں اور کہتی ہیں کہ جو بھی بچہ ان کی لکھی ہوئی کہانی سُنتا اور پڑھتا ہے اسے لگتا ہے کہ یہ اس کی اپنی کہانی ہے۔ 47سالہ اَناستاسیا ہیجن بوتھم نے کتابوں کی سیریز کا آغاز 2015ء میں Divorce Is the Worst سے کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی کتابیں بچوں کو محسوس کرنے کی آزادی دیتی ہیں۔ ان کی نئی کتاب Not My Idea: A Book About Whitenessامریکا میں نسلی امتیاز کا احاطہ کرتی ہے۔