• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا، پھر اسے زمین کے سوتوں میں پرو یا، پھر وہ اس پانی سے ایسی کھیتیاں وجود میں لاتا ہے جن کے رنگ مختلف ہیں، پھر وہ کھیتیاں سوکھ جاتی ہیں تو تم انہیں دیکھتے ہو کہ پیلی پڑ گئی ہیں، پھر وہ انہیں چُورا چُورا کر دیتا ہے۔ یقیناً ان باتوں میں ان لوگوں کے لیے بڑا سبق ہے جو عقل رکھتے ہیں۔‘‘ ((سورۃ الزمر، آیت 21)) آیت میں اللہ تعالیٰ نے پانی سے وابستہ ان چار نظاموں کا ذکر فرمایا جن کے ہونے سے زندگی موجود ہے اور نہ ہونے سے زندگی مفقود۔ یہ نظام درج ذیل ہیں۔بارش کا پانی۔ زیرزمین پانی کے ذخائر کا نظام۔ زراعت کا نظام۔ زراعت کے نتیجے میں انسانوں اور جانوروں کی خوراک کا نظام۔

آسمان سے بارش کے ذریعے پانی برستا ہے جو زیرزمین ذخائر میں تبدیل ہو جاتا ہے، وہاں سے زراعت کے کام آتا ہے۔ کھیتیاں جب پک کر سوکھتی ہیں تو انسانوں کو دانہ ملتا ہے اور زرد بنتی ہیں تو بھس بنتی ہیں جس سے جانوروں کو خوراک میسر ہوتی ہے۔اس لیے پانی انسانی زندگی کا نہایت اہم غذائی جزو ہے۔ ہمارا دوتہائی جسم پانی ہی پر مشتمل ہے۔ پانی جسم انسانی کی بناوٹ اور اس کی مشینری کے اندر افعال انجام دینے میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کی غیر موجودگی یا کمی کی صورت میں انسانی جسم مختلف خرابیوں سے دوچار ہو جاتا ہے۔ پانی کے ذریعے انسانی جسم میں درج ذیل افعال بخوبی انجام پاتے ہیں۔یہ خون کو مائع حالت میں رکھنے میں مددگار بنتا ہے۔ غذا کو بڑی آنت کے ذریعے جذب کرنے میں مدد دیتا ہے۔ پانی کی مناسب مقدار کے باعث جسم کا درجۂ حرارت ہر موسم میں معمول پر رہتا ہے۔ یہ جسم سے فاضل مادوں کو پیشاب کے ذریعہ خارج کرتا ہے۔ خوراک کے ہضم ہونے میں مددگار ہے۔ بخار کی حالت میں پانی پلانے سے حدّت دور ہوتی ہے۔اس کے برعکس اگر جسم میں پانی کی کمی ہو جائے تو خون میں غذائی رطوبتیں شامل ہو جاتی ہیں۔ اس کے سبب خون گاڑھا ہو جاتاہے۔اگر جسم میں پانی کی شدید کمی (ڈی ہائیڈریشن) جنم لے تو درج ذیل کیفیات پیدا ہو جاتی ہیں۔ نظر کی دھندلاہٹ۔ خشک اور گرم جلد۔ نبض کی رفتار میں اضافہ اور سانس کا پھولنا۔ سماعت کی کمی۔

زندگی کا دارومدار پانی پر ہے، ماہرین کا کہنا یہ بھی ہے کہ دنیا میں برپا ہونے والی تیسری بڑی عالمی جنگ پانی پر ہوگی ۔ اگر ہم اس عالمی مسئلے پر قابو پانا چاہتے ہیں تو ہمارے دوسرے مسائل کی طرح اس کا حل بھی ہمیں حضور اکرم ﷺ کی مبارک تعلیمات میں تلاش کرنا ہوگا۔ چناںچہ حدیث پاک میں ہے، حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ سعد بن ابی وقاصؓ کے پاس سے گزرے اس حال میں کہ وہ وضو کر رہے تھے تو آپﷺ نے فرمایا: یہ اسراف کیوں ہے؟ تو حضرت سعد ؓنے عرض کیا: کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: جی ہاں! اگرچہ تم بہتی نہر پر ہی (وضو کیوں نہ کر رہے) ہو۔عرض کیا: کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے! حضورﷺنے ارشاد فرمایا ’’جی ہاں! اگرچہ تم بہتی نہر پر ہی (وضو کیوں نہ کر رہے) ہو‘‘۔

حدیث پر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ اگر اسراف سے بچیں تو ہم اپنے اس مسئلے پر قابو پا سکتے ہیں۔ کیونکہ اسراف ہی ایک ایسی بیماری ہے جو بڑی سے بڑی نعمت کو وقت سے پہلے ختم کر دیتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جا بجا اسراف سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔ چناںچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور کھائو اور پیو اور فضول خرچی مت کرو، یاد رکھو کہ اللہ فضول خرچ لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔ (سورۃ الاعراف، 31))ایک جگہ تو فضول خرچی کرنے والوں کو شیاطین کا بھائی قرار دیا گیا ہے، چناںچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’یقین جانو کہ فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔

بہ حیثیت مسلمان ہمیں یہ بھی احساس ہونا چا ہیے کہ ہمارا رب ہم پر نظر رکھے ہو ئے ہے کہ ہم اس کی نعمتوں کا استعمال کیسے کر تے ہیں،اس کی واضح مثال اللہ کے وہ احکام قرآنی ہیں جس میں خالق کائنات نے بارہا نشان دہی کی ہے ۔سورۂ بنی اسرائیل میں ہے کہ فضولیات میں مال اڑانے والے شیطان کے بھائی ہیں ۔جب کہ سورۃ الا نبیاء میں ہے: جن نعمتوں میں تم عیش کرتے ہو،تم سے اس بارے میں (باز پُرس) پوچھا جائے گا۔یہ آیت اس امر کی جانب نشاندہی کر تی ہیں کہ پانی بھی اللہ کی نعمتوں میں سے ایک ہے اور اس کا بے دریغ استعمال اور اس میںعدم اعتدال اسراف بے جا ہے اور یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے اس بارے میں نہ صرف حساب لے گا،بلکہ اس کے اسراف پر سزا بھی دے گا۔بہ حیثیت مسلمان ہمیں اپنی ذمے داریوں کو محسوس کرتے ہوئے پانی کے بے دریغ اور ناجائز استعمال کی روک تھام کرنی چاہیے۔پانی کا استعمال جہاں دیگر مقامات پر غیر محتاط انداز میں نظر آتا ہے،وہیں بدقسمتی سے مساجد میں وضو خانوں پر بعض افراد نل کھول کر بھول جاتے ہیں کہ پانی مستقل بہہ رہا ہے۔یہ بھی اسراف اور پانی کا غیر ضروری استعمال ہے۔

حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے ، انہوں نے فرمایا، جو تمہارا جی چاہے کھائو اور جو تمہارا جی چاہے پیو، جو چاہو پہنو، جب تک تم دو چیزوں اسراف اور بڑائی سے بچتے رہو۔حدیث بالا پر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ اگر ہم اسراف سے بچیں تو ہم اپنے اس اہم مسئلے پر قابو پا سکتے ہیں ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ پانی صرف پینے کی چیز ہی نہیں، بلکہ تمام جانداروں کے وجود کی اساس اور رب کائنات کی توحید پر ایک عقلی دلیل بھی ہے۔ اس لیے قرآن مجید میں ارشاد ہے:’’اور ہم نے پانی سے ہر جاندار چیز پیدا کی ہے، یہ پھر بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے؟‘‘(سورۃ الانبیاء، 30)

پانی کو نیلا سونا کہتے ہیں، یہ محض ایک عنصر ہی نہیں ،بلکہ خدائے وحدہ لا شریک کی قدرتِ کاملہ کا ایک مظہر بھی ہے۔ چناںچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔’’اچھا یہ بتائو! یہ پانی جو تم پیتے ہو، کیا اسے بادلوں سے تم نے اتارا ہے، یا اتارنے والے ہم ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اسے کڑوا بنا کر رکھ دیں۔ پھر تم کیوں شکر ادا نہیں کرتے؟

پانی صرف ہائیڈروجن اور آکسیجن گیس کا ملاپ ہی نہیں، بلکہ انسانی عبادات سے ہماری زراعت تک تمام چیزوں کے وجود کا ضامن بھی ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:’’وہی (اللہ) ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، جس سے تمہیں پینے کی چیزیں حاصل ہوتی ہیں اور اسی سے وہ درخت اُگتے ہیں جن میں تم مویشیوں کو چراتے ہو۔ اسی سے اللہ تمہارے لیے کھیتیاں، زینون، کھجور کے درخت، انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان سب باتوں میں ان لوگوں کیلئے بڑی نشانی ہے جو سوچتے سمجھتے ہوں۔ اس لیے درج بالا مضمون کی روشنی میں اگر میں یہ کہوں کہ ’’پانی ہی زندگی ہے‘‘ تو میرے خیال میں یہ مبالغہ نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس نعمتِ عظمیٰ کی صحیح معنوں میں قدر دانی نصیب فرمائے۔ (آمین)

تازہ ترین