• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اُردو یونی ورسٹی کالج کلچر سے نہیں نکل پائی، پروفیسر ڈاکٹر الطاف حسین

عکاسی: اسرائیل انصاری

پروفیسر ڈاکٹر الطاف حسین 7 نومبر 1948ء کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم بلوچستان، میٹرک اور انٹر حیدرآباد، بی ایس سی آنرز ، ایم ایس سی(کیمسٹری) سندھ یونی ورسٹی اور چیلسی کالج یونی ورسٹی آف لندن سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔پوسٹ ڈاکٹریٹ لوویزیانا اسٹیٹ یونی ورسٹی، امریکا سے کیا۔ کیرئیر کا آغاز بلوچستان یونی ورسٹی میں لیکچرر شپ سے کیا اور پھر ڈین، فیکلٹی آف سائنس کے عُہدے تک پہنچے۔ بعدازاں، یونی ورسٹی گرانٹ کمیشن اور ایچ ای سی سے گریڈ 22 کے افسر کی حیثیت سے وابستہ رہے۔ 2001ء میں علاّمہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کے وائس چانسلر بنے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد دو نجی یونی ورسٹیز کے وائس چانسلر رہے اور پھر دسمبر 2017 ء میں وفاقی اُردو یونی ورسٹی کے وائس چانسلر مقرّر ہوگئے۔ اِن دنوں اسی عُہدے پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔2001 ء میں اُنھیں شان دار تعلیمی خدمات پر تمغۂ حُسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔ گزشتہ دنوں ہماری پروفیسر ڈاکٹر الطاف حسین سے ایک خصوصی نشست ہوئی، جس میں مُلک میں اعلیٰ تعلیم کی صورتِ حال سمیت کئی موضوعات پر سیر حاصل بات چیت کی گئی۔ اس نشست کا احوال جنگ، سنڈے میگزین کے قارئین کی نذر ہے۔

اُردو یونی ورسٹی کالج کلچر سے نہیں نکل پائی، پروفیسر ڈاکٹر الطاف حسین
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

س:اپنے خاندان، ابتدائی تعلیم و تربیت کے بارے میں کچھ بتائیے؟

ج: میرے والدین تقسیمِ ہند کے بعد ناگ پور، بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آئے۔ چوں کہ والد ریلوے میں اسٹیشن ماسٹر تھے، تو اُنہیں کوئٹہ ڈویژن میں تعیّنات کر دیا گیا۔یوں میرا بچپن وہیں گزرا۔ابتدائی تعلیم بلوچستان کے مختلف شہروں میں حاصل کی۔ جہاں والد کا تبادلہ ہوتا، وہیں ہم منتقل ہو جاتے۔ اللہ تعالیٰ میری والدہ کو جنّت نصیب کرے، اُنہوں نے میری تعلیم کے لیے بہت قربانیاں دیں۔ والد صاحب کا ایسے علاقوں میں بھی تبادلہ ہوتا رہا، جہاں اُس زمانے میں اسکول تک نہیں تھے، تو مجھے دوسروں کے گھروں میں رہنا پڑتا تھا تاکہ تعلیم حاصل کر سکوں۔ ماں نے محض میری تعلیم کے لیے خود پر جبر کرکے یہ جدائی برداشت کی، حالاں کہ مَیں اکلوتا بیٹا تھا۔ مَیرا کئی کئی ماہ بعد گھر آنا ہوتا، مگر ماں ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کرتیں، ہمّت بندھاتیں۔ یقیناً مَیں نے زندگی میں جو کچھ حاصل کیا، وہ میری ماں ہی کی دُعاؤں کا ثمر ہے۔

س: بعد کے تعلیمی مراحل کیسے طے ہوئے؟ کیسے طالبِ علم تھے؟

ج: والد نے میری تعلیم کے لیے حیدرآباد تبادلہ کروا لیا، یوں میٹرک وہیں سے کیا اور پھر گورنمنٹ کالج، حیدرآباد سے انٹر کر کے سندھ یونی ورسٹی، جام شورو سے کیمسٹری میں بی ایس سی آنرز کیا۔ مجھے پڑھنے کا بے حد شوق تھا اور خاص طور پر کیمسٹری سے تو بہت ہی لگائو تھا، لہٰذا بی ایس سی آنرز میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن حاصل کی، حالاں کہ اُس دَور میں فرسٹ کلاس بھی کم آیا کرتی تھی۔ میرے علاوہ، صرف ایک لڑکی فرسٹ کلاس میں پاس ہوئی تھی اور تھرڈ پوزیشن، سیکنڈ ڈویژن والے نے حاصل کی تھی۔ پھر اللہ کا یہ بھی کرم ہوا کہ مَیں نے ایم ایس سی میں پوری فیکلٹی میں ٹاپ کرکے گولڈ میڈل حاصل کیا۔ میرا ارادہ سندھ یونی ورسٹی میں ملازمت کا تھا، لیکن بہ وجوہ وہاں ملازمت نہ مل سکی، جس پر اساتذہ کے مشورے سے بلوچستان یونی ورسٹی، کوئٹہ میں، جو اُن دنوں نئی نئی قائم ہوئی تھی، ملازمت کے لیے درخواست دے دی اور لیکچرر شپ بھی مل گئی۔ جسٹس درّاب پٹیل نے میرا انٹرویو لیا تھا، جو یونی ورسٹی کے پہلے وائس چانسلر تھے، وہ مجھ سے اتنے متاثر ہوئے کہ اُسی وقت اپنے ساتھ تدریس کے لیے لے جانا چاہتے تھے، مگر ضروری کاغذی کارروائی کے سبب ایسا نہ ہو سکا۔ اُس زمانے میں چیلسی کالج یونی ورسٹی آف لندن میں غیرمُلکی طلبہ کے لیے صرف ایک اسکالر شپ ہوتی تھی، جو عموماً کوئی بھارتی طالب علم حاصل کر لیتا تھا، مگر جب مَیں نے اپلائی کیا، تو کام یاب رہا، جو صرف میرے ہی نہیں، مُلک کے لیے بھی ایک اعزاز تھا۔ اس اسکالر شپ کا دورانیہ دو برس تھا، مگر مدّت میں توسیع بھی ہوسکتی تھی۔ بلوچستان یونی ورسٹی نے بہت ہاتھ پائوں مارنے کے بعد مجھے دو برس کی رخصت دی، مگر مَیں نے دو سال سے بھی پہلے کام مکمل کر لیا۔ جب تھیسز جمع کروانے گیا، تو یونی ورسٹی اہل کار حیران رہ گئے۔ اس دَوران میرے وہاں کے اعلیٰ معیار کے جرنلز میں پانچ مقالے بھی شایع ہوئے۔ اور مجھے وہاں ملازمت کی بھی آفر ہوئی، لیکن مَیں نے شکریے کے ساتھ معذرت کر لی، کیوں کہ مَیں سمجھتا ہوں کہ خدمت کا پہلا حق اپنے مُلک ہی کا ہوتا ہے۔ پھر’’ لوویزیانا اسٹیٹ یونی ورسٹی، امریکا‘‘ نے پوسٹ ڈاکٹریٹ کے لیے وزیٹنگ اسکالر شپ آفر کی۔ یعنی وہاں مَیں طالبِ علم کے ساتھ اکیڈمک ملازم بھی تھا۔ وہ تجربہ بھی بہت اچھا رہا۔

س: ملازمت کا آغاز کہاں سے کیا اور کِن کِن اداروں سے وابستہ رہے؟

ج: بلوچستان یونی ورسٹی، کوئٹہ کے ڈیپارٹمنٹ آف کیمسٹری سے بہ طور لیکچرار عملی زندگی کا آغاز ہوا۔ اللہ کا کرم ہے کہ جب مَیں پی ایچ ڈی کر کے واپس بلوچستان یونی ورسٹی آیا، تو بہت تیزی سے ترقّی ملی اور 37برس کی عُمر میں پروفیسر بن گیا۔ 4سال ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ رہا، بعدازاں ڈین، فیکلٹی آف سائنس بنا۔ پھر بدقسمتی سے صوبے کے حالات خراب ہو گئے، بعض افراد کے لیے وہاں رہنا ممکن نہ رہا اور عین اُسی موقعے پر یونی ورسٹی گرانٹ کمیشن میں گریڈ21کی دو اسامیاں آگئیں۔ مَیں نے ایڈوائزر کی اسامی کے لیے درخواست دی اور ملازمت بھی مل گئی۔سو، 1995ء میں وہاں چلا گیا۔ مَیں اُن چند لوگوں میں سے تھا، جو بلوچستان سے کسی بڑے وفاقی عُہدے تک پہنچے۔ وہاں کا تجربہ بھی بہت شان دار رہا۔ پھر1999ء میں گریڈ22میں ترقّی ہو گئی۔ اُس کے بعد، 2001ء میں علّامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کا وائس چانسلر بنا اور ساڑھے چار برس وہاں رہا۔ 2006ء میں ہائر ایجوکیشن کمیشن جوائن کر لیا۔ پاکستان میرین اکیڈمی کا چیف رہا، جسے فرانسیسی یونی ورسٹی کے تعاون سے یونی ورسٹی بنانا مقصود تھا، لیکن وسائل کی کم یابی کے سبب منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد دادا بھائی ہائیر ایجوکیشن کا ریکٹر اور نذیر حسین یونی ورسٹی کا وائس چانسلر رہا۔ پھر 7 دسمبر 2007ء کو اُردو یونی ورسٹی کا وائس چانسلر بنایا گیا اور تاحال اسی عُہدے پر خدمات انجام دے رہا ہوں۔2001 ء میں صدرِ مملکت نے تعلیمی خدمات کے اعتراف میں مجھے’’ تمغۂ حُسنِ کارکردگی‘‘ سے بھی نوازا۔

س:اس سے پہلے بھی تو آپ کا اُردو یونی ورسٹی سے تعلق رہا ہے؟

ج: جی ہاں، میرا اُردو یونی ورسٹی سے خاصا پرانا تعلق ہے۔ 2002ء میں جب اُردو کالج کو اُردو یونی ورسٹی بنایا جا رہا تھا اور جمیل الدّین عالی اس کے روحِ رواں تھے، تو عالی صاحب نے مجھے یونی ورسٹی کا ایکٹ بنانے کا ٹاسک دیا، اُن دنوں مَیں علّامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کا وائس چانسلر تھا۔ مَیں نے بڑی محنت سے ایکٹ تیار کیا، لیکن وہ نافذ نہ ہو سکا۔ عالی صاحب نے مجھے وفاقی اُردو یونی ورسٹی کی پہلی سینیٹ کا رُکن بنایا۔ مجھے پہلا اعزازی وائس چانسلر مقرّر کیا گیا۔ اس سینیٹ کے قیام میں میرا اہم کردار تھا اور مَیں6 سال تک اُس کا رُکن رہا۔ جون2006ء میں جب وائس چانسلر، اقبال محسن نے استعفا دیا، تو سینیٹ نے مجھے قائم مقام وائس چانسلر مقرّر کیا، مگر میری زیادہ دل چسپی’’ پاکستان میرین اکیڈمی‘‘ کو یونی ورسٹی بنانے میں تھی، اس لیے وہاں چلا گیا۔ اس پر جمیل الدّین عالی مجھ سے ناراض ہو گئے۔ 2012ء میں جب وائس چانسلر کی تلاش کے لیے سرچ کمیٹی بنی، جس کے ڈاکٹر عشرت حسین بھی رُکن تھے، تو اس کمیٹی نے بھی وائس چانسلر کے لیے سب سے پہلے میرا ہی نام دیا۔ یونی ورسٹی کی سینیٹ نے بھی وائس چانسلر کے لیے دو بار ایوانِ صدر نام بھیجے اور دونوں بار پہلے نمبر پر میرا نام تھا۔ اور اے کاش! 2006ء یا2012ء میں، مَیں یہاں آ جاتا تو آج یونی ورسٹی کی یہ حالت نہ ہوتی۔

س: وفاقی اُردو یونی ورسٹی کے بارے میں کچھ بتائیے، کب قائم ہوئی؟ کِن شعبوں میں تعلیم دی جا رہی ہے؟ فیکلٹی اور طلبہ کی تعداد کیا ہے؟

ج: یہ پاکستان کی پہلی یونی ورسٹی ہے، جسے 13 نومبر 2002 ء کو اُردو زبان کی ترویج کے لیے قائم کیا گیا۔ دراصل یہ یونی ورسٹی، بابائے اردو، مولوی عبدالحق کی کوششوں سے 1949ء میں قائم ہونے والے، فیڈرل اُردو سائنس کالج اور اُردو آرٹس کالج کے انضمام کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ اِن دنوں اس کے کراچی میں گلشنِ اقبال اور مولوی عبدالحق کیمپسز ہیں، جب کہ تیسرا کیمپس اسلام آباد میں ہے۔ ہمارے ہاں ایک درجن سے زاید شعبوں میں 17 ہزار طلبہ زیرِ تعلیم ہیں اور فیکلٹی ارکان کی تعداد 450 ہے۔ ہم 39 انڈر گریجویٹ اور 31 ماسٹرز ڈگری پروگرامز آفر کرتے ہیں۔ نیز، مختلف مضامین میں ایم فِل اور پی ایچ ڈی بھی کرواتے ہیں۔ ذریعۂ تعلیم اُردو ہے، لیکن انگریزی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاتا کہ وہ عالمی رابطے کی زبان ہے۔ اُردو یونی ورسٹی سے32کالجز منسلک ہیں، جن میں سے بیش تر کا تعلق خیبر پختون خوا سے ہے۔

س: وائس چانسلر بنے، تو کِن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

ج:اس یونی ورسٹی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سائنس کے شعبے میں چوں کہ پڑھنے لکھنے کا کافی رجحان ہے، اس لیے وہاں کے طلبہ اور اساتذہ درس و تدریس ہی میں مصروف رہتے ہیں، لیکن سوشل سائنسز میں تعلیمی ماحول نہیں ہے۔ اچھے اساتذہ کی بھی شدید کمی ہے، ماضی میں اس شعبے پر توجّہ نہیں دی گئی۔ پھر یہ کہ اُردو یونی ورسٹی، کالج سے یونی ورسٹی بنی ہے، اس لیے یہاں کے ملازمین ابھی تک کالج کلچر ہی سے نہیں نکل پائے۔ صرف نصاب تک محدود رہنا، تحقیق سے دُوری اور اساتذہ کی کالج کی طرح بھرتیاں، کالج کلچر ہی کی علامات ہیں۔ کالجز میں اساتذہ پبلک سروس کمیشن یا فیڈرل سروس کمیشن کے ذریعے آتے ہیں، اُن کے اپائنٹمنٹ نہیں ہوتے، پروموشن ہوتے ہیں۔ نیز، اُنھیں کوٹے پر بھی ترقّی مل جاتی ہے، تو جونیئرز بھی18ویں گریڈ میں پہنچ جاتے ہیں اور اُن کی تربیت نہیں ہو پاتی۔ ذہنوں میں بس پروموشن کا عنصر ہی غالب رہتا ہے،جب کہ یونی ورسٹی کا ماحول اس کے برعکس ہوتا ہے۔

س: عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اُردو یونی ورسٹی میں وی سی آفس اور ملازمین کی تنظیموں میں بہت زیادہ کھینچاؤ ہے، یہ کہاں تک درست ہے؟

ج: ہاں ایسا ہی ہے۔ آتے ہی میرے لیے بھی مسائل پیدا کیے گئے، اس حوالے سے ایک سینیٹ اجلاس کا خاصا چرچا رہا۔ یہاں مَن مانی اور قانون کو ہاتھ میں لینے کا دستور بہت عرصے سے چلا آ رہا ہے۔ ڈاکٹر ظفر اقبال کو سینیٹ نے ہٹایا، کیوں ہٹایا؟ اجلاس کی کارروائی دیکھ لی جائے، مَیں اس حوالے سے کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ اسی طرح سابق وائس چانسلر، سلمان ڈی کی ڈگری کا معاملہ عدالت میں ہے، اس پر بھی بات کرنا مناسب نہیں، لیکن اگر کسی ادارے کے وائس چانسلر ہی کی ڈگری کے سامنے سوالیہ نشان ہو، تو اس کا ادارے کی نیک نامی پر اثر تو پڑتا ہے۔ ماضی کی غلط پالیسیز کی وجہ سے یونی ورسٹی آگے بڑھنے کی بجائے، مسائل کا گڑھ بن گئی۔ وقت پر مسائل کا تدارک نہیں کیا گیا، جن لوگوں نے یہاں کا نمک کھایا، اُنہوں نے اس بات کا احساس نہیں کیا کہ وہ کر کیا رہے ہیں؟یہ سارا دن جاسوسی اور کانا پھوسی میں لگے رہتے ہیں۔

س:آپ ان مسائل پر قابو پانے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟

ج: علّامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی میں بھی بہت مسائل تھے، وہاں لوئر ملازمین کی تنظیم تھی، جو وی سی کو قابو کرنا چاہتی تھی، مگر افسوس یہاں اساتذہ کرام ایسا کر رہے ہیں۔ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ مَیں الزامات کی فہرست سامنے نہیں رکھنا چاہتا، مگر یہ صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں کہ کوئی کچھ بھی کرے، میرٹ پر کسی صورت سمجھوتا نہیں ہوگا۔ ہر قیمت پر اندرونی سیاست ختم کی جائے گی۔ فساد کرنے والے باز نہ آئے، تو یونی ورسٹی سے نکال باہر کروں گا۔ مَیں کہتا ہوں، جس شاخ پر بیٹھے ہو، اُسے تو مت کاٹو۔ مَیں نے حاضری یقینی بنانے کے لیے بائیو میٹرک سسٹم متعارف کروایا، اس پر بھی بڑی لے دے ہوئی، خُوب شور مچا، لیکن مَیں خود آتے اور جاتے ہوئے اس نظام سے گزرتا ہوں۔ پہلے روزانہ زندہ باد، مُردہ باد ہوتا تھا، اب اس میں کمی آئی ہے۔ کلاسز باقاعدگی سے ہو رہی ہیں۔ نیز، آئندہ کنٹریکٹ اور وزیٹنگ اساتذہ کا تقرّر وائس چانسلر خود کرے گا۔ کمیٹی کا سربراہ وہ ہوگا، کیوں کہ قانونی طور پر وائس چانسلر یونی ورسٹی میں ہونے والی ہر تقرّری کا ذمّے دار ہے۔ اب یہ نہیں ہو گا کہ شعبے کا سربراہ لسٹ بھیج دے کہ مَیں نے ان اساتذہ کو رکھ لیا ہے اور وائس چانسلر آنکھیں بند کر کے دست خط کر دے۔

س:سُنا ہے کہ آپ کچھ شعبے ختم کرنا چاہتے ہیں؟

ج:اگر سوشل ورک ڈیپارٹمنٹ میں کوئی داخلہ نہ ہو اور تمام اساتذہ ریٹائر ہو چکے ہوں، جنرل ہسٹری میں بھی داخلے کے لیے کوئی نہ آیا ہو، تو بتائیں یہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ پھر بھی ان شعبوں کو برقرار رکھا جائے۔ کم زور ڈپارٹمنٹس کا معاملہ سینیٹ میں لائوں گا تاکہ ان شعبوں کو ختم کر دیا جائے یا دوسروں میں ضم کر دیا جائے تاکہ یونی ورسٹی کا نقصان نہ ہو۔ طلبہ تو تین بھی نہیں، لیکن پورا شعبہ قائم ہے، چیئرمین بھی ہے اور دوسرے عُہدے بھی برقرار ہیں اور سب مراعات بھی لے رہے ہیں، تو یہ بڑا ظلم ہے۔

س: یونی ورسٹی ریسرچ میں کس مقام پر ہے؟

ج: سچّی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں سائنس کے شعبوں، جیسے مائیکرو بائیولوجی، کیمسٹری، زوآلوجی اور باٹنی میں صُورتِ حال خاصی بہتر ہے، اساتذہ بہت محنت کررہے ہیں۔ تاہم، سوشل سائنسز میں ریسرچ ورک خاصا کم ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اُردو یونی ورسٹی پر اس لحاظ سے زیادہ ذمّے داری عاید ہوتی ہے کہ اس نے قومی زبان کو بھی فروغ دینا ہے، لہٰذا یونی ورسٹی میں عالمی معیار کا’’دارالتراجم‘‘ ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں اُردو اور انگریزی، دونوں میں جوابات دیئے جاسکتے ہیں اورہم اصطلاحات انگریزی ہی میں استعمال کرتے ہیں۔ مَیں اکثر کہتا ہوں کہ ہمیں ہائیڈرو کلورک ایسڈ کو’’ نمک کا تیزاب‘‘کہنے کی بجائے اصل اصطلاح ہی استعمال کرنی چاہیے۔

س:کیا یونی ورسٹی کی جانب سے عالمی معیار کی کانفرنسز وغیرہ بھی ہوتی ہیں؟ اور کیا کوئی تحقیقی جرنل بھی شایع کیا جاتا ہے؟

ج: ہاں، ابھی پچھلے دنوں شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے تحت مقامی ہوٹل میں ہم نے کانفرنس کروائی، جس میں بڑے اچھے مقالے پڑھے گئے۔ جہاں تک بات تحقیقی جرنلز کی ہے، تو ایسے جرنلز برساتی کُھمبیوں کی طرح نہیں ہونے چاہئیں۔ سیلیکٹڈ ہوں اور اُن کا معیار بہتر ہو۔ ہر ڈیپارٹمنٹ اپنا اپنا جرنل نکال لے، لیکن اس کی کوئی ویلیو نہ ہو، تو کیا فائدہ۔

س:طلبہ کو کیا سہولتیں دے رہے ہیں؟

ج: یہاں مجھے ایک چونّی بھی ملتی ہے، تو اُسے یونی ورسٹی کی بہتری پر خرچ کردیتا ہوں۔ علّامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی جاکر دیکھ لیں، مَیں نے اُسے کیا سے کیا بنا دیا۔ درحقیقت یونی ورسٹی کو، یونی ورسٹی نظر بھی آنا چاہیے۔ بچّوں کے لیے غیر نصابی سرگرمیوں کا مربوط نظام ہونا چاہیے، یہ نہیں کہ’’ اسٹوڈنٹس ویک‘‘ کا اعلان کیا گیا، فیتے کاٹے گئے اور چار طلبہ جمع کرکے فوٹو بنوالیے۔ ہمارے بچّے کرکٹ، بیڈمنٹن اور والی بال میں بہت آگے ہیں، ہمیں اس میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ ہمارے اسلام آباد کیمپس میں غیر نصابی سرگرمیوں کا انتظام خاصا بہتر ہے۔ پچھلے دِنوں وہاں جس طرح’’ ہفتۂ طلبہ‘‘ منایا گیا، شاید ہی کسی یونی ورسٹی میں اس طرح منایا جاتا ہو۔ وہاں نیا کیمپس تعمیر ہورہا ہے، جس پر ایک ارب روپے لاگت آئے گی اور ہم جلد کرائے کی عمارت سے اپنی عمارت میں منتقل ہوجائیں گے، مگر کراچی کیمپس ابھی بھی کالج جیسا لگتا ہے۔ عمارتیں انتہائی خستہ ہیں، جنہیں گراکر نئی عمارتیں بنانا ہوں گی۔ شہروں میں واقع یونیورسٹیز کثیر المنزلہ عمارتوں پر مشتمل ہونی چاہئیں، اوپن ایریاز زیادہ ہوں، بڑے بڑے لانز ہوں، کھیلوں کے میدان ہوں، دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ غیر نصابی سرگرمیوں میں ڈیبیٹس زیادہ ہونی چاہئیں تاکہ طلبہ کو گفتگو کرنا آئے۔ نیز، شاعری بھی ضروری ہے، اب تو پڑھے لکھے لوگ بھی دو شعر نہیں سُنا پاتے، جو کوئی اچھی بات نہیں۔

س: بہ طورِ ماہرِ تعلیم، آپ مُلک میں اعلیٰ تعلیم کے معیار کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

ج: دیکھیے، جب یونی ورسٹی گرانٹ کمیشن، ایچ ای سی میں تبدیل ہوا، تو اس کا بنیادی ہدف تحقیق کے معیار کو بہتر بنانا ہی تھا۔ اُس وقت کے ایچ ای سی کے سربراہ، ڈاکٹر عطاءالرحمٰن نے اس ضمن میں خاصا کام کیا۔ اساتذہ کے گریڈز بڑھائے گئے، پہلے لیکچرر17 گریڈ کا ہوتا تھا، اُنہوں نے اس کا گریڈ18کردیا تاکہ انہیں احساس ہوکہ وہ یونی ورسٹی کے اساتذہ ہیں۔ یونی ورسٹی کے اساتذہ کا کام صرف نصاب کے مطابق پڑھا کر گھر چلے جانا نہیں، بلکہ اُن کا اصل کام تحقیق کو پروموٹ کرنا ہے۔ قائدِ اعظم یونی ورسٹی، اسلام آباد، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور، زرعی یونی ورسٹی، فیصل آباد اور بعض نجی یونی ورسٹیز بھی اچھا تحقیقی کام کررہی ہیں، مگر بیش تر یونی ورسٹیز خاصی پیچھے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اساتذہ اور طلبہ میں تحقیق کا رجحان ہونا ضروری ہے۔ جو پیسا ریسرچ کے نام پر ملا ہو، اُسے ضایع نہیں کیا جانا چاہیے۔ خاص طور پر سوشل سائنسز میں اہداف کا تعیّن بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں تقریباً 190یونی ورسٹیز ہیں، پھر روز نئی نئی یونی ورسٹیز کُھل رہی ہیں، ان سب کے معاملات میں بہتری لانا ایچ ای سی کی ذمّے داری ہے اور ہونی بھی چاہیے کہ اس کا کام ہی یہ ہے۔نیز، اعلیٰ تعلیم سینٹرلائزڈ ہونی چاہیے، اگر ایسا نہ ہوا تو بہت سے مسائل سامنے آئیں گے، ہر شخص اپنی ڈیڑھ اینٹ کی یونی ورسٹی بناکر بیٹھ جائے گا۔ شاید کراچی کی زمین اس معاملے میں کچھ زیادہ ہی زرخیز ہے کہ یہاں120گز کے بنگلے میں بھی یونی ورسٹی اُگ جاتی ہے۔ لاہور یا پنجاب میں ایسا نہیں ہے۔ کے پی میں بھی کُھمبیوں کی طرح یونی ورسٹیز نہیں کُھل رہیں۔ ایچ ای سی نے اس کا نوٹس لیا ہے اور ایک کمیٹی اس حوالے سے کام بھی کررہی ہے لیکن اس ضمن میں بہت زیادہ کام کی ضرورت ہے۔ اس طرح کی یونی ورسٹیز کی اسناد ایک لحاظ سے جعلی ڈگریز ہی جیسی ہیں۔ نجی یونی ورسٹیز نے کئی کئی منزلہ عمارتیں بنالیں اور جگہ جگہ کیمپسز کھول لیے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ نوجوانوں میں پڑھنے کا رجحان تو موجود ہے۔ نجی یونی ورسٹیز اگر فیسز زیادہ لیتی ہیں، تو طلبہ کو کچھ دیتی بھی تو ہیں۔ یہی سبب ہے کہ مائیں زیور تک بیچ کر ان مہنگے اداروں میں اپنے بچّوں کو تعلیم دِلواتی ہیں۔

س: فیسز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، کیا آپ بھی ایسا ارادہ رکھتے ہیں؟

ج: ایچ ای سی، یونی ورسٹیز کو ایک مخصوص رقم دیتا ہے، جو ضروریات سے خاصی کم ہوتی ہے، تو خسارہ کیسے پورا کیا جائے؟ فیسز ضرور بڑھانی چاہئیں، مگر وہاں، جہاں اس کے بغیر چارہ نہ ہو اور پھر فیس میں اضافے کی وجوہ بھی سامنے لائی جائیں۔ ہم نے ضرورت مند طلبہ کو ساڑھے5 کروڑ روپے دیے ہیں، اس سے قبل یہ رقم کہیں اور چلی جاتی تھی۔

س: اُردو یونی ورسٹی کا کون سا شعبہ سب سے اچھا ہے؟

ج: بڑا مشکل سوال ہے۔ میرے لیے تو سب بچّوں کی مانند ہیں، لیکن اس سوال کا سیاسی جواب نہیں دینا چاہتا۔ ہمارے ہاں بعض شعبوں کی کارکردگی بہترین ہے۔ جیسے کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ، مائیکرو بائیولوجی اچھا ہے، زوآلوجی میں بھی اچھا کام ہورہا ہے، کمپیوٹر سائنس بہت اسٹرانگ ہے،فارمیسی اور ابلاغِ عامّہ میں بہت داخلے ہورہے ہیں۔تاہم سوشل سائنسز کے شعبے مطلوبہ نتائج نہیں دے پا رہے۔ کراچی کی سرکاری یونی ورسٹیز میں ہمارا دوسرا نمبر ہے۔ ہم کراچی یونی ورسٹی سے نمبر وَن کے لیے کوئی مقابلہ نہیں کر رہے۔ بتانا صرف یہ ہے کہ وہاں بھی کم زوریاں ہیں اور اس کے کئی شعبوں پر بھی زوال آیا ہے۔

س: یونی ورسٹی کے حوالے سے آپ کا حکومت سے کوئی مطالبہ؟

ج:حکومت یونی ورسٹیز کے بارے میں حقیقت پسندانہ رویّہ اختیار کرے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی یونی ورسٹی اسلام آباد سے قریب ہے یا کسی کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہے، تو اُسے بہت زیادہ مراعات دی جائیں اور باقی محروم رہیں۔ ہماری یونی ورسٹی میں اُردو کالج کے زمانے کی عمارتیں بنی ہوئی ہیں، جو انتہائی خستہ ہوچُکی ہیں اور کسی بھی وقت کوئی ناخوش گوار واقعہ جنم لے سکتا ہے۔ خاص طور پر عبدالحق کیمپس کی عمارت اپنی عُمر پوری کر چُکی ہے۔ مَیں ان عمارتوں کی تعمیرِ نو کے لیے حکومت کے سامنے پی سی وَن پیش کرنے جارہا ہوں۔ نیز، سندھ حکومت سے بھی درخواست ہے کہ وہ صوبے کی یونی ورسٹیز کو اربوں روپے دیتی ہے، مگر ہمیں وفاقی یونی ورسٹی ہونے کی وجہ سے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ حالاں کہ ہم بھی دیگر جامعات کی طرح سندھ کے بچّوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔

س: سُنا ہے، آپ پاکستان کے معمّر ترین وائس چانسلر ہیں؟

ج: آپ نے یہ سوال پوچھ کر بہت اچھا کیا۔ مخالفین میری عُمر کے حوالے سے مسلسل پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ مَیں 7 نومبر 1948ء میں پیدا ہوا، تو میری عُمر76نہیں، 70 برس ہے۔ پھر یہ کہ کسی ایکٹ میں وائس چانسلر کی عُمر کا کوئی تذکرہ نہیں۔ دنیا بھر میں بڑی عُمر کے افراد اس عُہدے پر کام کرتے ہیں۔ جن دنوں مَیں پی ایچ ڈی کر رہا تھا، تو یونی ورسٹی آف لندن کے وائس چانسلر80برس کے تھے۔ اگر مَیں تعلیمی کام کرسکتا ہوں، جسمانی اور ذہنی طور پر فِٹ ہوں، تو کیا اپنے سارے تعلیمی کیریئر اور تجربے کو چھوڑ کر ٹرانسپورٹ کا کاروبار شروع کردوں یا جامع کلاتھ مارکیٹ میں کپڑے کی دُکان کھول لوں یا پرائیویٹ سیکٹر میں چلا جائوں۔ یعنی ستّر برس کا شخص نجی شعبے میں تو خدمات انجام دے سکتا ہے، جہاں نفع نقصان کا زیادہ حساب کتاب رکھا جاتا ہے، مگر وہ سرکاری یونی ورسٹی کا وائس چانسلر نہیں بن سکتا؟ کیا عجیب منطق ہے۔

تازہ ترین