اسلام آباد (انصار عباسی) سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کے بیٹے پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو کو نیب نے 13؍ دسمبر کو پارک لین اسٹیٹس پرائیوٹ لمیٹڈ کے ساتھ تعلق کے حوالے سے طلب کیا ہے، اس کمپنی نے اسلام آباد کی بیش قیمت 2460؍ کنال زمین مارچ 2009ء میں خریدی تھی۔ 2009ء میں ہی دی نیوز نے خبر شائع کی تھی کہ زرداری اور ان کے بیٹے کی ملکیت نجی کمپنی نے اسلام آباد میں یہ زمین صرف 6؍ کروڑ 20؍ لاکھ روپے میں خریدی تھی جبکہ سی ڈی اے کے مطابق اس کی قیمت دو ارب روپے تھی۔ 1997ء میں زرداری کیخلاف نیب کے کیس میں نیب نے اسی زمین کے ساتھ سابق صدر کا تعلق جوڑا تھا لیکن شواہد کی عدم دستیابی کی وجہ سے کیس خارج کر دیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جس کام کا الزام زرداری پر 1997ء میں عائد کیا گیا تھا وہ انہوں نے ایک شخص، جس پر زرداری کا فرنٹ مین ہونے کا الزام تھا، ایک اور شخص جو سابق صدر کا قریبی ساتھی تھا، اور ایک نجی کمپنی جو زرداری، بلاول اور کچھ دیگر لوگوں کی مشترکہ ملکیت تھی، کے درمیان کئی برسوں بعد طویل اور پیچیدہ قانونی کارروائیوں، مقدمات اور جوابی مقدمات نمٹانے کے بعد 15؍ مارچ کو مکمل کیا۔ قانونی دستاویزات اور دیگر کاغذات بشمول معاہدہ فروختگی (سیل ڈیڈ) اور پی سی او زدہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے تحت سنائے گئے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے دی نیوز میں بتایا گیا تھا کہ کراچی کی ایک نجی کمپنی پارک لین اسٹیٹس پرائیوٹ لمیٹڈ نے فیصل سخی بٹ سے سنگ جیانی کے قریب ڈھائی ہزارکنال زمین خرید کی۔ فیصل سخی بٹ نے یہ زمین ہیوسٹن (امریکا) میں مقیم ایک پاکستانی نژاد امریکی باشندے محمد ناصر خان سے صرف 62 ملین روپے میں خریدکی تھی۔ ناصر خان اس زمین کا حقیقی مالک تھا جس نے یہ زمین1994ء میں خریدکی تھی اور اسے1997ء میں دائرکردہ نیب ریفرنس میں زرداری کا فرنٹ مین قرار دیاگیا تھا۔ زمین کی خریداری اور اس کی پارک لین کمپنی کو منتقلی کیلئے تمام قانونی کارروائیاں مکمل کی گئیں۔ اس کمپنی کے اینوئل ریٹرن کے فارم اے کے مطابق اس کا شیئرکیپٹل ایک لاکھ 20 ہزار شیئرز تھا۔ سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کا ریکاڈ بھی یہی بتاتا ہے۔ ان تمام شیئرز میں سے مسٹر زرداری اور ان کے بیٹے بلاول کے پاس 30-30 ہزار شیئرز ہیں۔ مسٹر زرداری کو کمپنی کا ڈائریکٹر ظاہرکیا گیا تھا جبکہ ان کے بیٹے کو دیگر چار افراد کے ساتھ ممبران اور ڈی بینچر ہولڈرز ظاہرکیا گیا ہے۔ 1997ء میں میاں سیف الرحمن کے تحت جب احتساب بیورو نے مسٹر زرداری کے خلاف مقدمہ شروع کیا تو ایف آئی اے نے اس معاملے میں چند گرفتاریاں کی تھیں۔ 1997ء میں میڈیا رپورٹس میں الزام عائدکیا گیا تھا کہ زرداری نے مذکورہ زمین کے ڈھائی ہزار کنال زبرستی حاصل کیے تھے اور اسلام آباد سے25 منٹ دور سنگ جیانی کی اس زمین پر پولوگراؤنڈ اور رائیڈنگ پویلین قائم کرنے کیلئے یہاں سے300 خاندانوں کو یہاں سے بے دخل کیا تھا۔ احتساب بیورو کے سابق چیئرمین سیف الرحمن نے 10؍جون1997ء میں کی جانے والی ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ چیئرمین سی ڈی اے (مرحوم) شفیع سیوہانی، جو پی پی کے مقررکردہ تھے، بھی اس اسکینڈل میں ملوث ہیں۔1994ء میں سردار اسحٰق، راجہ محبوب الٰہی اور حاجی بشیر جیسے مقامی رہائشی نے بھی صحافیوں کے آگے دعویٰ کیا تھا کہ اپنی زمین معمولی نرخوں پر فروخت کرنے کیلئے ان پر دباؤ ڈالا گیا تھا اور زرداری سنگ جیانی میں پولوگراؤنڈ بنانا چاہتے تھے۔ اس وقت یہ کہا جاتا تھا کہ امریکی شہری ناصر خان کو زرداری نے فرنٹ مین بنایا ہے۔1997ء کی ایک خبرکے مطابق ناصر خان ایسے افراد سے زمین خریدنے کا ذریعہ تھا جن کی زمینوں پر اسلام آبادکی ریونیو انتظامیہ نے زبردستی قبضہ کرلیا تھا وہ بھی کسی سرکاری پروجیکٹ کیلئے نہیں بلکہ ناصر خان کی ذاتی ملکیت کیلئے۔ ناصر خان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ مسٹر زرداری کیلئے کام کرتے ہیں۔ اپنی شکایت میں اسحٰق نامی شخص نے اس وقت وہ واقعات بتائے تھے کہ کس طرح اسے اگست 1994ء میں اسلام آبادکے تحصیل دار طارق حیدری نے طلب کیا اور اسے وزیر اعظم ہاؤس لے گیا تاکہ اسے چار ہزار روپے فی کنال کے نرخ پر 392؍ کنال اور 8؍ مرلے زمین بیچنے کیلئے رضامندکیا جا سکے۔ یہ رقم اس وقت بھی مارکیٹ کے نرخوں سے انتہائی کم تھی۔ بعد ازاں اسحٰق پر ناصر خان کی رہائش گاہ پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ معاہدے پر دستخط کردے۔ اسحٰق سے کہا گیا کہ اگر اس نے تعاون نہ کیا تو اس کی زمین2900؍ روپے فی کنال کے نرخ پر سی ڈی اے کے ذریعے حاصل کرلی جائے گی۔ 1997ء سے لے کر 2009ء تک صورتحال تبدیل نہ ہوئی کیونکہ ناصر خان زمین کا قانونی مالک بنا رہا۔ اس سلسلے میں کچھ کڑیوں کی کمی کی وجہ سے بھی نیب کچھ نہ کرسکی، تاہم2007ء میں ہونے والی ایک اہم پیش رفت کے تحت مسٹر زرداری کے ایک اور دوست فیصل سخی بٹ نے اسلام آبادکی سول کورٹ میں دیوانی مقدمہ دائرکیا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ انہوں نے 2460؍ کنال اور17؍ مرلہ زمین ناصر خان سے62؍ ملین روپے میں 18؍ جنوری 2007ء کو خریدی۔ مسٹر بٹ نے عدالت کو بتایا کہ مئی2007ء میں انہوں نے ناصر خان کو 61؍ ملین روپے ادا کیے تھے اور ایک ملین روپے کی رقم باقی چھوڑی تھی۔ بٹ کے مطابق انہوں نے ہیوسٹن امریکا میں رہائش پذیر ناصر خان سے کہا کہ وہ اسلام آباد میں سب رجسٹرارکے سامنے پیش ہوکر معاہدہٴ فروختگی مکمل کریں لیکن انہوں (ناصر خان) نے کوئی جواب نہ دیا۔ مسٹر بٹ نے عدالت سے مدعا علیہ کے خلاف فیصلے کی درخواست کی۔ امریکا سے بھیجے گئے اپنے جواب میں ناصر خان نے کوئی مخالفت نہ کی اور مسٹر بٹ کے مطالبات کے حق میں دستبردار ہوگئے۔ ناصر خان نے وضاحت پیش کی کہ تجارتی مصروفیات اور ناسازیٔ طبع کے باعث وہ معاہدہٴ فروختگی کیلئے امریکا چھوڑکر پاکستان نہیں آسکتے۔ انہوں نے استدعا کی شق کی مخالفت نہیں کی اور اپنے وکیل کے ذریعے باقی رہ جانے والے ایک ملین روپے کی ادائیگی یقینی بنانے کے بعد عدالت کو مسٹر بٹ کے حق میں فیصلہ سنانے کی اجازت دیدی۔ اس طرح سے سول کورٹ نے جون 2008ء میں مسٹر بٹ کے حق میں فیصلہ سنایا اور معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو بھجوا دیا جہاں مسٹر بٹ معاہدے پر عمل درآمدکیلئے پہنچے تھے۔ 11؍ نومبر 2008ء کو ناصر خان کے وکیل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ مسٹر بٹ یا ان کے نامزدکردہ کسی شخص کے حق میں عدالتی عہدیدارکی موجوگی میں معاہدہٴ فروختگی پر عمل درآمدکے حوالے سے انہیں کوئی اعتراض نہیں۔ مسٹر بٹ کے وکیل نے بیان دیا کہ وہ عدالت میں اسائنمنٹ ڈیڈ جمع کرانا چاہتے ہیں لہٰذا سماعت ملتوی کرکے تین ہفتوں کا وقت دیا جائے۔ عدالت نے 16؍ دسمبرکو سماعت کی اگلی تاریخ کے طور پر مقررکیا۔ 16؍ دسمبرکو مسٹر زرداری کی پارک لین اسٹیٹس پرائیوٹ لمیٹڈ پہلی مرتبہ اس وقت سامنے آئی جب مسٹر بٹ کے وکیل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ مسٹر بٹ کی طرف سے فرمان پر عملدرآمد اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے حقوق کراچی کی پارک لین اسٹیٹس کو تفویض کیے جا رہے ہیں جس کیلئے پارک لین اسٹیٹس کی طرف سے اسی دن ایک نئی ایگزیکیوشن پٹیشن دائرکی جائے گی۔ یہ کام اسی طرح اور بڑی جلدی کے ساتھ ہوا اور یہ کیس پہلے کے مقدمہ فیصل سخی بٹ بمقابلہ محمد ناصر خان سے ہٹ کر پارک لین اسٹیٹس پرائیوٹ لمیٹڈ بمقابلہ محمد ناصر خان (مدعا علیہ) اور فیصل سخی بٹ (اوریجنل ڈیکری ہولڈر) میں تبدیل ہوگیا۔ اس پٹیشن کے مطابق مسٹر بٹ نے اپنے حقوق پارک لین اسٹیٹس کو فروخت کردیئے۔ پارک لین اسٹیٹس نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ اس نے مسٹر بٹ کو ڈیڈ آف اسائنمنٹ کے مطابق 27؍ نومبر 2008ء کو 46؍ ملین روپے کی ادائیگی کر دی ہے۔ نتیجتاً 29؍ جنوری 2009ء کو اس وقت کی پی سی او اسلام آباد ہائی کورٹ نے جو فیصلہ جاری کیا اس کے نتیجے میں زرداری اور بلاول کی کمپنی کو زمین کی منتقلی کا کام مکمل ہوا۔ ہر کام آسانی سے اور بغیر کسی پریشانی کے مکمل ہوا۔ ناصر خان اور فیصل بٹ نے بہترین انداز میں تعاون کیا اور زمین اس وقت کے صدر مسٹر آصف علی زرداری کی کمپنی پارک لین اسٹیٹس کو منتقل کرائی۔