ازدواجی زندگی ایک لمبے سفر کی طرح ہوتی ہے۔ اِس سفر کے دوران خوشیاں بھی ملتی ہیں اور مشکلات بھی پیش آتی ہیں۔ کبھی کبھار اِس سفر میں پہاڑ جیسی اونچی رکاوٹیں کھڑی ہو جاتی ہیں اور لگتا ہے کہ ان کو سر کرنا ناممکن ہے۔ لیکن بہت سے شادی شُدہ جوڑے اِس سفر کو بڑی کامیابی سے طے کرلیتے ہیں۔ میاں، بیوی جس طرح مشکلات سے نپٹتے ہیں، اِس بات سے اُن کی شادی کی کامیابی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ ایسی کیا خصوصیات ہوتی ہیں یا پھر ایک ایسی کیا خصوصیت ہوتی ہے، جو ازدواجی رشتے کو زیادہ بہتر اور زیادہ مضبوط بناتی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ کچھ جوڑے اپنی ازدواجی زندگی میںزیادہ خوش، زیادہ مطمئن اور زیادہ کامیاب ہوتے ہیں، جبکہ دیگر اپنی شادی شدہ زندگی میں بظاہر سب کچھ ٹھیک ہونے کے باوجود کم خوش، کم مطمئن اور کم کامیاب ہوتے ہیں؟
کیا شادی شدہ جوڑوں میں سے کسی ایک کی حکمرانی ازدواجی رشتے کے لیے اچھی ثابت ہوسکتی ہے ؟ ممکن ہے کہ سائنسدانوں کےجواب سے آپ اتفاق نہ کریں لیکن ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ شادی کا بندھن اس وقت اور بھی زیادہ مضبوط ہوجاتا ہے، جب وہاں حکومت صرف ایک کی چلتی ہے۔ نتیجے سے یہ بھی وضاحت ہوئی ہے کہ شادی شدہ جوڑوں میں شوہر یا بیوی میں سے کسی ایک کی حکمرانی سے ازداوجی تعلقات اور بھی زیادہ مستحکم ہو جاتے ہیں۔
یہ دعویٰ جمہوریہ چیک کے سائنسدانوں نے کیا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایسے شادی شدہ جوڑے جن میں شوہر یا بیوی میں سے کوئی ایک غالب ہے، ان کا رشتہ ایسے جوڑوں کے مقابلے میں زیادہ مؤثر ہو سکتا ہے، جن کا ازدواجی رشتہ برابری کی سطح پر قائم ہوتا ہے۔
جریدہ ’نیورواینڈوکرنا لوجی‘ کے سائنسی پرچہ میں محققین نےکہا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ خواتین مطیع یا فرمانبردار مَردوں کو ترجیح دیتی ہیں کیونکہ بہتر تعاون ازدواجی رشتے کی کامیابی کا ذمہ دار ہے۔
تحقیق کے نتائج سے ظاہر ہوا کہ شرکاء جوڑوں میں سے ایک چوتھائی خواتین اپنی شادی شدہ زندگی میں حکمرانی کر رہی تھیں۔ تحقیق کی قیادت کرنے والی ڈاکٹر ایوا جوزف کووا کا کہنا ہے، ’ہمارے یہاں شریکِ حیات میں سے کسی ایک کی نیاز مندی یا ہلکے سے غلبے کو ایک بڑے مسئلے کی طرح دیکھا جاتا ہے، ہمارے نتائج اس خیال کو چیلنج کرتے ہیں، جس میں ازدواجی تعلقات کی مضبوطی کے لیے برابری کی سطح پر قائم ہونے والے رشتے کو فوقیت دی جاتی ہے۔ ہمارے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ اس رشتے میں عدم مساوات یعنی شریک حیات میں سے کسی ایک کا غالب ہونا اور دوسرے کا فرمانبردار ہونا، دونوں کے درمیان بہتر ہم آہنگی کی ایک وجہ ہے اور اسی تعاون کی وجہ سے ان جوڑوں میں زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنے کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے جبکہ نتائج بتاتے ہیں کہ ایسے جوڑے اولاد کی نعمت کے حوالے سے زیادہ خوش قسمت واقع ہوتے ہیں۔
پرکائن یونیورسٹی ' اور 'چارلس یونیورسٹی پراگ سے وابستہ محققین نے کہا کہ نتائج کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جدید معاشرے میں ازدواجی رشتے میں برابری کی جانب دباؤ اور روایتی معاشروں میں اس رشتے میں مَرد کے غلبے کی جانب دباؤ، دونوں ہی ضرورت سے زیادہ ہیں اور جبر کی ایک قسم کی نمائندگی کرتے ہیں۔
تجربے میں شامل 340جوڑوں کو دوستوں، رشتہ داروں اور شریک حیات جیسے قریبی رشتوں میں حکمرانی کرنے کے حوالے سے پرکھا گیا۔ محققین نے کہا کہ مطالعے کا نتیجہ حیران کن نہیں تھا۔ وہاں برابری کی بنیاد پر ازدواجی رشتہ نبھانے والے جوڑوں کے مقابلے میں ایسے جوڑوں کی تعداد زیادہ تھی، جن میں ایک شریک حیات نمایاں طور پر حاوی تھا۔ علاوہ ازیں شرکاء کی رپورٹ کے مطابق 24.4فیصد تعلقات میں خواتین کا پلہ بھاری تھا۔
صرف میاں، بیوی کے تعلقات ہی نہیں، ایک شریک حیات کی حکمرانی کے مثبت اثرات تولیدی کامیابی پر بھی دیکھے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جہاں ایک شریک حیات کی حکمرانی چلتی ہے، وہاں بچوں کی پیدائش کے امکانات 15فیصد بڑھ جاتے ہیں، ان رشتوں کے برعکس جہاں دونوں شریک حیات برابری کی بنیادی پر تعلق کو آگے لے کر چلتے ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ اگر ایک ہی عہدے پر دو افراد فائزکر دئیے جائیں تو معمولی تنازعات بھی مسابقت کی وجہ سے شدید ہو سکتے ہیں جبکہ دوسری طرف ایسے جوڑے، جن میں کسی ایک ساتھی کے پاس اپنے رشتے کی کمان ہوتی ہے، ان میں تنازعات کی تعداد اور شدت میں کمی آجاتی ہے۔
مطالعے سے نظر آتا ہے کہ شادی شدہ جوڑوں کےدرمیان تعاون کا ہونا زیادہ ضروری ہے، بجائے اس کے یہ دیکھا جائے کہ ازدواجی رشتے پر غالب آنے والا شخص مرد ہے یا عورت۔
محققین نے اس بات پر زور دیا کہ کسی ایک ساتھی کے حاوی ہونےکا مطلب ہرگز تشدد نہیں ہے، اگرچہ عام طور پر اس قسم کے رشتہ کو گھریلو تشدد کے ساتھ مخصوص کیا جاتا ہے لیکن مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ شادی شدہ جوڑوں میں سے کسی ایک کی ہلکی پھلکی حکمرانی بھی تشدد کی وجہ نہیں بن سکتی۔