نیلسن منڈیلا نے کہا تھا، ’’تعلیم ایک طاقتور ہتھیار ہے، جس کی بدولت کوئی بھی قوم دنیا تبدیل کرسکتی ہے‘‘۔ تو اس ہتھیار کے استعمال کو کیا صرف مَردوں کی ذات تک محدود کیا جاسکتا ہے؟ کیا ملک کی نصف آبادی(خواتین) اس تبدیلی میں اپنا کردار ادا نہیں کرسکتی؟جب ذکر ہو تعلیم نسواں کاتو نپولین کا کہا وہ خوبصورت جملہ یا د آجاتا ہے کہ ’’تم مجھے اچھی (تعلیم یافتہ )مائیں دو، میں تمہیں مہذب اور تعلیم یافتہ قوم دوں گا‘‘۔ ان چند لفظوں میں نپولین نے تعلیم نسواں کی اہمیت کو اتنی خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے کہ شاید کوئی دوسرا نہ کرپائے۔ تعلیم نسواں کی اہمیت تو طے ہے، جسے دنیا بھر کے ممالک میں تسلیم کیا جانے لگا ہے، اب لڑکیوں کی قابلیت کوچار دیواری کی حدود تک محدود نہیں کیا جاتا بلکہ دنیا بھر میں انھیں خود کو منوانے کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ اب صرف لڑکیوں کی شادی کرنے کو ہی والدین اپنا فریضہ نہیں سمجھتے بلکہ ان کی تعلیم وتربیت اور ملک وقوم کی ترقی کے فروغ میں ان کے کردار کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہیں ۔کیونکہ اسلام بھی مرد اور عورت کی یکساں تعلیم کا درس دیتا ہے اور تعلیم کو دونوں پر لازم قرار دیتا ہے ۔تیزی سے ترقی کرتامعاشرہ بھی پڑھے لکھے مردوں کے علاوہ پڑھی لکھی خواتین کا متلاشی ہے کیونکہ کوئی بھی ملک خواتین کے کردار اور شمولیت کے بغیر ترقی و تعمیر کی منازل طے نہیں کرسکتا۔ اگر آپ اس کے باوجود تعلیم نسواں سے متعلق سوچ بچا ر میں مصروف ہیں تو ہمیں یقین ہے کہ مندرجہ ذیل نکات لڑکیوں کی تعلیم اور اس کی اہمیت سے متعلق آپ کو قائل کرنے میںکامیاب رہیں گے۔
آنے والی نسلوں کیلئے سرمایہ کاری
ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی آنے والی نسلوں کی تعلیم وتربیت بہتر انداز میں ہو اور یہ تب ہی ممکن ہے جب تربیت کرنے وا لے ہاتھ باشعور اورتعلیم یافتہ ہوں۔ یہ تعلیم ہی ہے، جس کی بدولت کسی بھی معاشرہ کے لوگوںمیں شعور بیدار کیا جاسکتاہے اور تعلیم کی کمی ہی بہت سی معاشرتی بیماریوں کو جنم دینے کا باعث بنتی ہے ۔ماں کی گود چونکہ بچے کے لیے پہلی درسگاہ ثابت ہوتی ہے، اس لیے یہ درسگاہ جتنی باشعور اور تعلیم یا فتہ ہوگی عین ممکن ہے کہ اتنی ہی بہتر انداز میں بچوں کی تعلیم وتربیت ہوپائے۔ اسی لیے لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں ماہرین کی رائے ہے کہ جو پیسہ لڑکیوں کی تعلیم پر خرچ کیا جارہا ہو، سمجھ لیں کہ وہ قوم کے لیے سرمایہ کاری کے طور پر خرچ کیا جارہا ہے۔
بچوں کی بہتر نگہداشت
زچہ اور بچوں کی شرح اموات کا مسئلہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق 1990ء میں عالمی سطح پر 5لاکھ 32ہزار خواتین کی اموات ریکارڈ کی گئی تھیں ، جو 2015ء میں کم ہو کر تین لاکھ 3ہزار رہ گئی ہے ۔اس مسئلہ کا جڑ سے خاتمہ بھی تعلیم نسواں سے منسلک ہے کیوں کہ اگرعورت تعلیم یافتہ ہوگی تو ماں بننے کے دوران وہ اپنی اور اپنے ہونے والے بچے کی بہتر انداز میں نگہداشت کرسکے گی۔
چائلڈ میرج کا سدباب
پاکستان کے دیہی علاقوں میں کم عمر بچیوں کی شادیوں کی روک تھام کے لیے قانونی طور پر کم سے کم عمر18سال مقرر کر دی گئی ہے، لیکن اس کے باوجود دیہاتوں میں کم عمر بچیوں کی شادیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ چائلڈ میرج کی اہم وجہ جہاں فرسودہ روایات کو گردانا جاتا ہے وہیں اس کی ایک وجہ ہےتعلیم نسواں کی اہمیت سے انکار بھی ہے ۔ پاکستانی دیہاتوں میں بچیوں کو اسکول بھیجنے کی عمر میں شادی کے بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے اور یہ فیصلہ کرنے والے ان پڑھ والدین ہی ہوتے ہیں لیکن اس کے برعکس اگربچیاں تعلیم حاصل کررہی ہوں تو ان کی شادی مناسب وقت پر اور اچھے گھرانوں میں کی جاسکتی ہے ۔
معاشی کفالت
مہنگائی کے اس دور میں ایک پڑھی لکھی عورت، چاہے وہ بیوی کے روپ میں ہو یا بہن کے روپ میں،معاشی طورپر مستحکم ہونے میں آپ کا ساتھ دے سکتی ہے ۔اگر عورت تعلیم یافتہ ہوگی تو وہ کوئی بھی عمدہ نوکری حاصل کرکے مہنگائی کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہر لڑکی کو تعلیم ضرور دینی چاہئے تاکہ مستقبل میں کسی بھی ناخوشگوار صورت حال میں وہ اپنے پاؤں پر خود کھڑی ہو سکے اور کسی دوسرے پر بوجھ نہ بنے۔