چائے کی دریافت اور اس کی ابتداء سے متعلق کئی کہانیاں مشہورہیں۔
چینیوں کے مطابق چائے کی دریافت کا سہرا قدیم چینی دیومالائی بادشاہ شینونگ جو کہ ایک کسان بھی تھا اور چینی عقائد کے مطابق زراعت کا بانی بھی ۔اس کو صفائی کا اس قدر خیال تھا کہ اس نے تمام رعایا کو حکم دیا کہ وہ پانی ابال کر پیا کریں۔
اس حوالے سے دو روایات پائی جاتی ہیں، ایک روایت کے مطابق بادشاہ شینونگ نے اپنے ایک مذہبی سفر کے دورانغلطی سے زہر سے بھری ایک جڑی بوٹی کھا لی تھی جس کے بعد وہ مرنے کے قریب پہنچ گیا۔اسی وقت ایک پتّا ہوا میں اڑتا ہوا اس کے منہ میں چلا گیا، شننونگ نے اس پتے کو چبا لیا اور اسی پتے نے اسے مرنے سے بچا لیا۔
دوسری روایت کے مطابق ایک دن کسی جنگل میں بادشاہ کا پانی ابل رہا تھا کہ چند پتیاں ہوا سے اڑ کر دیگچی میں جا گریں۔ شینونگ نے جب یہ پانی پیا تو نہ صرف اسے ذائقہ پسند آیا بلکہ اسے پینے سے اس کے بدن میں چستی بھی آ گئی۔
بادشاہ نے عوام کو حکم دیا کہ وہ بھی اسے آزمائیں۔ یوں یہ مشروب چین کے کونے کونے تک پھیل گیاوہاں سے یہ چائے سیاحوں اور تاجروں کی مدد سے پوری دنیا میں پھیلی۔
برِصغیر میں چائے کا استعمال ایک دوائی کے طور پر کیا جاتا تھا۔ پانی میں چائےکی پتیاں ابال کر قہوہ بنایا جاتا تھا اور اسے پیا جاتا تھا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی مشرق سے ہر قسم کی اجناس کی تجارت کی ذمہ داری تھی۔ اسے چائے کی پتی مہنگے داموں چین سے خریدنا پڑتی تھی اور وہاں سے لمبے سمندری راستے سے دنیا کے باقی حصوں کی ترسیل چائے کی قیمت میں مزید اضافہ کر دیتی تھی۔
یہی وجہ تھی کہ انگریز شدت سے چاہتے تھے کہ خود اپنی نوآبادی ہندوستان میں چائے اگانا شروع کر دیں تاکہ چین کا پتّا ہی کٹ جائے۔
اس منصوبے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ چائے کا پودا کیسے اگتا ہے اور اس سے چائے کیسے حاصل ہوتی ہے، سرتوڑ کوششوں کے باوجود اس راز سے پردہ نہ اٹھ سکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اب کمپنی نے رابرٹ فارچیون کو اس پرخطر جاسوسی مہم پر بھیجا تھا۔
اس مقصد کے لیے اسے چین کے ان علاقوں تک جانا تھا جہاں شاید مارکوپولو کے بعد کسی یورپی نے قدم نہیں رکھا تھا۔ اسے معلوم ہوا تھا کہ فوجیان صوبے کے پہاڑوں میں سب سے عمدہ کالی چائے اگتی ہے اس لیے اس نے اپنے رہبر کو وہیں کا رخ کرنے کا حکم دیا۔
سر منڈوانے، بالوں میں نقلی مینڈھی گوندھنے اور چینی تاجروں جیسا روپ دھارنے کے علاوہ فارچیون نے اپنا ایک چینی نام بھی رکھ لیا، سِنگ ہُوا۔ یعنی ’شوخ پھول۔‘
فارچیون تربیت یافتہ ماہرِ نباتیات تھا اور اس کے تجربے نے اسے بتا دیا تھا کہ چند پودوں سے کام نہیں چلے گا، بلکہ پودے اور ان کے بیج بڑے پیمانے پر سمگل کر کے ہندوستان لانا پڑیں گے تاکہ وہاں چائے کی پیداوار بڑے پیمانے پر شروع ہو سکے۔
یہی نہیں، اسے چینی مزدوروں کی بھی ضرورت تھی تاکہ وہ ہندوستان میں چائے کی صنعتی بنیادوں پر کاشت اور پیداوار میں مدد دے سکیں۔
فارچیون کی محنت رنگ لائی اور بالآخر وہ حکام کی آنکھ بچا کر چائے کے پودے، بیج اور چند مزدور بھی ہندوستان سمگل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کی نگرانی میں آسام کے علاقے میں یہ پودے اگانا شروع کر دیے۔
چین سے سمگل شدہ چائے کی پیداوار اور پتی کی تیاری کی ٹیکنالوجی اور تربیت یافتہ کارکن بے حد کارآمد ثابت ہوئے۔ جب ان طریقوں کے مطابق پتی تیار کی گئی تو تجربات کے دوران لوگوں نے اسے خاصا پسند کرنا شروع کر دیا۔
چینی تو ہزاروں برس سے کھولتے پانی میں پتی ڈال کر پیا کرتے تھے مگر انگریزوں نے اس مشروب میں پہلے چینی اور بعد میں دودھ ڈالنا شروع کر دیا۔
ہر سال 15 دسمبر کو بین الاقوامی چائے کا دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن چائے کی پیداوار کرنے والے ممالک مثلاً بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، ویتنام، انڈونیشیا، کینیا، مالاوی، ملائیشیا، یوگنڈا، انڈیا اور تنزانیہ میں منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر کے ممالک کی توجہ چائے اگانے والے اور چائے کے کھیتوں میں کام کرنے والے کارکنان پر چائے کی تجارت سے ہونے والے اثرات پر مرکوز کرنا ہے۔