• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
نماز کی ادائیگی میں ایک دم سے خیال کوندا کہ کیوں نہ اس پر کبھی غور ہی کرلیں کہ رب کائنات جسے تمام کبریائی حاصل ہے اس کے عوامل پر دھیان ہی دے لیں۔ ہم لوگ سبھی مذہبی فرائض ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ان کے معنی و مطالب اور عوامل پر کبھی غور نہیں کیا۔ نماز کے بعد کی تسبیح پر غور کیا، جس میں سو مرتبہ پڑھنے کے مختلف تعریف میں الفاظ ہیں۔ یعنی 33بار سبحان اللہ پھر 33بار والحمداللہ مگر 34بار اگر غور کریں تو وہ لفظ ہے جس میں اللہ کی بڑائی ہے، عظمت ہے۔ یعنی ’’واللہ اکبر‘‘۔ سبحان اللہ بھی بڑی تعریف وسیع تشریح اپنے اندر رکھتا ہے کہ قدرت کے قربان جائیں کہ جب بھی خدا کی کائنات اور اس کی صناعی دیکھو تو تشکر میں سبحان اللہ کہو پھر الحمد اللہ کہنا بھی اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا ہے یہ دونوں الفاظ 33بار باری باری پڑھے جاتے ہیں۔ اللہ اکبر 34 بار پڑھا جاتا ہے یعنی قدرت و کائنات کو تخلیق کرنے والے کیلئے جگہ جگہ بڑائی ہے ہر معاملات کائنات سے لیکر انسانی زندگی کے رمز تک میں، اسی لئے اس کی عظمت کیلئے، اس کی تعریف کیلئے کئی گنا بڑے الفاظ بولے جاتے ہیں۔ ویسے تو پوری نماز ہی کبریائی کی تصویر ہے۔ تکبیر،تکبیر اولیٰ سے لے کرآخر تک۔ کبریائی،ایک بلند مقام و درجہ اور بزرگی و عظمت، یعنی اللہ کا ایک صفاتی نام ہے۔ انہی کبریائی والے الفاظ کے مطالب بھی خوب ہیں جیسے عظمت، فخر ، غرور، وغیرہ۔
خدا کی بزرگی و بڑائی بیان کرنے کیلئے الفاظ کے معنی مختلف ہوتے ہیں۔ مگر ایسے الفاظ کسی انسان کیلئے استعمال کئے جائیں تو وہ برے اخلاق کی تصویر پیش کرتے ہیں اور سماجی و معاشرتی زندگی گزارنے کیلئے بہت ضرروی ہے کہ اپنے اخلاق سنوارے جائیں رواں مہینوں یعنی ربیع الاول کے مہینے میں سیرت النبیؐ پر جب بھی ذکر ہوتا ہے اس کے ساتھ یہ پیغام بھی ہمیں دیا جاتا ہے کہ اپنے اخلاق بھی سنوارو۔ اخلاق سے متعلق بھی پوچھ گچھ ہوگی، اچھے اخلاق سے متعلق آپؐ نے ارشاد فرمایا۔ میں اس لئے رسول بناکر بھیجا گیا ہوں تاکہ اچھے اخلاق کی تکمیل کروں۔ آپؐ کے ساتھ کفار مکہ نے کیا کیا ستم نہ ڈھائے تھے مگر آپؐ نے صبر و برداشت سے کام لیکر اعلیٰ مثالی نمونہ پیش کیا۔ برداشت تو ہم نے بھی ایک عظیم سانحہ کیا تھا جو کربلا کی طرح کی شہادتوں سے معمور تھا جس میں میرے بچے عظیم قوم کی عظیم نسل نے شہادت پائی تھی۔16دسمبر کو چار سال ہوگئے جب اللہ اکبر کے نعرے صدق دل سے لگانے والی قوم نے اس عظیم سانحے اور دکھ کا سامنا کیا تھا۔ وہ بھی عظیم برداشت تھی جب بچوں نے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ
مجھے ماں اس سے بدلہ لینے جانا ہے
مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے
ہم یہ اندوہناک سانحہ بھولے نہیں ہیں اور نہ ہی کبھی بھول پائیں گے کہ جس کے اثرات گہرے مرتب ہوئے ہیں ہماری قوم و ملک کے بچوں پر یہ بھی دکھی الفاظ تھے ان دنوں کے جب یہ سانحہ ہوا تھا اور شہید بچوں کی طرف سے کہے گئے الفاظ
ماں! یونیفارم پر تھوڑی سیاہی گر گئی، ڈانٹنا مت
ماں! یونیفارم لال ہوگیا ہے خون بہہ کر، رونامت
شہید بچے آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں بلکہ وہ تو اللہ کے یہاں بھی زندہ ہیں اللہ کا خاص کرم رہتا ہے ان پر، وہ رزق بھی پاتے ہیں، خوش بھی رہتے ہیں۔ انہیں کچھ خوف نہیں، نہ ہی وہ غمزدہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی شہید کی جنت کو جنت الفردوس کہتے ہیں۔ یقیناً مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرتا خدا، مومنوں پر فضل و انعام ہوتا رہتا ہے۔ شہید کرنے والے بھی تو وہی تھے کہ جنہیں جنت کا لالچ دیکر ان کے جسموں سے بم باندھے گئے تھے، جنہیں یہ گمان تھا کہ خدا صرف ان کا ہے۔ اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر وہ کئی گودیں اجاڑ دیتے ہیں۔ جنہیں جنت کے سبز باغ دکھائے جاتے ہیں جنہیں خدا کی کبریائی کا اتنا ہی یقین ہے جتنا مومنین کو ہے، ایمان والوں کو ہے، ثواب کاروں کو ہے، مظلوموں کو ہے، ستم رسیدائوں کو ہے، وہ سمجھتے ہیں جسم پر بم باندھ کر شہادت ملے گی ویسی ہی شہادت جو شہیدوں کو ملتی ہے۔جنت میں جانے کی تمنا رکھنے والو! جن مائوں کی جنت اجاڑ دی ہے پہلے اس ظلم و ستم کا ذرا حساب تو دو کہ تم بخشے بھی کبھی جائو گے یا نہیں۔ ارے ظالمو تمہیں کبھی سکون نہ ملے عمر بھر خدا کی دی ہوئی زمین میں سرچھپانے کو ترسو۔ جیسے تم نے گھروندے روند ڈالے۔ دمکتے چہروں سے جن کے گھر چمکتے تھے… جو چاند تھے… تارے تھے۔انہی چمکتے گھروں میں گردرہ گئی… یادوں کی… جگہ جگہ عالم میں جلتے مٹی کے دیئے۔ مٹی کے دیئے ہی روشنی بن گئے… ان گھروں کی… کہ جہاں ماتم رواں ہیں۔ بادشاہ تھے وہ… سبز خلعت ان کا پہناوا تھی (سبز کوٹ APS)ہاں مگر اصل پوشاک!… ان کی سفید تھی… سیاہی سے دور تلک … واسطہ نہ تھا… اسی اصل پوشاک میں … خلعت سبز چھپ گیا… اسی اصل پوشاک کو کفن کہتے ہیں… پہنے تھے جو انہوں نے… خون کی چھینٹوں کے ساتھ… مٹی کانپ گئی تھی انہیں لیتے ہوئے… کہ ضمیر کیوں نہ کانپے بے ضمیروں کے … مٹی میں چھپ گئے … یہ شہید… یہ لال … مٹی کہہ اٹھی … گود گرچہ میں نہیں… ماں سی… پر گواہ ہوں کہ… تمہاری گور، ٹھنڈی گور رہے گی۔بے ضمیروں کو بھی کھینچ لائوں گی یہاں… تپتی ریت بنوں گی… ان کیلئے… کچھ بھی بڑا نہیں ہے اس جہاں میں سوائے اس ذات برترو کبریائی کے، وہی بہتر انصاف کرنے والا ہے۔ اے شہید بچو تمہارا مقام اس ذات کبریائی میں اعلیٰ ترین ہے۔
تازہ ترین