• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں انتظامیہ کو عوامی مفاد میں جو فیصلے کرنا چاہئیں تھے، وہ نہیں کئے جاسکے۔ وہ فیصلے مجبوراً اعلیٰ ترین عدلیہ کو کرنا پڑرہے ہیں۔ عدلیہ کے بہت سے ایسے فیصلے ہیں، جن سے نہ صرف عوام کو ریلیف ملا ہے بلکہ بعض فیصلوں سے بنیادی خرابیوں کو دور کرنے کیلئے بھی رہنما خطوط (گائیڈ لائنز) کا تعین بھی ہوا ہے۔ ان میں سے ایک فیصلہ پرائیویٹ اسکولوں میں فیسوں کے بے تحاشا اضافے کو روکنے کے حوالے سے ہے۔

اس فیصلے کو پاکستان میں تعلیم کی ز بوں حالی اور مسلسل گرتے ہوئے معیار کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ سانحات اور المیوں کی سرزمین پاکستان کے باسیوں کو شاید یہ احساس ہی نہیں ہے کہ ہر لمحے نیا قہر نازل کرنے والا المیہ تعلیم کی تباہی کی صورت میں رونما ہورہا ہے۔ کبھی پاکستان کو دہشت گردی پر قابو نہ پانے کی وجہ سے ناکام ریاست قرار دیا جاتا ہے اور کبھی معاشی بحران بے قابو ہونے پر پاکستانی ریاست کی ناکامی کا خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے۔ پاکستان کو اس حال تک پہنچانے کا بنیادی سبب تعلیم کی تباہی ہے۔ 5000روپے سے زیادہ فیس وصول کرنیوالے پرائیویٹ اسکولوں کو 20فیصد فیس واپس کرنے کا سپریم کورٹ کا حکم تباہی کے اس عمل کو روکنے کی طرف پہلا اور اہم قدم ہے۔

اس سے پہلے کہ مفت اور معیاری تعلیم کی فراہمی میں ریاست کی ناکامی اور اس ضمن میں نجی شعبے کے کردار پر بات کریں، ہمیں اس امر کا ادراک کرلینا چاہئے کہ ہم کس عہد میں رہتے ہیں اور تعلیم کی تباہی یا تعلیمی پسماندگی کے اثرات قوم پر کس طرح مرتب ہورہے ہیں۔ اس حوالے سے شہید محترمہ بینظیر بھٹو کا ایک لیکچر مجھے یاد آرہا ہے، جو انہوں نے یورپ کے کسی ملک میں دیا تھا۔ اس لیکچر میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے پہلی دفعہ یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ قوموں اور ممالک کے اندر معاشروں میں افقی اور عمودی تقسیم ختم ہورہی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر صرف دو طبقات جنم لے رہے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے اپنے لیکچر میں کہا تھا کہ ملکوں اور قوموں کے اندر افقی تقسیم یعنی فوجی، قومیتی، لسانی، نسلی، فرقہ ورانہ، مذہبی اور گروہی تقسیم ختم ہورہی ہے اور عمودی تقسیم یعنی غریب اور امیر کی طبقاتی تقسیم بھی ختم ہورہی ہے۔ یہ تقسیم ہزارہا سالوں سے جاری تھی لیکن اب بین الاقوامی سطح پر صرف دو طبقات کی تقسیم جنم لے رہی ہے۔ ایک بین الاقوامی اشرافیہ کا طبقہ ہے جو اپنے عہد کی جدید تعلیم سے آراستہ ہے۔ یہ تعلیم جدید ایجادات، نئے عہد کے سماجی اور اقتصادی رشتوں اور نئی اقدار کی تفہیم سے متعلق ہے۔ دوسرا طبقہ وہ ہے، جو جدید تعلیم سے محروم ہے اور کئی صدیاں پیچھے کی تاریخ میں منجمد ہوچکا ہے حالانکہ یہ طبقہ سانس اس عہد میں لے رہاہے۔

شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے جدید تاریخ کا جو نادر انکشاف کیا ہے، اسکی روشنی میں ہمیں اپنی تعلیم کی صورت حال کا جائزہ لینا چاہئے۔ میں خود سرکاری پیلے اسکول میں پڑھا ہوں۔ اس وقت یہ پیلے اسکول ایسی تعلیم دے رہے تھے کہ وہاں سے فارغ التحصیل طالب علم دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں نافذ نظام تعلیم سے مسابقت کرسکتے تھے۔ 1940ء سے 1970ء کے عشرے تک انگریزوں کے بنائے گئے تعلیمی نظام کے تحت چلنے والے پیلے اسکول اپنے عہد کیساتھ چلتے رہے اور قومیائے گئے تعلیمی اداروں کے بدتریج معیار گرتے گئے۔ اسکے بعد تباہی کا عمل شروع ہوا۔ اس کے اسباب پر بات کرنے کیلئے ایک اور کالم کی ضرورت ہے۔ صرف اتنا بتانا کافی ہے کہ پاکستان عملی طور پر امریکی نظام کے تحت کام کرنے لگا اور جنرل ضیاء الحق نے امریکہ اور اس کے سامراجی اتحادیوں کی جنگ میں پاکستان کو جھونک دیا۔ اس میں تعلیم کی تباہی کے سماجی، سیاسی اور مذہبی اسباب پیدا ہوئے۔ ریاست مفت اور معیاری تعلیم کی فراہمی کی ذمہ داری پوری نہ کرسکی۔ اس کا مشن کچھ اور تھا۔ اس عرصے میں سرکاری اسکولوں میں سیاسی بھرتیاں اور نصاب میں تبدیلیاں ہوئیں۔ رفتہ رفتہ سرکاری اسکولوں پر لوگوں کا اعتماد ختم ہوتا گیا کیونکہ ایک مخصوص سوچ کی ترویج کیلئے سرکاری اسکولوں کو تربیت گاہ کے طور پر استعمال کیا گیا۔

لوگوں نے پرائیویٹ اسکولوں کی طرف رجوع کرنا شروع کیا۔ یہ پرائیویٹ اسکول قبل ازیں ان نااہل طلباء کیلئے تھے، جنہیں سرکاری اسکولوںکے نظام تعلیم میں غیر موزوں تصور کیا جاتا تھا۔ آہستہ آہستہ پرائیویٹ اسکولوں نے سرکاری اسکولوں والا سسٹم اختیار کیا اور لوگوں کا اعتماد حاصل کیا۔ سیاسی مداخلت، نااہل اساتذہ، بدانتظامی اور درسگاہوں کی زبون حالی نے سرکاری اسکولوں پر بالآخر لوگوں کا اعتماد ختم کردیا اور پرائیویٹ اسکولوںنے ان کی جگہ لے لی لیکن پرائیویٹ اسکول سرکاری اسکولکا نظام تعلیم آگے لیکر نہ چل سکے۔

یہ پرائیویٹ اسکول دو طرح کے تھے۔ ایک وہ تھے، جو پہلے امریکہ اور یورپ میں تھے اور بعد میں انہوں نے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں اپنے کیمپس قائم کردیئے۔ دوسرے وہ تھےجو سرکاری اسکولوں کی تباہی کے بعد متبادل کے طور پر سامنے آئے۔ پہلی قسم کے اسکولوں میں بین الاقوامی اشرافیہ نے جنم لیا جبکہ دوسری قسم کے پرائیویٹ اسکولوں میں صدیوں پہلے تاریخ میں منجمد ہونے والے طبقے نے جنم لیا۔ اسے کوئی زبان لکھنا اور پڑھنا نہیں آتی۔ اس میں عمومی شعور (COMMON SENSE) نہیں ہے۔ اس کی کوئی دانشورانہ اپروچ نہیں ہے۔ یہ صرف سرکاری اسکولوں کی تباہی کے باعث پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں 2 کروڑ 28 لاکھ 40 ہزار بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ نائیجیریا کے بعد پاکستان دوسرا ملک ہے، جہاں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں شرح خواندگی آج بھی صرف 58فیصد ہے۔ بھارت، بنگلہ دیش اور افریقی ممالک میں شرح خواندگی ہم سے زیادہ ہے۔ شرح خواندگی کے حوالے سے ہمارے ہاں صنفی امتیاز سب سے زیادہ ہے۔ لڑکوں میں شرح خواندگی زیادہ ہے لیکن لڑکیوں میں شرح خواندگی دنیا میں نسبتاً بہت کم ہے۔ حالانکہ ہماری بچیاں تعلیم میں سب سے آگے ہیں۔ پاکستان کے میڈیکل کالجوں میں 80فیصد طالبات ہیں۔ اس کے باوجود خواتین کی شرح خواندگی تشویشناک حد تک کم ہے۔ دنیا کی ٹاپ 100 یونیورسٹیز میں پاکستان کی ایک بھی یونیورسٹی شامل نہیں ہے۔ ایشیاء کی ٹاپ 300یونیورسٹیز میں پاکستان کی صرف 9 یونیورسٹیز شامل ہیں۔ پاکستان میں تعلیم پر جی ڈی پی کے تناسب سے دنیا میں سب سے کم خرچ کیا جاتاہے۔

اس صورتحال کا بنیادی سبب پاکستان کے 90فیصد پرائیویٹ اسکول ہیں، جو اپنی مرضی سے فیسیں تو بڑھالیتے ہیں۔ 5000روپے سے زیادہ فیسیں لینے کے باوجود وہ اپنے اساتذہ کو پانچ ہزار روپے سے بھی کم ماہانہ تنخواہیں دیتے ہیں۔ انکا کوئی نظام تعلیم نہیں ہے اور نہ ہی وہاں سے فارغ التحصیل طلباکا کوئی معیار ہوتا ہے۔ یہ وہی طلبا ہیں جو صدیوں پہلے والی تاریخ میں منجمد ہو کر رہ گئے ہیں۔ وہ صرف تعلیم کو کاروبار بنانے کا ذریعہ ہیں۔ ایسے اسکولوں کے ڈائریکٹرز کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق ان اسکولوں کے ڈائریکٹر 83 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لیتے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے ریمارکس قابل غور ہیں کہ کیا ان اسکولوں نے یورینیم یا سونے کی کان نکال لی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں کیساتھ ساتھ زیادہ تر پرائیویٹ اسکول اس طبقے کو جنم دے رہے ہیں، جو صدیوں پہلےکی تاریخ میں منجمد ہوگیا ہے۔ ایسے پرائیویٹ اسکولوں کی لوٹ مار کو نہ صرف روکنا چاہئے بلکہ تعلیم میں ان کے کردار کو کم کرکے سرکاری اسکولوں کے پہلے والے کردار کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں عالمی سطح پر ہونیوالی طبقاتی صف بندی میں تاریخ میں منجمد ہونے والے طبقے کی تعداد میں کمی لانا ہے، پرائیویٹ اسکولوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ اہم اقدام ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین