الف ایک پاکستانی ہے، مطیع اور تابع فرمان، ریاست کے قوانین پر عمل کرتا ہے، آئین کے دائرے میں رہتا ہے، کوئی ہنگامہ نہیں کرتا کوئی جلسہ جلوس نہیں نکالتا، جو لوگ اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے توڑ پھوڑ کرتے ہیں الف اُن سے دور رہتا ہے، ملک میں کوئی بھی سخت قانون بن جائے وہ چپ چاپ مان لیتا ہے، کوئی زیادتی بھی ہو جائے تو سہہ لیتا ہے، مہنگائی بڑھ جائے تو چادر سمیٹ لیتا ہے، مہنگائی کم ہو جائے تو بچت کر لیتا ہے، الف کوشش کرتا ہے کہ سرکاری اداروں کے بارے میں مثبت رائے لوگوں تک پہنچائے، وہاں لوگوں کی داد رسی نہ بھی ہو تو انہیں نظام سے مایوس نہ ہونے دے، آئین کی شکل میں ریاست کے ساتھ الف کا ایک معاہدہ ہے اور الف اسی معاہدے کے تابع رہنے کی حتی الوسع کوشش کرتاہے۔
الف جب پیدا ہوا تو اُس وقت عوامی حکومت تھی، سوشلسٹ انقلاب برپا ہو چکا تھا، اس انقلاب کے نتیجے میں حکومت غریبوں کا خون چوسنے والے سرمایہ داروں کے کارخانے اپنی تحویل میں لے چکی تھی، صرف یہی نہیں بلکہ جاگیرداروں کی زمینیں بھی حکومت نے چھین لی تھیں کہ انقلاب اسی کا نام تھا، وہ اُس وقت بہت چھوٹا تھا مگر پھر بھی کچھ باتیں اُس کے ذہن کے کسی نہ کسی گوشے میں موجو د رہیں۔ اس کے بزرگ بتاتے ہیں کہ عوام میں اُس وقت بہت جوش و جذبہ تھا، اُن کا لیڈر ایک کرشماتی شخصیت کا مالک تھا، لوگ اُس سے پیار کرتے تھے، وہ جہاں جاتا لوگ دیوانوں کی طر ح اُس کے گرد اکٹھے ہو جاتے۔ بہت سے لوگ اُس کے مخالف بھی تھے جو اُس پر فاشسٹ ہونے کا الزام لگاتے کیونکہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو برداشت نہیں کرتا تھا تاہم الف کی یادداشت میں اِن باتوں کی تفصیل نہیں تھی۔ ایک روز جب وہ اپنے گھر کے صحن میں کھیل رہا تھا تو اُس کے کانوں میں والدہ کی آواز پڑی، اسے صرف اتنا یاد ہے کہ وہ کسی سے کہہ رہی تھیں کہ ’’ہاں کل اسے پھانسی دے دی گئی‘‘ پوچھنے والی نے کہا ’’کیا واقعی؟‘‘ والدہ نے جواب دیا ’’ہاں‘‘ اس کے بعد ذہن میں کوئی یاد نہیں۔
الف کچھ بڑا ہوا تو اسے اسکول داخل کروا دیا گیا، آنے جانے کے لیے ایک وین لگوا دی گئی، وین میں اُس کی عمر کے لڑکے آپس میں جو گفتگو کرتے وہ اشتیاق احمد اور اے حمید کے ناولوں کے علاوہ اس مسئلے کے گرد بھی گھومتی کہ اگر کسی ملک نے پاکستان پر حملہ کردیا تو کون کون سا ملک ہماری مدد کو پہنچے گا، ہم کس موقع پر ایف سولہ استعمال کریں گے، ہمارے پاس کس قسم کے ٹینک ہیں وغیرہ وغیرہ۔ الف کو بتایا گیا کہ سوشل ازم کی ہمارے دین میں کوئی گنجائش نہیں، یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے، یہاں وہی جمہوریت چل سکتی ہے جو اسلامی اصولوں کے مطابق ہو، ایسی جمہوریت میں صرف کسی مرد مومن اور مرد حق کو ہی حکمران بننا چاہیے، وہی ملک میں نظام مصطفیٰ ؐنافذ کرے گا، وہی تمام برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گا اور قوم کو حق و باطل کے معرکے کے لیے تیار کرے گا۔ الف نے یہ تمام باتیں سمجھ لیں اور ایک اچھے بچے کی طرح پلے سے باندھ لیں۔ یہ وہی وقت تھا جب ہم سوویت یونین کو شکست دے رہے تھے، پورے ملک کا بیانیہ ایک سا تھا، کہیں کہیں اختلافی آوازیں آتیں مگر ان سے کوئی فرق نہ پڑتا۔
پھر یہ دور اچانک ایک حادثے کے نتیجے میں ختم ہو گیا، پہلے تو الف کو یقین ہی نہ آیا کہ ایسا ہو سکتا ہے، اُس نے سوچا کہ اب ملک کا کیا بنے گا، اب ہماری کشتی کون پار لگائے گا، مگر پھر اسے سمجھایا گیا کہ اس دنیا میں کوئی بھی ناگزیر نہیں ہوتا، اب ملک میں پھر عوامی جمہوریت قائم ہو گی، تم دیکھنا کہ ہم کیسے ترقی کرتے ہیں۔ الف نے یقین کرلیا۔ اب وہ لڑکپن سے جوانی کی حدود میں داخل ہو گیا تھا، اس کے ذہن میں کچھ سوال اٹھتے تھے جن کا تسلی بخش جواب اسے نہیں ملتا تھا مگر وہ ایک اچھا اور تابع فرمان لڑکا تھا، اسے کالج میں پڑھایا گیا کہ ریاست اور شہری کے درمیان ایک سوشل کنٹریکٹ ہوتا ہے جسے آئین کہتے ہیں، ہر شہری کا فرض ہے کہ اس سوشل کنٹریکٹ کے مطابق اپنا فرض ادا کرے اور وہ یہی کرتا تھا۔ کبھی کبھی اُس کے ذہن میں سوال آتا کہ یہ سوشل کنٹریکٹ جو اس کے تحفظ کا ضامن ہے بار بار معطل کیوں کر دیا جاتا ہے اور یہ بھی کہ کیا اُس کے ذمہ صرف فرائض ہیں، اُس کے حقوق کوئی نہیں، اس کا جواب الف کو یہ دیا گیا کہ ملک ابھی نازک دور سے گزر رہا ہے لہٰذا فی الحال ہمیں اپنے حقوق بھول کر تندہی سے اپنے فرائض نبھانے چاہئیں۔ الف نے یہ بات بھی مان لی۔
وقت کا پہیہ گھومتا رہا، ملک کی باگ ڈور ایک اور خیر اندیش آمر نے سنبھال لی، اُس نے وعدہ کیا کہ وہ ملک سے تمام گند صاف کرے گا، ملک کی سمت درست کرے گا، معاشرے میں جو انتہا پسندی سرایت کر رہی ہے اسے ختم کرکے سوسائٹی کو آزاد خیال اور لبرل بنائے گا۔ الف اب پہلے سے زیادہ سمجھدار ہو گیا تھا مگر اُس کی تابع فرمانی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا سو اُس نے اِن وعدوں پر صدق دل سے یقین کر لیا۔ گو کہ سوشل کنٹریکٹ اپنی مکمل شکل میں موجود نہیں تھا مگر الف کو بتایا گیا کہ اِس کی پروا نہ کرو تم بس اپنے فرائض پر توجہ دو۔ الف نے سر جھکا دیا۔ اس دوران الف کو کسی نے ایک ناول پڑھنے کے لیے دیا، جارج اورویل کے لکھے ہوئے اس ناول کا نام انیمل فارم تھا، الف کو یہ ناول پڑھ کر یوں لگا جیسے وہ اس ناول کا کردار ’’باکسر‘‘ ہو، وہ گھوڑا جو پورے خلوص کے ساتھ اپنے مالک کا وفادار ہوتا ہے، انتہائی محنت اور جاںفشانی سے اپنا کام کرتا ہے اور اپنے مالک کو کبھی غلط نہیں سمجھتا، ہر مصیبت کے مرحلے پر اُس کا تکیہ کلام ہوتا ہے کہ ’’نپولین درست کہتا ہے‘‘۔ الف کو محسوس ہوا جیسے وہ بھی باکسر ہے جو ہمیشہ سر جھکا کر بغیر سوال کیے اپنا فرض ادا کرتا ہے، حقوق کی پروا نہیں کرتا کیونکہ اسے یقین ہے کہ ریاست کے ساتھ اُس کے سوشل کنٹریکٹ پر بالآخر جب عمل ہوگا تو ہر طرف خود بخود خوشحالی ہو جائے گی، عوام کے تمام دلدر دور ہو جائیں گے اور سب لوگ اطمینان اور آسودہ زندگی گزاریں گے۔
آج الف جب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے تو اپنے آپ سے سوال کرتا ہے کہ اُس نے کب اور کہاں غلطی کی تو اسے کچھ سمجھ نہیں آتا کیونکہ اُس نے تو ہر موقع پر ریاست کے دعوؤں اور وعدوں پر یقین کیا۔ جب وہ خود سے پوچھتا ہے کہ کیا وہ کبھی اُن لوگوں میں شامل رہا جنہوں نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے، جواب ملتا ہے نہیں، وہ پوچھتا ہے کہ کیا اُس نے کبھی متشدد گروہوں اور انتہا پسندوں کی حمایت کی، جواب ملتا ہے نہیں، وہ پوچھتا ہے کہ کیا اُس نے کبھی آئین اور قانون کی بالادستی کے علاوہ کوئی بات کی، جواب ملتا ہے نہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود الف کو لگتا ہے کہ وہ کہیں نہ کہیں غلط ضرور ہوگا۔ الف نے کیا غلطی کی، یہ اسے خود بھی معلوم نہیں مگر باکسر کی طرح اب بھی وہ یہی سمجھتا ہے کہ نپولین درست کہتا ہے کیونکہ الف کے پاس اور کوئی آپشن نہیں، اس ملک کی محبت میں اگر وہ ناکام ہو گیا تو کیا کرے گا، اسے تو کوئی اور کام بھی نہیں آتا!