• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

منیر نیازی کا یہ شعرپنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کو در پیش صورتحال کی ترجمانی کررہا ہے ، مرکزی و صوبائی حکومتیں بنانے کے بعد اب پنجاب میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کی منصوبہ بندی جاری ہے۔ عام انتخابات میں تحریک انصاف نے پنجاب میںقومی و صوبائی نشستوں پر اکثریت حاصل کی جبکہ مسلم لیگ ن کم فرق سے دوسرے نمبر پر رہی اورپنجاب میںتحریک انصاف نے آزاد امیدواروں کو ساتھ ملا کر صوبائی حکومت بنائی۔ ضمنی انتخابات کے بعد تازہ ترین پارٹی پوزیشن کا جائزہ لیں تو قومی اسمبلی میں پنجاب کے ایم این ایز کی تعداد 141ہے جن میں تحریک انصاف کے 66 ، مسلم لیگ ن کے64 ، پیپلز پارٹی کے6، مسلم لیگ ق کے 4ممبران قومی اسمبلی جبکہ عوامی مسلم لیگ کے ایک ایم این اے شامل ہیں ۔ پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں 297 منتخب ارکان میں تحریک انصاف کے 143 منتخب ایم پی ایز ہیں جبکہ مسلم لیگ ن 134 ممبران صوبائی اسمبلی کے ساتھ دوسری بڑی جماعت ہے ۔ اس منظر نامے میں تحریک انصاف کو دو اہم ترین چیلنج درپیش ہیں، جن کو حل کئے بغیر پی ٹی آئی کو بلدیاتی انتخابات کروانا مہنگا پڑ سکتا ہے۔ پہلا چیلنج کہ مقامی انتخابات کیلئے کیسا قانون بنایا جائے ، مقامی حکومتوں کو کتنے اختیارات دئیے جائیں، صوبائی اور مقامی اختیارات میں توازن کیسے برقرار رکھا جائے تاکہ اختیارات نچلی سطح تک منتقل نہ کرنے کا الزام بھی نہ لگے اور صوبائی حکومت کا رعب بھی قائم و دائم رہے۔ان کے ساتھ ساتھ اس میں ایسے کونسے نکات ہوں جو پنجاب میں پارٹی کے اثر و رسوخ میں اضافہ کریں ، کیونکہ خیبر پختونخوا میںمقامی اور ضلعی حکومتوں کو اختیارات دئیے گئے لیکن جن اضلاع میں تحریک انصاف کامیابی حاصل نہ کر سکی وہاں اپوزیشن جماعتوں کے منتخب مقامی نمائندوں نے صوبائی حکومت کو ٹف ٹائم دیا۔

دوسرا چیلنج یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی موجودگی میں جماعتی انتخابات کروانے کا خطرہ مول لیا جائے یا پھر غیر جماعتی انتخابات کروا کر صوبے پر اپنی گرفت کو یقینی بنایاجائے ۔جماعتی بنیادوں پر انتخابات کی صورت میں تحریک انصاف کو ہر ضلع ، تحصیل، ٹائون سمیت ایک ایک یونین کونسل میں جیت کو یقینی بنانے کیلئے منصوبہ بندی اور محنت کرنا پڑے گی۔ جماعتی انتخابات کروانے میں خطرہ یہ ہے کہ کئی اضلاع میں مسلم لیگ ن اپنی مقامی حکمرانی قائم کرنے کی پوزیشن میں ہے اور آئندہ عام انتخابات میں صوبے میں بہتر نتائج کا مظاہرہ کرنے کیلئے مقامی انتخابات میں کلین سویپ ہی تحر یک انصاف کے پاس واحد آپشن ہے کیونکہ حکمران جماعت کی مقامی انتخابات میں شکست کو نیک شگون شمار نہیں کیا جاتا ۔ اسی لئے یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ مئیرز اور ضلع کونسل چیئرمین کے الیکشن عام انتخابات کی طرز پر ہوں گے اور انہیں عوام براہ راست منتخب کر یں گے ۔ اس تجویز کو ــ’’سیکنڈ لائن آف ڈیفنس ‘‘ سمجھا جا رہا ہے کہ اگر کسی ضلع میں تحریک انصاف مقامی الیکشن میں اکثریت حاصل نہ کر سکے تو وہاںمئیراور ضلع کونسل چیئرمین کے براہ راست الیکشن کی صورت میں جیت کا ایک اور موقع بھی موجود ہو۔ دوسری طرف غیر جماعتی انتخابات کروانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جیتنے والے تمام آزاد امیدوار تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ کھڑے ہو ں گے اور ہر ضلع اور تحصیل میں تحریک انصاف کو الیکشن جیتنے کی منصوبہ بندی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہو گی ، جو بھی جیتے گا وہ حکمران جماعت تحریک انصاف میں شامل ہو جائے گا ۔

تحریک انصاف کے تھنک ٹینک اس حوالے سے اطمینان کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کو پنجاب میں مقامی انتخابات کروانے کی کوئی جلدی نہیں کیونکہ اس وقت تمام اختیارات نو منتخب حکومت کے ایم این ایز اور ایم پی ایز استعمال کر رہے ہیں ،مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے تمام مئیرز اور چیئرمین فنڈز کے معاملے میں بے بس ہیں ، دوسری وجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ن نے مقامی نمائندوں کو برائے نام اختیارات دئیے تھے تاکہ صوبائی حکومت کی حاکمیت قائم رہے ، اس لئے مقامی نمائندے اپنے اختیارات کی بنیاد پر تحریک انصاف کی حکومت کیلئے بڑا خطرہ نہیں ہیں ۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان خصوصاً ًپنجاب میں روایت رہی ہے کہ مقامی انتخابات کے نتائج عموماً حکمران جماعت کے حق میں آتے رہے ہیں ۔ 2015 کے مقامی الیکشن میں بھی صرف دو اضلاع میں حکمران جماعت کو شکست کاسامنا کرنا پڑا۔ ماضی کے ان نتائج کی بنیاد پر تحریک انصاف کی قیادت اپنی کامیابی کو یقینی سمجھتی ہے کیونکہ صوبائی اور مرکزی حکومت ان کی ہے ۔

اگرچہ تحریک انصاف کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام پر تحفظات رکھتی ہے لیکن مقامی انتخابات کی اس بحث میں مسلم لیگ ق کے رہنما بلدیاتی الیکشن کے حامی ہیں۔ جس کی ایک بڑی وجہ مسلم لیگ ن سے انکی دیرینہ سیاسی مخالفت ہے اور وہ کوئی بھی ایسا موقع گنوانا نہیں چاہتے جس میں میاں برادران کو سیاسی شکست کا سامنا کرنا پڑے ، ایک اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے جلد از جلد گجرات ضلع کونسل کا تاج واپس لینا ہے کیونکہ 2015کے مقامی الیکشن میں مسلم لیگ ن کے ایم این اے چوہدری عابد رضا کے بھائی چوہدری تنویر نے چوہدری شجاعت حسین کی ہمشیرہ سمیرا الٰہی کو 8ووٹ سے شکست دے کرچیئرمین ضلع کونسل گجرات کا الیکشن جیت لیا تھا اورضلع کونسل گجرات پر چوہدری خاندان کی 30 سالہ کامیابی کو اپ سیٹ کر دیا تھا۔بلدیاتی الیکشن میںاتحادی جماعتوں کی ماہرانہ رائے اور حمایت بھی تحریک انصاف کے قدم مضبوط کرے گی۔

اس وقت اہم معاملہ یہ ہے کہ کیا سیاسی ضرورتوں اور حکمرانی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تحریک انصاف غیر جماعتی انتخابات کا آسان راستہ اختیار کرتی ہے یا پھر منصوبہ بندی کے ساتھ جماعتی بنیادوں پر مقامی انتخابات کا انعقاد کرواتی ہے کیونکہ جماعتی بنیادوں پربلدیاتی الیکشن کروا کے اکثریت حاصل کرنا تحریک انصاف کیلئے بڑا چیلنج ہو گا ۔اگر بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف واضح کامیابی حاصل کر لیتی ہے تو یہ فتح 2018 کے عام انتخابات کی جیت پر مہر تصدیق ثبت کر دے گی کہ واقعی پنجاب کے عوام تبدیلی کے ساتھ ہیں وگرنہ یہ تاثر عام ہو گا کہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کی جیت وقتی اور جذباتی فضا کا نتیجہ تھی ۔

تازہ ترین