• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی ترقّی اور نِت نئی ایجادات نے جہاں انسان کو سہولتوں فراہم کی ہیں، وہیں اس کے نتیجے میں گو ناگوں مسائل بھی سَر اُٹھا رہے ہیں اور ان مسائل نے ترقّی یافتہ ممالک کے ماہرین اور دانش وَروں کو سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور کر دیا ہے۔مغربی ذرایع ابلاغ دنیا بَھر کے معاشی اعداد و شمار بیان کرتے ہوئے اکثر اس بات کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ 1,200مال دار ترین سرمایہ داروں کے پاس دُنیا کی نصف آبادی سے زیادہ دولت ہے اور اس میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔ نتیجتاً ایک طرف اسلحہ سازی، منشّیات فروشی اور دہشت گردی بڑھ رہی ہے، تو دوسری جانب آبادی، بے روزگاری اور جہالت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں گاہے بہ گاہے پُر تشدّد واقعات رُونما ہوتے رہتے ہیں اور ان کا سبب یہ ہے کہ جب نوجوانوں کو روزگار ملنے کی امید نہیں ہوتی، تو وہ قانون شکنی پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ دوسری جانب انٹرنیٹ کی وسعت پزیری نے بھی دُنیا بَھر کے دانش وَروں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ مثلاً گُوگل کے چیئرمین، ایرک شمیدت کہتے ہیں کہ ’’ابھی ہم یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ جب انٹرنیٹ کی دُنیا (ورچوئل ورلڈ) پوری طرح فروغ پالے گی، تو ریاست کی صورتِ حال کیا ہو گی؟ مَیں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ مستقبل میں جب ریاست انٹرنیٹ کے ذریعے افراد کے ہاتھوں میں ہو گی، تو وہ لمحہ فکر اندیش ہو سکتا ہے۔‘‘ اسی طرح حال ہی میں ’’ فریڈم آن دی نیٹ‘‘ کے عنوان سے شایع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مستقبل میں ہندسی یا ڈیجیٹل تقسیم بھی دُنیا کے لیے خطرناک صورتِ حال اختیار کر سکتی ہے، کیوں کہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے باعث پہلے ہی مسرّتوں کی تقسیم نہایت غیر منصفانہ ہے اور ٹیکنالوجی میں ترقّی یافتہ ممالک پس ماندہ ممالک کو روند دیں گے۔ اس رپورٹ کے مطابق، ہندسی تقسیم جمہوریت کو بھی غیر مستحکم کر سکتی ہے۔ نیز، ہیکرز بھی تباہی کا باعث بن سکتے ہیں، کیوں کہ الیکشنز اور میڈیا ان کے حملوں کی زد میں ہیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دُنیا بَھر کے دانش وَر تشویش میں مبتلا ہیں، لیکن پاکستان میں اس موضوع پر بحث کیوں نہیں ہوتی؟ اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دَور میں سائنسی اور صنعتی طور پر مسلّح قوّتوں سے مقابلے میں پاکستان کی ذہنی پس ماندگی شکست کھا رہی ہے۔ اگر پاکستان میں جمہوریت اور معاشی صورتِ حال ہمیشہ عدم تحفّظ کا شکار رہتی ہے، تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں توانائیاں صنعتی انقلاب یا زرعی ترقّی پر صَرف نہیں کی جاتیں۔ یاد رہے کہ ہمارا کارپوریٹ زرعی ماڈل 93فی صد چھوٹے کاشت کاروں کی بربادی کا باعث بن رہا ہے، جب کہ کئی دیگر ایسے زرعی ماڈلز موجود ہیں کہ جنہیں اختیار کر کے زراعت کو ترقّی دی جا سکتی ہے۔ تاہم، ہمارا مُلک اسٹیٹس کو یا تقلید پسندی کا شکار ہے۔ خیال رہے کہ صرف صنعتی انقلاب ہی سے قبائلی و جاگیر دارانہ عصبّتیں اور نسل پرستی کی بنیادیں ختم ہوتی ہیں، بند دماغ کُھلتے اور جمہوریت پٹری پرچڑھتی ہے، لیکن اگر کسی جمہوریت پر انٹرنیٹ حملہ آور ہو اور وہ عوام کے معیارِ زندگی میں کوئی بہتری نہ لا سکے، تو وہ سراب کے سوا کچھ نہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی سے عاری کسی غیر صنعتی مُلک میں فرضی جمہوریت کے نام پر سیاسی کھیل رچایا جاتا ہے، جس میں عوام کی شراکت نا ممکن ہے، جب کہ صنعتی انقلاب ہی عوام کی پیداواری صلاحیت بڑھاتا ہے اور وسائل کی پیداوار اور تخلیق میں مزدور، کاری گر، انجینئر، سائنس دان، ٹیکنالوجسٹ، صنعت کار اور کاشت کار وغیرہ سب شامل ہوتے ہیں۔ دراصل، پیداوار اور تخلیق کا نظام، تعلیم، تحقیق اور بنیادی صنعتوں کے تعامل کی پیداوار ہے۔ اگر صنعتیں موجود ہوں، تو ہُنر مند افرادی قوّت سے وسائل پیدا ہوتے ہیں اور پھراُن سے بھرپور استفادہ کیا جا سکتا ہے، لیکن پاکستان میں تو ان موضوعات پر بات تک نہیں ہوتی، تو پھر عوام کو سُکھ، چین کیسے نصیب ہو گا؟دوسری جانب ترقّی یافتہ ممالک میں صنعتی انقلاب نے سرمایہ داری کا رُوپ دھار لیا، تو اس کے نتیجے میں مسرّتوں کی تقسیم غیر منصفانہ ہو گئی اور منافعے کے حصول کی خاطر استحصال کی نِت نئی صورتیں سامنے آنے لگیں۔ طبقاتی فرق خوف ناک حد تک بڑھنے کی وجہ سے انسان کی قدر ختم اور ڈالر کی وقعت میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا۔ حتیٰ کہ اب انسانوں کے قتلِ عام پر جَشن منایا جاتا ہے۔ پھر ارتکازِ دولت میں ہونے والا بے حد اضافہ بھی عذاب بن چُکا ہے، جس کا آئے روز ذرایع ابلاغ میں اعداد و شمار کی شکل میں ذکر ہوتا رہتا ہے۔ تاہم، عصرِ حاضر کی ہندسی تقسیم یا روچوئل ورلڈ نے اس طبقاتی فرق کو مزید بھیانک اور پُر تشدّد بنا دیا ہے۔ اس بارے میں معروف لکھاری، جِم جوائس اپنے مضمون، ’’ٹیکنالوجی کے دوسرے پہلو‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’اسلحے اور منشّیات کے بیوپاریوں کے پاس زیادہ بہتر سائنس دان موجود ہیں، جنہیں تمام آسایشیں مہیا ہیں۔ نیز، یہ متوازی دُنیا چلانے والے ’’ڈرگ بیرن‘‘ اُن تمام حکومتی اطلاعات کو، جو اسلحہ اورمنشّیات فروشوں کو پکڑنے کے لیے دی جاتی ہیں، پہلے ہی ہوائوں سے اُچک لیتے ہیں۔‘‘

یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ انٹرنیٹ ریاست ہے یا ریاست کے لیے خطرہ؟ آج کی دُنیا میں جو بساط بچھائی گئی ہے، اس میں اگر ابلاغِ عامّہ کی ٹیکنالوجی کے پھیلائو کو دیکھیں، تو یہ طاقت کے ارتکاز کو بڑھا کر ریاست اور اس کے اداروں کو الگ تھلک کر کے طاقت افراد کے ہاتھوں میں منتقل کررہی ہے، جس کی ایک خطرناک شکل ہیکرز بھی ہیں۔ تاریخِ اقوامِ عالم کا جائزہ لیں، تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقّی ہر دَور ہی میں عوام کو طاقت فراہم کرتی آئی ہے۔ تاہم، آج کی دُنیا میں یہ سب روایتی ’’پاور بروکرز‘‘ کی قیمت پر ہو رہا ہے۔ چاہے یہ پاور بروکرز بادشاہ ہوں یا چرچز، آمر ہوں یا طبقۂ اشرافیہ۔ جیسے جیسے اطلاعات تک رسائی میں ترقّی ہوتی ہے، ویسے ویسے ابلاغ کے نِت نئے چینلز سامنے آتے ہیں اور عوام کی شرکت کے نئے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔ آج انٹر نیٹ اور موبائل فونز رابطوں میں اضافے یا کینکٹیویٹی بالخصوص طاقت کی منتقلی کا ایک بڑا ذریعہ بن گئے ہیں، جسے ’’ڈیجیٹل ایمپاورمنٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ڈیجیٹل سائنس دانوں اور ٹیکنالوجسٹس کا ماننا ہے کہ جب ورچوئل ورلڈ میں طاقت افراد کے ہاتھوں میں آجائے گی، تو یہ دُنیا خطرناک بھی ثابت ہو سکتی ہے اور ایک ہی ریاست میں کئی وار لارڈز بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ نیز، ایک سَستی سی ڈیوائس کے ذریعے ریاستی طاقت میں افراد، ادارے اور کمپنیز بھی شامل ہو جائیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ اب ترقّی یافتہ ممالک کی حکومتیں رابطوں کو اس انداز میں دریافت کرنے کے لیے کوشاں ہیں کہ افراد کو قابو میں رکھ سکیں، لیکن گوگل آئیڈیاز کے ڈائریکٹر، چارڈ کوہن کہتے ہیں کہ ’’ موجود ٹیکنالوجی کا نیٹ ورک اس انداز سے تشکیل دیا گیا ہے کہ یہ شہریوں کے حق میں جاتا ہے۔ گرچہ عصرِ حاضر کی اکثریت روایتی دُنیا میں زندگی بسر کر رہی ہے، لیکن تقریباً 20فی صد افراد ورچوئل ورلڈ میں زندگی بسر کر رہے ہیں، جو مصنوعی ذہانت، روبوٹ اور منافع خوری کی طرف بھی مائل ہے۔‘‘

اب دیکھتے ہیں کہ گوگل کے ایگزیکٹیو چیئرمین، ایرک شمیدت اپنی کتاب، ’’دی نیو ڈیجیٹل ایج‘‘ میں کس فکر مندی کا اظہار کر رہے ہیں۔ وہ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ ’’کیا ورچوئل ورلڈ میں ڈیجیٹل پاور یا ہندسی طاقت افراد کی جانب منتقل ہو رہی ہے اور اس کے نتیجے میں دُنیا آج سے زیادہ محفوظ ہو گی یا خطرناک؟‘‘ پھر وہ اپنے اس سوال کے جواب میں لکھتے ہیں کہ ’’انتظار کیجیے اور دیکھیے۔ ہم نے ابھی کنیکٹیویٹی کے حقائق کے ساتھ معرکہ آرائی کا آغاز کیا ہے اور دیکھنا ہو گا کہ یہ مستقبل میں کس قدر فائدہ مند ثابت ہو گی اور کتنی نقصان دہ۔ آج مختلف کمپیوٹر سائنٹسٹس، بزنس ایگزیکٹیوز، خارجہ پالیسی ساز اور نیشنل سیکوریٹی کے ماہرین بھی ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مستقبل میں ریاست، ادارے اور کمپنیز اپنی ذمّے داریوں سے کس طرح عُہد برآ ہوں گے اور ورچوئل شناخت کی کتنی اقسام ہوں گی؟ ان تمام سوالات کے جواب حاصل کرنا ہماری اجتماعی ذمّے داریوں میں شامل ہے، جو دُنیا کو بہتر بنانے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔‘‘ لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اگر دُنیا میں اسی طرح طبقاتی کشمکش بڑھتی رہی، آبادی میں اضافہ ہوتا رہا اور وسائل پر مُٹّھی بَھر افراد کا قبضہ برقرار رہا، تو یہ صدی انسان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان اس صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے قابل ہے؟ ہم اس وقت قرضوں سے نجات حاصل کرنے، کرپشن سے نبرد آزما ہونے اور زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھانے میں مصروف ہیں۔ سو، ہم ہندسی و صنعتی دُنیا میں کب قدم رکھیں گے؟ آج ہماری برآمدات کا حجم ویت نام جیسے چھوٹے سے مُلک سے بھی کم ہے اور ہم جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں ، جو کسی المیے سے کم نہیں۔ آج ایٹم بم نہیں، بلکہ درخت اور پانی ہی ترقّی کا ذریعہ ہیں، جس کا تصوّر وزیرِاعظم، عمران خان نے پیش کیا ہے، جب کہ علاّمہ اقبال بھی نقشِ کُہن مٹانے کی بات کرتے ہیں۔ یعنی تقلید پسندی تخلیق کی موت ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم کا مرکزی خیال انسان دوستی اور فطرت دوستی پر مبنی ہو، وگرنہ عالمی کشیدگی اور ہندسی تقسیم کے ساتھ ماحول کی خرابی بھی عذاب بن سکتی ہے۔ آج تعلیم ایک کاروبار بن چُکی ہے اور سرمایہ دارانہ نظام اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ منافع کم ہوجائے، تو بے روز گار ی عام ہو جاتی ہے۔ منافعے کی ہوس انسانوں سے کھلواڑ کے مترادف ہے اور کارل مارکس نے بہت عرصہ پہلے ہی اپنی تحریروں میں یہ ثابت کر دیا تھا۔ پھر آج کا طالب علم ہی عالمی صارف ہے، جس نے ملٹی نیشنل کمپنیز اور عالمی ساہو کاروں کے ہاتھ میں اپنی قوّتِ خرید گروی رکھ دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی سیاہ فام قرض نہیں لیتے، کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو ملازمتیں تاخیر سے ملیں گی اور وہ بھی کم درجے کی ہوں گی، جس کے نتیجے میں وہ بغیر سود والا قرض بھی ادا نہیں کر پائیں گے۔ ان تاثرات کا اظہار جوزف اسٹک گلسٹز نے2006ء میں نوبیل پرائز حاصل کرنے والی اپنی کتاب، ’’نا برابری کی قیمت‘‘ میں کیا ہے۔ اس کے علاوہ آج نوم چومسکی جیسے عالمی شُہرت یافتہ اسکالر بھی یہ کہتے ہیں کہ ’’منافعے کی ہوس نے ماحول میں خرابی پیدا کر کے کائنات کو گلوبل وارمنگ کے خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ یہ اس تقسیم کا نتیجہ ہے کہ جس نے لالچ کی خاطر فطرت سے محاذ آرائی جاری رکھی ہوئی ہے۔‘‘

آج انٹرنیٹ سے ریاست کے خاتمے کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے، لیکن یاد رہے کہ عالم گیریت نے بھی تجارت اور ملٹی نیشنل کمپنیز کے ذریعے ریاستوں کو ختم کرنے کی ناکام کوشش کی تھی، مگر پولیٹیکل اکانومی کے نصاب میں ان عناصر کا کوئی ذکر نہیں، تاکہ نئی نسل سامراجی عزائم سے آگاہ نہ ہو سکے۔ آج ایک جانب سائنس نے دُنیا کو ایٹمی طاقت سے ہونے والی بربادیوں کے حوالے کر دیا ہے، تو دوسری جانب ’’اسٹیٹس کو‘‘ کے حامی چاہتے ہیں کہ نظامِ تعلیم کو تقلید پسندی پر استوار کیا جائے کہ وہ ماضی کی گھنائونی روایات زندہ رکھ سکیں، حالاں کہ سائنس کسی بھی ریاست کے لیے قوّت کا سر چشمہ ہوتی ہے۔ سائنس تشکیک کو ناقابلِ انکشاف سمجھتی ہے، جب کہ مقلّد یہ سمجھتا ہے کہ حقیقت پہلے ہی دریافت ہو چُکی ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ حقیقت کی دریافت ممکن ہے، اس لیے قطعیت کا شکار نہیں ہوتی اور اسی لیے سائنس کا نفسِ مضمون شے کو حتمی شے نہیں سمجھتا، بلکہ کائنات میں تغیّر کو ثبات کہتا ہے۔ سو، جو ریاستیں ماضی کی روایات کی تقلید کرتی ہیں، اُن میں سائنسی رجحانات کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ پھر تقلید پسندی میں یہ سہولت بھی حاصل ہوتی ہے کہ اس میں سوچنے کی ضرورت نہیں پڑتی اور یہ روشن خیال نوجوانوں کے قتلِ عام پر مائل کرتی ہے۔آج ایک جانب ورچوئل ورلڈ کے خطرات کے بارے میں بات کی جا رہی ہے، تو دوسری جانب ہندسی تقسیم کے ذریعے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم بڑھانے پر اظہارِ خیال جاری ہے، لیکن اسلحہ سازوں اور ڈرگ مافیا نے دُنیا کو اس سے بڑے خطرے سے دو چار کر دیا ہے، لیکن نہ اس موضوع پر اور نہ ہی طبقاتی کشمکش کے خاتمے کے لیے کوئی تحریک نظر آتی ہے۔ تاہم، اسی کے ساتھ ہی برطانیہ سے فرانس تک زیرِ سمندر ریلوے لائن بچھائی گئی ہے اور چین نے سمندر میں ایک طویل پُل بنا دیا ہے، مگراس ساری صُورتِ حال میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ لیکن امید پر دُنیا قائم ہے اور ہماری پُختگی کا زمانہ بھی قریب ہے۔ شاید دُنیا میں شیکسپیئر سے بڑی ارواح اور افلاطون سے زیادہ اچّھے انسان پیدا ہوں اور اگر ہم نے دولت کی منصفانہ تقسیم کے ساتھ انسان اور آزادی کا احترام بھی سیکھ لیا، تو ہماری نشاۃِ جدیدہ بھی جلد ظہور پذیر ہوسکتی ہے۔

تازہ ترین