عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ٹیکنالوجی کی صنعت خواتین کے لیے موزوں نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے دیگر صنعتوں کی طرح، اس صنعت میں بھی خواتین کم تعداد میں ہیں۔ اگر امریکا کی بات کریں تو کمپیوٹر سائنس کی صرف 24فیصد نوکریاں خواتین کے پاس ہیں جبکہ 76فیصد پر مرد براجمان ہیں۔ سیلیکون ویلی میں لگ بھگ 11فیصد ایگزیکٹو پوزیشنز پر خواتین موجود ہیں۔ گوگل کے جیمز ڈیمور کے تحریر کردہ منشور، جس میں انھوں نے خواتین کو نباتاتی طور پر مرد سے کمتر قرار دیا تھا، کے بعد سیلیکون ویلی خواتین کے لیے مزید مشکل جگہ بن گئی ہے۔
اس کے باوجود، ٹیکنالوجی کی دنیا میں خواتین بتدریج اپنی اہمیت منوا رہی ہیں۔ اگر فوربز کی دنیا کی سب سے طاقتور خواتین کی فہرست پر نظر ڈالی جائے تو اس میں سے بھی 18 طاقت ور خواتین کا تعلق ٹیکنالوجی کی دنیا سے ہی ہے۔ مجموعی طور پر ٹیکنالوجی کی ترقی میں خواتین نے کیا کردار ادا کیا ہے، آئیے چند نمایاں خواتین کی خدمات پر نظر ڈالتے ہیں۔
ایڈا لولیس (Ada Lovelace)
ایڈ ا کے والد ایک شاعر تھے اور وہ ایڈا اور اس کی ماں کو تنہا چھوڑ کر جہان فانی سے اس وقت کوچ کر گئے، جب اس کی عمر صرف ایک ماہ تھی۔ ایڈ ا کی ماں کو ریاضی سے بے حد لگاؤ تھا اور انہوں نے اس امید پر ایڈا کی ریاضی میں دلچسپی کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ اپنے والد کے نقش قدم پر نہیں چلے گی۔ اس نے کئی قابل ذکر محققین اور ریاضی کے ماہرین سے بہترین تعلیم حاصل کی۔ چونکہ وہ مشین کو کافی اچھی طرح سمجھتی تھی، لہٰذا 1842ء میں اسے ایک اطالوی ریاضی دان کے لکھے ہوئے آرٹیکل کا ترجمہ کرنے اور اس میں اضافہ کرنے کے لئے کہا گیا۔ اس حتمی آرٹیکل میں عبارت کے کئی ایسے حصے بھی شامل ہیں، جنہیں اب ابتدائی کمپیوٹر پروگرام سمجھا جاتا ہے۔ اسی لئے اسے اکثر ’پہلی کمپیوٹر پروگرامر‘ بھی کہا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے ایڈ ا36سال کی عمر میں کینسر کی وجہ سے انتقال کر گئی، لیکن اپنی وفات کے بعد بھی وہ اس لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے کہ اس کے نوٹس ان اہم دستاویزات میں شامل ہیں، جنہوں نے 1940ء کی دہائی میں ایلن ٹیورن کو پہلا جدید کمپیوٹر بنانے کے لئے متاثر کیا۔
گریس ہوپر (Grace Hoper)
کمپیوٹر پروگرامنگ لینگویج کے پہلے کمپائلر کی مؤجد گریس ہوپر دوسری جنگ عظیم کے دوران ہارورڈ میں نیوی کیلئے کام کرنے کی وجہ سے مشہور ہوئیں۔ وہ جنگ میں عام مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے کمپیوٹر، ہارورڈ مارک1پر کام کرنے والے چند اولین پروگرامرز میں شامل تھیں۔ جنگ کے بعد انہوں نے پہلا کمپائلر بنانے پر کام کیا جسے ’اے کمپائلر‘ کہا جاتا ہے۔ اسی بنیاد پروہ اپنی کمپنی کی آٹومیٹک پروگرامنگ کی پہلی ڈائریکٹر بنیں، بعد میں انھوں نے کچھ ابتدائی کمپائلر بیسڈ پروگرامنگ لینگویجز جاری کیں۔ گریس اور اس کی ٹیم نے مارک 2 کمپیوٹر میں پھنسے ہوئے ایک پتنگے کو بھی دریافت کیا، اگرچہ بَگ کی اصطلاح کئی سال پہلے سے استعمال ہو رہی تھی، لیکن معنوی اعتبار سے اکثراس واقعے کو ڈی بگنگ کا پہلا واقعہ تسلیم کیا جاتا ہے۔
انیتا بورگ (Anita Borg)
ٹیکنالوجی سے وابستہ خواتین کیلئے پہلے ای میل نیٹ ورک کی مؤجد انیتا بورگ ابتدائی طور پر ایک ریاضی دان تھیں، جن کا کمپیوٹر سائنس میں جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، لیکن انھوں نے ایک انشورنس کمپنی میں کام کے دوران خود ہی پروگرامنگ کرنا سیکھی۔ اس کے بعد انھوں نے کمپیوٹر سائنس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
لیمر فرائیڈ (Limor Fried)
لیمر فرائیڈ الیکٹریکل انجینئر اور ایڈا فروٹ انڈسٹریز کی بانی و مالک ہیں۔ ہارڈ ویئر ہیکرانجینئرنگ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد لیمر نے ایڈافروٹ انڈسٹریز کی بنیاد رکھی، یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں اوپن سورس الیکٹرانک آلات، پرزہ جات اور ٹولز ڈیزائن اور فروخت کیے جاتے ہیں۔ لیمرچاہتی تھیں کہ الیکٹرانکس سیکھنے اور پری اسکول سے بالغ شوقین بننے تک، مہارت کے تمام درجات کے تخلیق کاروں کیلئے مصنوعات کی فروخت کیلئے ایک بہترین جگہ تخلیق کی جائے، لہٰذا اس نے ایڈافروٹ کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد وہ وائرڈ (Wired) کے سرورق پر چھپنے والی پہلی خاتون انجینئر بنیں اور انہیں ’انٹرپرنیورآف دی ایئر 2012‘ قرار دیا گیا، جہاں وہ 15 حتمی امید واروں میں واحد خاتون تھیں۔ اس بارے میں انہوں نے کہا، ’’اس کے بعد اگر میری کوئی خواہش ہے تو وہ یہ ہے کہ کوئی بچہ اپنے آپ سے کہے، ’میں یہ کر سکتا ہوں‘ اور انجینئر اور بزنس مین بننے کا سفر شروع کرے‘‘۔
شیرل سینڈبرگ (Sheryl Sandberg)
اگر شیرل سینڈبرگ کو اس وقت ٹیکنالوجی کی دنیا کی سب سے طاقتور خاتون کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ فوربز بھی اس بات کی تصدیق کرتا نظر آتا ہے۔ فوربز کی ٹیکنالوجی خواتین کی فہرست میں وہ اول نمبر پر اور مجموعی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہیں۔ شیرل سینڈ برگ، سوشل میڈیا ویب سائٹ، فیس بک کی چیف آپریٹنگ آفیسر (COO) ہیں۔ شیرل نے ہارورڈ بزنس اسکول سے تعلیم حاصل کی اور گوگل کیلئے گلوبل آن لائن سیلز اینڈ آپریشنز کی نائب صدر کے طور پر کام کے ذریعے ٹیکنالوجی کی دنیا میں قدم رکھا۔ بعد میں ان کی ملاقات مارک زکربرگ سے ہوئی۔ انہوں نے فیس بک کو منافع بخش بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور فیس بک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی پہلی خاتون رکن بنیں۔