• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دسمبر کا اُداس اور سرد مہینہ بی بی کی شہادت کا لمحہ محفوظ رکھتا ہے، چند روز قبل ’’چیلنج‘‘ کے اس کالم میں انہیں یاد کیا گیا، یاد کے مزید تسلسل اور تشنگی کے احساسات کا بیانیہ ادھورا سا رہ گیا تھا، اس ادھورے پن کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 27؍ دسمبر وہ حزینہ دن ہے جب وہ ساری قوم کو روتا چھوڑ کے خالق حقیقی کے حضور حاضر ہو گئیں۔

18؍ اکتوبر 2007گو یہ معمول کا ایک دن تھا، تاہم اس کا اندراج ہمیشہ تاریخِ پاکستان کے تاریخی وقوعہ جات کی فہرست میں کیا جائے گا، وقوعہ یہ ہے کہ تقریباً سات یا آٹھ برس کی جلا وطنی کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن، عالم اسلام اور پاکستان کی تاریخ میں دو مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے والی واحد خاتون محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے وطن کی دھرتی پر واپس آ رہی تھیں، جب کراچی کو خون میں نہلا دیا گیا، سانحہ ’’کار ساز‘‘ ہوا، 150ذی روح شہید کر دیئے گئے، بی بی کی زندگی محفوظ رہی۔

بی بی شہید پاکستان کی سب سے بڑی قومی سیاسی جماعت کی سربراہ اور قومی رہنما کی حیثیت رکھتی تھیں۔ محض یاد دہانی کی خاطر ان کی زندگی کے ماہ و سال پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

محترمہ بے نظیر بھٹو قیام پاکستان کے بعد کی پہلی دہائی میں پیدا ہوئیں، غالباً 1952یا 1953ء آکسفورڈ اسٹوڈنٹس یونین کی صدر رہنے کے علاوہ انہیں متعدد بین الاقوامی علمی، فکری اور عہد ساز ایوارڈز سے نوازا گیا۔ مثلاً 1988میں انسانی حقوق کا برونوسکی میرٹ ایوارڈ، 1989ء میں ریڈ کلف ہاورڈ یونیورسٹی کا فائی بیٹا کاپا ایوارڈ، 1989ء میں مراکش اور فرانس کے اعلیٰ ترین اعزازات، 1996ء میں انہیں ٹوکیو میں انسانی خدمات کا ایوارڈ جبکہ 1996ء ہی میں ترک بزنس ایسوسی ایشن اور صدر بوسنیا نے بوسنیا کے حوالے سے ان کی ناقابل فراموش خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ایوارڈ دیا، انہیں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا لاس اینجلس،ا سکول آف ایڈوانس انٹرنیشنل سائنس، یونیورسٹی آف سندھ، ہنڈانو اسٹیٹ یونیورسٹی آف فلپائن، پشاور یونیورسٹی، گاک شیوئن یونیورسٹی ٹوکیو اور آکسفورڈ یونیورسٹی نے ڈاکٹر شپ اور فیلو شپ کی اعزازی ڈگریاں پیش کیں، کرغستان، قزاقستان کی یونیورسٹیوں نے انہیں اعزازی پروفیسر کے طور پر منتخب کیا، انہیں 29اکتوبر 2009ء کو لندن میں ’’اکیڈمی ایوارڈ آف لائف اچیومنٹ‘‘ بھی دیا گیا۔

وہ ایک ایسی ہستی بھی ہیں جن کے والد گرامی کو پھانسی دی گئی، خلقِ خدا اور دانشوروں کا ایک جم غفیر اسے ’’عدالتی قتل‘‘ قرار دیتا ہے، عدالت کا یہ ’’فیصلہ‘‘ آج تک ’’متنازعہ‘‘ ہے۔ انہیں اپنے دو جوان ماں جائے بھائیوں کو اپنے ہاتھوں دفن کرنا پڑا، ایک فرانس میں پراسرار موت کا شکار ہوا، دوسرا کراچی کی ایک شب کو چلائی جانے والی اندھی گولی سے ہلاک کر دیا گیا، انہیں اپنی شادی کے بعد اپنے خاوند کی قید و بند سے پالا پڑا، جسے چھ سات برس سے زائد جیل کی ممکنہ ذہنی اور جسمانی صعوبتوں سے گزارا گیا تاآنکہ سپریم کورٹ نے ضمانت پر رہائی کا حکم دے دیا، ان کی والدہ محترمہ بیگم نصرت بھٹو اپنے خاوند ذوالفقار علی بھٹو کی غیر فطری جدائی پر غمزدہ رہنے لگی تھیں، جب انہیں یکے بعد دیگرے اپنے دو جوان بیٹوں کی غیر فطری اموات کے دکھ کا بھی سامنا کرنا پڑا، ان سمجھ میں نہ آنے والی یادوں میں گم اور اس خاموش غم کے باعث بالآخر بیگم صاحبہ نے کومے میں سکوت اور سکون کی گھڑیاں تلاش کر لیں، پھر اسی حالت سُکر میں رضائے الٰہیہ پر لبیک کہا، ان کی آنکھوں میں آنسوئوں کے سوتے خشک ہو چکے تھے، ان کا دامن غالباً روز حشر کے عدل کا منتظر ہے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو نے 4اپریل 1979ء کی اس آسیب زدہ رات کے بعد ایک طرح سے عملی سیاست میں قدم رکھ دیا تھا جب ان کے والد نے تختہ دار کو سرفراز کیا، وہ دو مرتبہ وزیراعظم پاکستان منتخب کی گئیں، انہوں نے اپنے بچوں کی پرورش کے دورانیوں میں قیدی خاوند کے تھکا دینے والے شب و روز کی تپش کا سامنا کیا، ان کی حکمرانی کے ادوار، ان پر کرپشن کے الزامات، مقدمات کی تاریخیں بھگتنے کے لئے ان کے پاکستان کی مختلف عدالتوں میں دن رات کے سفر، دراصل 1979سے لے کر 2007تک کی زندگی کے وہ سفر ہیں جو بے نظیر بھٹو شہید نے قید، مصائب، الزامات، تشدد اور جلا وطنی کے سرخ آسمانوں تلے کئے۔ برسوں پر پھیلی ہوئی مصیبتوں کی ان مسافتوں کو انہوں نے وسیع الظرف وقار اور صبر جمیل کے ساتھ طے کیا۔ چنانچہ پوری دنیا او رپاکستانی عوام میں وہ اپنے فکر اور اپنے کردار کی استقامت کے باعث سرو قد ٹھہریں، انہوں نے عزم و استقلال پر مبنی سچائی کا دامن نہیں چھوڑا، ان کے دشمنوں نے ان کی زندگی کو موت سے بدتر بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رہنے دی، وقت کا جھکائو بے نظیر بھٹو کی کامیابی اور دشمنوں کی نامرادیوں کی جانب محسوس ہوتا ہے۔

جلاوطنی کے کرب کی آبدیدہ گہرائی کو اپنی ذات اور اپنے نظریات کے تناظر میں بے نظیر بھٹو نے اپنی صدائے باز گشت کے درد آمیز جھرمٹ میں بیان کیا ہے، کسی ایک شام کے گھنیرے سایوں کی اس بھری چھائوں میں انہوں نے خود کو یاد دلایا، اس یاد میں ان کے والد گرامی کے الفاظ بھی در آئے جنہوں نے ایک بار انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا:’’دیکھو، کسی اچھی یا بری شے کو ہمیشگی حاصل نہیں، قید کے یہ دن بھی گزر جائیں گے، اصل یہ ہے کہ ہم کسی بھی وقت کو سر اٹھا کر گزاریں،فتح و شکست خدا کے ہاتھ میں ہے‘‘.... مزید لکھا:

’’میں جب پچاس برس کا ہو جائوں گا تو یہ دنیا قدر تلخ ہو گی۔ جبکہ میری بیس برس کی عمر میں یہ اتنی تلخ ہے مگر تمہیں تلخ نہیں، مستحکم رہنا چاہئے‘‘ چنانچہ میں سوچتی ہوں کہ یورپین فلاسفر گوئٹے نے بالکل صحیح قرار دیا تھا کہ ’’ہر نسل اس آزادی کی تجدید ہونی چاہئے۔‘‘

بے نظیر کہانی واقعی ’’بے نظیر‘‘ ہے۔ گزشتہ ’’چیلنج‘‘ کی طرح بات یہیں پر چھوڑتے ہیں ’’کالم کی گنجائش ختم ہوئی، مقدر میں ہوا تو بی بی شہید کو کبھی ’’کتابی صورت‘‘ میں ان جہتوں سے بیان کریں گے جن کو شاید ابھی تک ضبط تحریر میں نہیں لایا جا سکا۔

تازہ ترین