• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر برس کی طرح2018ء میں بھی کچھ لوگ خبروں میں اِن رہے، تو بہت سے منظرنامے سے غائب ہو گئے۔ کچھ لوگ اقتدار کے ایوانوں سے باہر ہوئے، تو کچھ اندر آئے۔ آئیے، دیکھتے ہیں کہ کس کے ساتھ کیا ہوا۔

عمران خان اِن،شاہد خاقان عباسی آؤٹ

ویسے تو عمران خان کا اصل ہدف نواز شریف تھے، مگر عام انتخابات کا وقت آیا، تو نواز شریف عدالتی فیصلے کی وجہ سے سیاست سے آئوٹ ہو چُکے تھے اور اصل سوال یہ تھا کہ اگر مسلم لیگ نون جیتی، تو وزیرِ اعظم، شاہد خاقان عباسی ہوں گے یا شہباز شریف۔ مگر یہ دونوں آئوٹ رہے اور عمران خان ایک دبنگ اینٹری کے ساتھ اقتدار کے ایوان میں براجمان ہوگئے۔ انتخابات سے چند ہفتے قبل تک وزیرِ اعظم رہنے والے، شاہد خاقان نہ صرف یہ کہ مَری سے اپنی آبائی نشست کھو بیٹھے، بلکہ اسلام آباد میں بھی عمران خان سے شکست کھا گئے۔

عارف علوی اِن، ممنون حسین آؤٹ

ممنون حسین30 جولائی 2013ء کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں بھاری اکثریت سے مُلک کے بارہویں صدر منتخب ہوئے اور 8 ستمبر 2018ء یعنی اپنی آئینی مدّت کی تکمیل تک عُہدے پر فائز رہے۔ اُن کی جگہ تحریکِ انصاف کے ابتدائی دَور کے کارکن اور سابق رُکن قومی اسمبلی، ڈاکٹر عارف علوی نے صدرِ مملکت کا عُہدہ سنبھالا۔ عارف علوی عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے رُکن بھی منتخب ہوئے۔

اسد قیصر اِن،ایاز صادق آؤٹ

ایاز صادق، اسپیکر قومی اسمبلی کے عُہدے سے ایک بار پہلے بھی آئوٹ ہوئے، مگر اُنہوں نے جلد ہی دوبارہ انتخاب لڑکر خود کو اِن کر لیا، لیکن 2018 ء کے عام انتخابات میں نون لیگ کی شکست کا اثر اُن پر بھی پڑا اور وہ قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہونے کے باوجود اسپیکر شپ حاصل نہ کرسکے۔ تحریکِ انصاف نے کام یابی کے بعد اسپیکر کے عُہدے کے لیے خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والے سینئر رہنما، اسد قیصر کو نام زَد کیا اور انھوں نے اسپیکر شپ اپنے نام کر لی۔

بلاول اِن، مریم نواز آؤٹ

2018 ء کے شروع میں تو مریم نواز خبروں میں خاصی اِن رہیں، جب اُنہوں نے اپنے والد کی نااہلی کے بعد پارٹی کو فعال رکھنے کے لیے خاصی جدوجہد کی، مگر اُنھیں انتخابات میں حصّہ لینے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا اور پھر والد اور شوہر کے ساتھ سلاخوں کے پیچھے بھی جانا پڑا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سزائیں کالعدم ہونے پر رہائی تو مل گئی، مگر اس کے بعد سے اُنھوں نے مسلسل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اور کسی سیاسی سرگرمی میں حصّہ نہیں لے رہیں۔ دوسری طرف، بے نظیر بھٹو شہید کے جواں سال صاحب زادے، بلاول بھٹّو سیاسی میدان میں اِن رہے۔اُنھوں نے بھرپور انداز میں پارٹی کی انتخابی مہم چلائی اور خود بھی پہلی بار قومی اسمبلی پہنچ گئے۔ جب کہ اسمبلی میں شان دار تقاریر کرکے اپنی جماعت کا ایک روشن چہرہ پیش کرنے کی بھی کوشش کی۔

خادم رضوی اِن، طاہر القادری آؤٹ

ڈاکٹر طاہر القادری کو’’ دھرنا اسپیشلسٹ‘‘ کہا جاتا ہے، کیوں کہ وہ ماضی میں کئی ایسے دھرنے دے چُکے ہیں، جن کی طوالت ہفتوں پر محیط رہی۔ تاہم، 2018ء میں وہ دھرنوں سے آئوٹ رہے اور اُن کی جگہ، تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ، مولانا خادم رضوی نے لی۔ مولانا خادم رضوی نے 2017ء کے فیض آباد دھرنے سے شہرت پائی، جس کے نتیجے میں حکم ران نون لیگ کے کئی وزراء کو استعفے تک دینے پڑے۔ اُنھوں نے 2018 ء میں بھی دھرنا دیا، مگر ماضی کی طرح مطالبات منوانے میں ناکام رہے، بلکہ اس بار تو گرفتاری کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

شہریار آفریدی اِن، احسن اقبال آؤٹ

نون لیگ حکومت کے آخری دَور میں احسن اقبال وزیرِ داخلہ جیسے اہم عُہدے پر فائز تھے اور اس دوران اُن پر ایک قاتلانہ حملہ بھی ہوا، جس میں اُنھیں بازو پر زخم آئے۔ اُن ہی کے دَور میں فیض آباد دھرنا ہوا، جس سے نمٹنے کی حکمتِ عملی پر اُنھیں اپوزیشن کے ساتھ اپنی جماعت کی صفوں سے بھی تنقید سُننا پڑی۔ تحریکِ انصاف کی حکومت میں یہ عُہدہ خود وزیرِ اعظم کے پاس ہے، تاہم شہریار آفریدی کو وزیرِ مملکت برائے داخلہ امور بنایا گیا، جو متحرّک کردار ادا کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالمالک اِن،حاصل بزنجو آؤٹ

2018ء کے عام انتخابات میں شکست کے بعد، نیشنل پارٹی کے تنظیمی انتخابات ہوئے، تو ارکان نے حاصل بزنجو کی جگہ ڈاکٹر عبدالمالک کو پارٹی کا نیا سربراہ چُن لیا۔ اس طرح سینئر سیاست دان، حاصل بزنجو نہ صرف اقتدار، بلکہ پارٹی قیادت سے بھی آئوٹ ہو گئے۔ ناقدین کے مطابق حاصل بزنجو کے آؤٹ ہونے میں اُن کے بعض فیصلوں کا دخل ہے۔ ڈاکٹر مالک، نیشنل پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے سیاست میں اِن تو ہو چُکے ہیں، مگر اِن کی پارٹی گزشتہ انتخابات میں ایک بھی نشست حاصل نہیں کر سکی تھی، اس لیے پارٹی میں جان ڈالنا اُن کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں۔

فواد چوہدری اِن، مریم اورنگ زیب آؤٹ

مریم اورنگ زیب، نواز شریف اور اُن کی صاحب زادی، مریم کی دستِ راست ثابت ہوئیں۔ پرویز رشید سے وزارتِ اطلاعات کا قلم دان واپس لینے پر اُنہوں نے وزیرِ مملکت کے طور پر میڈیا کے محاذ پر بھرپور انداز میں نون لیگ اور اُس کی قیادت کا مقدمہ لڑا۔ تحریکِ انصاف نے میڈیائی جنگ کی ذمّے داریاں، فوّاد چوہدری کو سونپیں، جو ایک پُرجوش لڑائی لڑ رہے ہیں، جس کے دوران انھیں تعریف و توصیف کے ساتھ، تنقید کا بھی سامنا ہے۔ اُن کی مشاہد اللہ کی تقریر کے جواب میں، بعض ریمارکس پر چئیرمین سینیٹ سے بدمزگی ہوئی، جس کے نتیجے میں اُن کے سینیٹ میں داخلے پر پابندی عاید کر دی گئی۔

اسد عُمر اِن، محمّد زبیر عُمر آؤٹ

یہ دونوں جنرل غلام عُمر کے صاحب زادے ہیں اور دونوں ہی سیاست میں سرگرم ہیں، تاہم ایک کا تعلق مسلم لیگ نون، تو دوسرے کا پی ٹی آئی سے ہے۔ محمّد زبیر عُمر نون لیگ کی میڈیا ٹیم کے اہم رُکن رہے اور پھر میاں نواز شریف نے اُنھیں سندھ کا گورنر بنا دیا ۔ 2018 ء کے انتخابات میں پارٹی شکست کے بعد وہ صُورتِ حال دیکھتے ہوئے گورنر کے عُہدے سے مستعفی ہو گئے، جن کی جگہ تحریکِ انصاف کے عمران اسماعیل نے یہ عُہدہ سنبھالا۔ اسد عُمر، 2013 ء کے انتخابات میں بھی پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر اسلام آباد سے قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے تھے اور 2018ء میں بھی اپنی نشست نکالنے میں کام یاب رہے۔ عمران خان کی کابینہ میں اُنھیں وزارتِ خزانہ کا قلم دان سُپرد کیا گیا۔ اسد عُمر کے بارے میں پارٹی سربراہ نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ جیت کی صورت میں نئے وزیرِ خزانہ وہی ہوں گے، مگر حیرت انگیز طور پر معاشی گرو سمجھے جانے والے، اسد عُمر نے اقتدار میں آنے کے بعد ثابت کیا کہ وہ اس عُہدے کے لیے پوری طرح تیاری نہیں کر سکے تھے۔

عثمان بزدار اِن، شہباز شریف آؤٹ

2008 ء سے مئی 2018 ء تک دو جمہوری حکومتوں نے اپنی آئینی مدّت پوری کی اور اس پورے عرصے کے دوران، شہباز شریف پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ پر متمکّن رہے۔ 2018 ء کے انتخابات میں میاں نواز شریف کی نااہلی کے سبب شہباز شریف نے پنجاب کی بجائے قومی اسمبلی جانے کو ترجیح دی، یوں ایک طویل عرصے کے بعد وہ پنجاب سے آؤٹ ہوگئے۔ اُنھوں نے اپنی جگہ اپنے صاحب زادے، حمزہ شہباز کو اس منصب پر لانے کی کوشش کی، لیکن وہ پی ٹی آئی کے عثمان بزدار سے شکست کھا گئے۔ عثمان بزدار عام انتخابات سے چند ماہ قبل ہی تحریکِ انصاف میں شامل ہوئے تھے، لیکن وہ ایسے اِن ہوئے کہ بڑے بڑے کھلاڑیوں کو آئوٹ کردیا۔

بشریٰ بی بی اِن،ریہام خان آؤٹ

بشریٰ بی بی، عمران خان کی تیسری اہلیہ کے طور پر اِن ہوئیں اور اپنے روحانی کمالات کی وجہ سے بھی خبروں میں خُوب جگہ بنائی۔عمران خان کے وزیرِ اعظم بننے پر اُنھیں’’ خاتونِ اوّل‘‘ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔عمران خان کے اِن ہونے میں خود اُن کے بہ قول، بشریٰ بی بی کا سب سے بڑا حصّہ تھا۔ حتیٰ کہ جب خان صاحب کی حکومت کے ایک سو دن پورے ہوئے، تو اس کا سہرا بھی اُنہوں نے اپنی بیگم ہی کے سَر باندھا ۔ عمران خان کی سابقہ اہلیہ، ریہام خان نے اپنی کتاب کے ذریعے سیاسی میدان میں زبردست اینٹری دی، مگر کچھ دن کے شور شرابے کے بعد وہ اپنی کتاب سمیت منظر نامے سے غائب ہو گئیں۔

جسٹس ثاقب نثار اِن، شوکت صدیقی آؤٹ

چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس ثاقب نثار کچھ زیادہ ہی خبروں میں اِن رہے۔ اُنہوں نے میڈیا کوریج میں جسٹس افتخار چوہدری کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ اُن کے اِن رہنے کا بڑا سبب اُن کے ازخود نوٹسز، اسپتالوں اور دیگر سرکاری اداروں کے دَورے رہے۔ پھر اُنہوں نے پانی کی کمی سے نمٹنے کے لیے دیامر بھاشا ڈیم بنانے کا بیڑا بھی اٹھا لیا، جس نے اُنہیں خبروں میں مسلسل اِن رکھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی اس طرح آئوٹ ہوئے کہ نہ صرف خبروں سے غائب ہوئے، بلکہ خود اپنے چیمبر سے بھی نکالے گئے اور نوکری سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔

تازہ ترین