• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زرداری اور بلاول کبھی پارک لین کے ڈائریکٹر نہیں رہے،مرتضیٰ وہاب

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘میں میزبان حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے دعویٰ کیا ہے کہ آصف زرداری پارک لین کےشیئر ہولڈر اور بلاول بھٹو زرداری ڈائریکٹر تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم سندھ میں ایم پی اے نہیں توڑیں گے، فلور کراسنگ اب نہیں ہو سکتی۔اس پر پیپلز پارٹی کے رہنما مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ شہزاد اکبر اپنا ریکارڈ درست کریں کیوں کہ بلاول کبھی بھی ڈائریکٹر نہیں رہے۔انہوں نے کہاکہ آصف زرداری اور بلاول کبھی پارک لین کے ڈائریکٹر نہیں رہے، مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبل جاوید لطیف نے کہا کہ اس سے پارلیمان کو خطرہ ہوگا جس کا جہاں مینڈیٹ ہے اسے ملنا چاہئے۔معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبرنے کہا کہ گورنر راج کی کبھی بات نہیں کی ، مراد علی شاہ کا استعفٰی اخلاقی مطالبہ ہے وہ مستعفی ہو جائیں ،پارک لین کے شیئر ہولڈرز زرداری صاحب اور بلاول بھٹو ہیں، مشیر وزیر اعلیٰ سندھ اور رہنما پیپلز پارٹی مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ اگر اخلاقی جواز کی بات ہے تو وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے پی کے کو بھی مستعفی ہو جانا چاہئے۔ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کبھی بھی پارک لین کے ڈائریکٹر نہیں رہے اور کمپنی کو اس کے شیئر ہولڈرز نہیں ڈائریکٹر چلاتے ہیں، اگر اخلاقی طور پر انکوائری کی فائنڈنگ کے اوپر کسی منتخب وزیراعلیٰ کو استعفیٰ دینا چاہئے تو وزیراعظم بھی ہیلی کاپٹرکیس میں نیب کی انکوائری کی زد میں ہیں ان کو بھی مستعفی ہونا چاہئے،رہنما ن لیگ جاوید لطیف نےکہاکہ اگر اپوزیشن جب یہ حکومت بننے جارہی تھی اس وقت سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی تو یہ حکومت ہی نہیں بنتی ۔ معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری کی گرفتاری کب ہوگی یہ مجھے تو معلوم نہیں لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ ان پر جو الزامات ہیں وہ بہت سنجیدہ قسم کے ہیں اور اس حوالے سے جو ریفرنسز فائل کرنے کا کہاگیا ہے تو اگر سپریم کورٹ اس سے متفق ہوتی ہے تو پھر یہ گرفتاری عمل میں آسکتی ہے ۔ جے آئی ٹی رپورٹ کسی پارٹی کے خلاف نہیں ہے اس میں کچھ اشخاص ہیں جن کا ذکر کیا گیا ہے تاہم اگر صرف آصف زرداری کو ہی لے لیں تو ان کے حوالے سے پورا جو ڈاکیومینٹری ٹریل نظر آرہا ہے وہ بہت ہی سنجیدہ ہے جس کا جواب پیپلز پارٹی کو دینا ہوگا چاہے وہ سیاسی طور پر دیں یا عدالت میں جاکر دیں ۔ ایک نکتہ ہے 17 لاکھ کی زمین کو راتوں رات کمرشلائز کرکے اربوں کی ویلیو اس کی ڈیکلیئر کردی گئی اور اس پر 3اعشاریہ 4ارب کا لون لیا جاتا ہے اور اس لون کا 1 اعشاریہ 5 ارب فوری طور پر پارک لین کو دیدیا جاتا ہے جس کے شیئر ہولڈرز زرداری صاحب اور بلاول بھٹو ہیں اور اس لون سے پھر جائیداد خریدی جاتی ہے تاہم اس وقت بلاول بھٹو زرداری پبلک آفس ہولڈر نہیں تھے ۔ دوسرا نکتہ جو توشہ خانے کی گاڑیاں ہیں ان کی ادائیگی انہی فیک اکاؤنٹس سے ہوئی ہے اور پورا اس کا ٹریل دیا گیا ہے جن فیک اکاؤنٹس سے اومنی گروپ کو منسلک کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری طرف سے گورنر راج کی کوئی بھی بات نہیں ہے اور ناں ہی پاکستان تحریک انصاف ایسے کسی اقدام کو سپورٹ کرتی ہے ۔ مراد علی شاہ کا استعفیٰ اخلاقی مطالبہ ہے اوران کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ مستعفی ہوجائیں ۔ای سی ایل میں نام کورٹ کے آرڈر پر یا پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی درخواست پر ڈالے جاتے ہیں جن کے خلاف جے آئی ٹی ریفرنس فائل کرنے کی درخواست کررہی ہے اگران میں سے کوئی ملک سے باہر چلا جاتا ہے تو انگلی ہم پر ہی اٹھتی کہ اس وقت آپ کیا کررہے تھے اس لئے ہم نے ان کے نام ای سی ایل میں ڈال دیئے اور یہ نام لاء انفورسمنٹ کے حکم پر ڈالے گئے ہیں اگر عدالت ہم کو حکم دیتی ہے کہ نکال دیں تو حکومت اس حکم کے پابند ہے ۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ سیاسی ماحول اور عدالتی پروسیڈنگ کو الگ ہونا چاہئے مگر جب جے آئی ٹی رپورٹ آجاتی ہے تو پھر اس پر لازمی سی بات ہے کہ سیاسی لوگ تبصرے بھی کریں گے ۔

تازہ ترین