وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی جانب سے ملتان کو نظر انداز کرنے کا تاثر جنم لے رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ملتان کو اہمیت دینے کی بجائے ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور کو اپنی ترجیحات میں رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے اپنا پہلا تین روزہ دورہ ڈیرہ غازی خان کا کیا جس کے دوران اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔ اس بار انہوں نے بہاولپور میں کابینہ کا اجلاس منعقد کیا اور تین روز تک وہاں موجود رہے، جس سے ملتان کے سیاسی حلقوں میں چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ ملتان کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور اس کی وجہ پی ٹی آئی کے وہ ارکان اسمبلی ہیں جو قیادت کے سامنے آواز اٹھانے سے قاصر ہیں۔ حالانکہ پی ٹی آئی نے پورے جنوبی پنجاب میں اگر کسی شہر میں کلین سویپ کیا ہے تو وہ ملتان ہے۔ یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ شاہ محمود قریشی کو شکست دینے والے رکن صوبائی اسمبلی سلمان نعیم نے جب گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تو اس میں انہوں نے ان سے براہ راست اپنے حلقہ کے لئے فنڈز مانگے، گویا صوبائی وزیر، وزیراعلیٰ پنجاب ملتان اور ملتان کے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی منصوبوں کے لئے فنڈز دینے لئے تیار نہیں ہیں۔ بعض سیاسی حلقے اس کی وجہ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے درمیان کشمکش کو بھی قرار دے رہے ہیں، جس کے باعث جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا ڈویژن ضلع اور شہر ملتان بری طرح نظر انداز کیا جارہا ہے۔
اس کی عملی مثال وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے پیش کردی ہے کہ کابینہ کا پہلا اجلاس ملتان میں کرنے کی بجائے بہاولپور میں رکھا گیا۔ ادھر بیک وقت پنجاب کے 13 اضلاع کی ضلع کونسلوں کے چیئرمینوں کی تحریک انصاف میں شمولیت کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے تحریک انصاف کے بلدیاتی اداروں پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کا دیرینہ منصوبہ کار فرما ہے، کیونکہ پنجاب میں نئے بلدیاتی نظام کے لئے تحریک انصاف نے تمام تیاریاں مکمل کررکھی ہیں اور وزیر اعظم عمران خان نے اس کی منظوری بھی دے دی ہے مگر چند وجوہات کی بناء پر ابھی اسے عملی جامہ نہیں پہنایا جارہا ، ان میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے یہ اعلان کررکھا ہے کہ اگر وقت سے پہلے بلدیاتی ادارے توڑے گئے تو سخت مزاحمت کی جائے گی اور عدالتوں سے رجوع کرکے اس فیصلے کو کالعدم قرار دلوایا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق اس لئے تحریک انصاف نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے اور پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم خان کو یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ ضلع کونسلوں کے چیئرمینوں اور کارپوریشنوں کے میئرز کو پی ٹی آئی میں شمولیت پر راضی کریں جو بعد ازاں خود ہی ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے حکومت کے لئے نئے انتخابات کا مطالبہ کریں گے اور اس طرح حکومت کے لئے آسانی ہوگی کہ وہ بلدیاتی نظام کے حوالے سے اپنے پروگرام کو عملی جامہ پہنا سکے۔ پہلے مرحلے میں ضلعی چیئرمینوں کو قائل کیا جارہا ہے ۔ دوسرے مرحلہ میں بڑے شہروں کے میئرز کو ساتھ ملانے کی کوشش کی جائے گی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جن چیئرمینوں اور میئرز کو تحریک انصاف میں شامل کیا جارہا ہے انہیں یہ ضمانت بھی دی جارہی ہے کہ آئندہ یہ عہدہ انہیں ہی دیا جائے گا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ منصوبہ کب تک اور کس حد تک پایۂ تکمیل کو پہنچتا ہے تاہم بیک وقت 13 چیئرمینوں کی بنی گالا جاکر تحریک انصاف میں شمولیت بڑا بریک تھرو ہے جس کے بلدیاتی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
گہرے اثرات تو حکومت کے اس اعلان سے بھی مرتب ہونے جارہے ہیں جو اس نے آئندہ مالی سال سے جنوبی پنجاب میں علیحدہ انتظامی سیکرٹریٹ قائم کرنے کے حوالے سے کیا ہے۔ اس میں سب سے بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ اب انتظامی سیکرٹریٹ سربراہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری کی بجائے چیف سیکرٹری کو بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس طرح پولیس کی سربراہی کے لئے آئی جی سطح کے افسر کی تعیناتی بھی کی جائے گی۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کیا آئینی طور پر ایک صوبہ میں دو چیف سیکرٹری کام کرسکتے ہیں یا دو آئی جی تعینات ہوسکتے ہیں؟ لیکن فی الحال اس اعلان نے اپوزیشن کے لئے مشکلات کھڑی کردی ہیں کیونکہ اپوزیشن کی طرف سے جنوبی پنجاب کے ساتھ بہاولپور صوبہ کے قیام کا مطالبہ ایک ایسا ٹرمپ کارڈ ہے کہ جس نے جنوبی پنجاب صوبہ کا مطالبہ کرنا ممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور بنارہا ہے کیونکہ بہاولپور کے بغیر یہاں کے سٹیک ہولڈرز صوبہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ادھر بہاولپور والوں کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ ان کی ریاستی حیثیت کے پیش نظر بہاولپور کو علیحدہ صوبہ بنایا جائے۔ یہ معاملہ اب شاید اس تنازع میں الجھ کر رہ جائے، تاہم حکومت نے علیحدہ سیکرٹریٹ کی حتمی تاریخ دے کر یہ واضح کردیا ہے کہ وہ ہر صورت اپنے اس وعدہ کی تکمیل چاہتی ہے جو اس نے جنوبی پنجاب کے حوالے سے کررکھا ہے۔
اگر یکم جولائی کو جنوبی پنجاب میں چیف سیکرٹری کا دفتر کام شروع کردیتا ہے تو یہ بہت بڑی پیشرفت ہوگی کیونکہ چیف سیکرٹری کی تقرری کے بعد تمام صوبائی محکموں کے سیکرٹریز اور سربراہوں کی تقرری بھی لازمی ہوجائے گی پھر چیف سیکرٹری کی موجودگی میں سیکرٹری فنانس بھی جنوبی پنجاب میں تعینات ہوگا اور اس کی وجہ سے سیکرٹریٹ اور علاقے کے لئے باقاعدہ بجٹ مختص کرنا پڑے گا اس طرح وہ مطالبہ جو ہمیشہ سے کیا جارہا ہے کہ پنجاب کو این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے وفاق سے جو گرانٹ وصول ہوتی ہے وہ پورے صوبہ میں آبادی کے لحاظ سے تقسیم ہونی چاہیے ۔ جبکہ شہباز شریف کے دور اقتدار میں جنوبی پنجاب کو بجٹ تقسیم کے حوالے سے بری طرح نظر انداز کیا جاتا رہاہے اور 80 فیصد بجٹ لاہور یا اپر پنجاب میں خرچ کیا گیا اور صرف 20 فیصد بجٹ 6 کروڑ روپے سے زائد کی آبادی کے علاقہ کو ملتا رہا، اب اس علیحدہ سیکرٹریٹ کی وجہ سے یہ طے ہوجائے گا کہ اس کی حدود میں کتنی آبادی ہے؟ کتنا رقبہ ہے۔ اور بجٹ میں اس کے تناسب سے کتنا حصہ ہونا چاہیے ؟ موجودہ حکومت چونکہ لاہور پر سب کچھ خرچ کرنے کی روایت کو توڑنا چاہتی ہے ، اس لئے غالب امکان یہی ہے کہ 2019/20ء کے بجٹ میں اس خطہ کو آبادی کے تناسب سے وسائل مہیا کئے جائیں گے اور علیحدہ سیکرٹریٹ قائم ہونے کے باعث وہ بجٹ اس علاقہ کی ضروریات اور پسماندگی کو مد نظر رکھ کر خرچ کیا جائے گا۔اس کے لئے غالبًا حکومت کو صدارتی آرڈیننس کا سہارا لینا پڑے گا۔ اس سے جڑی ہوئی ایک اور الجھن یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وکلاء جو پہلے ہی ملتان میں خود مختار ہائیکورٹ اور صوبہ کے لئے تحریک چلائے ہوئے ہیں یہ مطالبہ کریں کہ اگر چیف سیکرٹری اور آئی جی تعینات ہوسکتا ہے تو جنوبی پنجاب میں چیف جسٹس تعینات کیوں نہیں ہوسکتا ، تاہم اس اعلان کی وجہ سے تحریک انصاف کو بیوروکریسی کی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جو گزشتہ دور حکومت میں اس وقت کے گورنر پنجاب ملک رفیق رجوانہ کو درپیش رہا اور جس کی وجہ سے وہ اعلان کے باوجود علیحدہ سیکرٹریٹ نہیں بنوا سکے، کیونکہ اب چیف سیکرٹری اور آئی جی کی پوسٹیں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ منتقل کی جارہی ہیں۔