لاہور(نمائندہ جنگ،نیوز ایجنسیاں) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ قیادت ہی کسی ملک کو اوپر لیکر جاتی ہے، ملک میں ترقی کیلئے تعلیم اور ایماندار لیڈرشپ ضروری ہےبنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے عدلیہ کا کردار سب سے اہم ہے لیکن ہمارے ہاں ریاست مدینہ جیسا انصاف کا ادارہ میسر نہیں،حکومت حالات بہترنہیں کریگی تویہ ذمہ داری کوئی اور پوری کریگا، مدینے کی ریاست میں بہترین انصاف کا نمونہ حضرت عمرؓکا دور تھا، کسی غریب نے ملک کو نقصان نہیں پہنچایا، عدلیہ حقوق کےتحفظ میں ناکام ہوجائے تو معاشرہ متوازن نہیں رہتا۔ گزشتہ روز لاہور انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز میں تقریب سےخطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ہمیں انگریز نے جو قانون دیا، وہ ہمارے کلچر، مذہب اور معاشرتی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ نہیں، اگر اس قانون کو ہم آہنگ کرنا ہے تو اسے اَپ ڈیٹ کرنا لازمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی اوصاف سے مزین انصاف کا ادارہ نہ ہونے سے معاشرتی پریشانیاں بڑھتی ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حقوق کی آزادی کے بغیر زندگی کچھ نہیں، ہماری زندگی کا اصل اور حقیقی مقصد مخلوق خدا کی خدمت ہونا چاہیے اور ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ باعزت قومیں اور معاشرے کس طرح تشکیل پاتی ہیں ترقی کے 4بنیادی عناصر میں دیانت دار قیادت بھی شامل ہے، زندگی صرف زندہ رہنے کا نام نہیں، اس کے کئی پہلو ہیں۔انہوں نے کہا کہ کسی بھی زوال پذیر ملک کو ایک ایماندار لیڈر ہی اوپر لیکر جاسکتا ہےدنیا کی سب سے بہترین ریاست مدینہ کی ریاست ہےاسکے مختلف ادوار رہے ہیں جو نبی پاک کے بعد حضرت عمرؓ کا تھاایک لیڈرکے قول اور فعل میں تضاد نہ ہوکسی ملک اور قوم کی ترقی کا راز لیڈر شپ اچھی ہونی چاہئے جس پر لوگوں کا اعتماد ہویہ ایماندارہو اور تیسرا وہ انصاف کر سکے ان کے بغیر کوئی قوم اپنا مقام پیدا نہیں کرسکتی۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے یہ بھی کہا کہ ہمیں اس قانون کو موجودہ دور کے مطابق ڈھالنے کیلئے قانون سازی کرنا ہوگی، اسی وجہ سے معاشرے میں بے چینی پھیلتی ہے۔چیف جسٹس نے بلوچستان کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے کہاکہ اس صوبے کے پسماندہ علاقوں میں تعلیمی درسگاہیں سرے سے ہیں ہی نہیں اور جو درسگاہیں ہیں وہاں ٹائلٹ اور پینے کے صاف پانی تک کی سہولت میسر نہیں جبکہ تعلیمی اداروں میں وڈیروں کی گائے بھینسیں کھڑی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے ہاں قدرتی وسائل تیزی سے کم ہورہے ہیں ہمارا پانی، ندی نالوں میں بہہ جا تا ہے اور دریا خشک ہورہے ہیں، لاہور کا سارا فضلہ آج راوی میں پھینکا جارہا ہے، اس لیے بیماریاں پھیل رہی ہیں یہ تمام چیزیں درست ہونے والی ہیں یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ تمام چیزیں درست کریں فلاحی ریاست کا تصور ناپید ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کوکسی غریب نے نقصان نہیں پہنچایا کسی پلمبر کسی بہرے نے نقصان نہیں پہنچایااس کا نقصان کرنے کے ذمہ دار ہم بڑے لوگ ہیں اگر آج بھی ہم نے کام نہ کیا تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گیں۔ انہوں نے کہا آج ہر پیدا ہونے والا بچہ ایک لاکھ اکیس ہزار روپے کامقروض پیدا ہوتا ہےضروری ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو اچھی روایت دیکر جائیں آخر میں چیف جسٹس نے اپیل کی کہ تعلیم اور صحت کو پیسہ کمانے یا کاروبار کا ذریعہ مت بنائیں، ہمیں اپنی دولت اور اپنا علم اس ملک کو واپس لوٹانا ہے، کیونکہ ہمیں جو کچھ بھی ملا، اسی ملک کے طفیل ملا ہے۔ دریں اثناء اسلام آباد میں اسپتالوں کی کمی کے معاملے پر چیف جسٹس ثاقب نثار سےانکے چیمبر میں چیئرمین نیب جاوید اقبال نے ملاقات کی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق اس دوران چیئرمین نیب جسٹس (ر)جادید اقبال نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ نیب نے سی ڈی اے کو اسپتال کی تعمیر سے نہیں روکا۔ صرف ایک ایشو تھا جس پر نیب نے سی ڈی اے سے تفصیل مانگی تھی۔خیال رہے سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں اسپتالوں کی کمی کے معاملے پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔پیشی کی دوران سی ڈی اے چیئرمین نے موقف اپنایا کہ انھیں نیب کی جانب سے نوٹسز جاری کئے گئے تھے جسکے باعث ہم نے مزید کارروائی روکدی تھی۔ اسلام آباد کےاسپتالوں کی حالت زار سے متعلق معاملے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے حکم دیا کہ نیب چیئرمین کی حاضری سے استثنیٰ ختم کر رہے ہیں، چیئرمین نیب اور پراسیکیوٹر نیب چیمبر میں پیش ہوں۔