• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہبازکا کیس لیکر عدالت جارہا ہوں کوئی خفا ہو تو ہو،شیخ رشید

کراچی(ٹی وی رپورٹ) جیو نیوز کے پروگرام ’نیا پاکستان‘ میں میزبان شہزاد اقبال سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے کہا ہے کہ شہباز شریف کا کیس لے کر سپریم کورٹ جارہا ہوں کوئی خفا ہوتا ہے تو ہو، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کے معاملے پر عمران خان کے ساتھ نہیں ہوں،شہباز کو چیلنج کرتا ہوں وہ این آر او کے 380 زاویے کے متلاشی ہیں، میں آج بھی عمران خان کے ساتھ کھڑا ہوں اورسائے کی طرح آگے بھی ان کے ساتھ رہوں گا ‘میرے لئے وزارت کی اہمیت نہیں اور میں ویسے بھی آخری دفعہ وزیر بنا ہوں ‘ دیکھ لینا،یہ نیا پاکستان نہیں، ایک دن یہ لوگ پچھتائیں گے اگر سانپ اور شہباز شریف اکھٹے آرہے ہوں تو پہلے سیاسی طو رپر شہباز شریف کومارو پھر سانپ کو مارو۔ پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے معروف تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ وفاقی حکومت کی تبدیلی سے متعلق بلوچستان سے آغاز ہو چکا ہے بلوچستان میں اس وقت جو جوڑ توڑ ہورہا ہے مرکزی کردار مولانا فضل الرحمن ‘ اختر مینگل اور کچھ آزاد امیدوار ہیں وہاں پی ٹی آئی کے ناراض اراکین کو ملا کر کولیشن گورنمنٹ بنانے جام کمال کی حکومت کے خاتمے کی کوششیں جاری ہیں۔سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے کہا کہ پانچ ماہ میں پوری معیشت گرگئی ہے ،شیخ رشید نے مزید کہا کہ ایسے نظام پر لعنت بھیجتا ہوں جس میں چوکیدار اور چور ایک ہی صف میں کھڑے کر دیئے گئے ہیں، یہ چور ہیں مگر لیڈر آف اپوزیشن بھی بن جاتے ہیں ریمانڈ کے وقت پی اے سی کا چیئرمین بننا تو مکمل طور پر غلط ہے نیا پاکستان تو یہ ہونا چاہیے کہ محنت کش ‘ غریب باہر پھریں چور اندر جائیں، میں عمران خان کا حقیقی دوست ہوں جس کا کام صحیح مشورہ دینا ہے ۔ این آر او ون ‘ ٹو ‘ تھری‘ فور اور فائیو چل رہے ہیں پہلی قسم پر انہوں نے قدم رکھ کر وکٹ کے دونوں جانب کھیلنا شروع کردیا ہے۔میں اب ان کیسز کو لے کر سپریم کورٹ جارہا ہوں کوئی راضی ہوتا ہے تو راضی رہے اور خفا ہوتا ہے تو خفا ہو، انہوں نے شہباز شریف کو چیلنج کیا کہ وہ جیو نیوز پر آجائیں میں ثابت کردوں گا کہ یہ این آر او کے 180 نہیں 360 کے زاویئے سے متلاشی ہیں اور اس پر بھرپور کام بھی ہورہا ہے،شیخ رشید نے مزید کہا کہ رانا ثنا اللہ کے جعلی کشمیری کیمپ اور جوا کھیلنے کے الزام میں گرفتاری کے سوال پر شیخ رشید کا کہنا تھا کشمیر میں میری بڑی عزت ہے اور کشمیر کے مین چوراہوں پر میری تصاویر لگی ہوئی ہیں میری سیاست کو کشمیری سلام کرتے ہیں اور رہی گرفتاری کی بات تو ناں ہی مجھے جوا کھیلنا آتا ہے اور ناں ہی میں نے کبھی تاش کھیلی ہے خدا مجھے پکڑے اگر میں نے ایسا گندا کام کیا ہو۔چور چاہے ہماری طرف ہو یا اس طرف ہو وہ بچنا نہیں چاہئے ورنہ یہ نظام نہیں بچ سکے گا۔ مہمند ڈیم ٹھیکے پر انہوں نے کہا رزاق داؤد والا ٹینڈر ان کے منسٹر بننے سے پہلے کا ہے اس کا الزام خان پرنہ لگایا جائے میں اپنی زندگی میں یہ الزام سننے کا روادار نہیں کہ عمران خان کرپٹ ہے۔ دونوں اپوزیشن جماعتوں کے ممکنہ اتحاد پر انہوں نے کہا کہ سارے گندے انڈوں کوایک جگہ جمع ہونا ہی ہے جس دن ن لیگ پی پی سے جاملی اسی دن پنجاب میں تحریک انصاف کا ووٹ بینک بڑھ جائے گا جبکہ اندرون سندھ تحریک انصاف کی مقبولیت میں اضافہ ہوجائے گا۔رہنما ن لیگ اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے کہا کہ پانچ ماہ میں پوری معیشت گرگئی ہے آئی ایم ایف کے پاس جانا لازمی جز ہے ‘ سمندر پار پاکستانیوں کے لئے بانڈز اگست میں کیوں جاری نہیں کئے گئے؟ جی ڈی پی گروتھ ریٹ میں ریڈ لائن نظر آرہی ہے حکومت اصل مسئلہ ابھی تک حل نہیں کرسکی ہے۔سیاسی منظرنامے سے غائب مولانا فضل الرحمن ایک بار پھر ایکٹو ہوگئے ہیں ،اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے اینکر پرسن حامد میر کا کہنا تھا کہ ملاقاتیں تو اب ہوئی ہیں مگر رابطہ پچھلے کئی دنوں سے ہے اور اس میں کئی اور دیگر رہنما بھی شامل ہیں جو آپس میں رابطے میں ہیں یہی نہیں حکومتی اتحادی اختر مینگل کی بھی آصف زرداری سے کراچی اور اسلام آباد میں ملاقاتیں ہوچکی ہیں اس وقت یہ جوڑ توڑ اور رابطے پنجاب ‘ بلوچستان اور سینٹ تین جگہ پر چل رہے ہیں ‘ آصف زرداری اور نواز شریف کا انڈائریکٹ رابطہ بھی ہے تاہم یہ چھ ماہ سے پہلے عمران خان کی حکومت کو گرانا نہیں چاہتے اگرچہ ان کی خواہش ہے کہ بلوچستان سے اس کا آغاز ہو اور یہ بلوچستان سے آغاز ہوچکا ہے ۔ بلوچستان میں اس وقت جو جوڑ توڑ ہورہا ہے اس کے مرکزی کردار مولانا فضل الرحمن ‘ اختر مینگل اور کچھ آزاد امیدوار ہیں اور کوشش یہ ہورہی ہے کہ وہاں موجود پی ٹی آئی کے ناراض اراکین کو ملا کر ایک کولیشن گورنمنٹ بنائی اور جام کمال کی حکومت کا خاتمہ کیا جائے۔ سینٹ تبدیلی پر حامد میر کا کہنا تھا کہ دونوں اپوزیشن اگر سینٹ میں اکھٹی ہوگئیں تو پھر سینٹ میں بھی آسانی کے ساتھ تبدیلی آسکتی ہے لیکن دونوں پارٹیوں کی لیڈر شپ کچھ انتظار اور کرنا چاہتی ہے اور پہلے قومی اسمبلی میں تبدیلی لانا چاہتی ہیں جس کو ابھی مان کوئی نہیں رہا لیکن اس پر جوڑ توڑ بھی شروع ہوچکا ہے اور اگر تبدیلی آئی تو اس تبدیلی کے تحت ایک فارمولا بھی طے پائے گا ۔اس وقت ن لیگ اور پی پی اس پوزیشن میں نہیں اور ناں ہی ان کی لیڈر شپ میں اتنی اخلاقی جرات ہے کہ یہ قوم کے سامنے سچ بول سکیں اور کھل کر یہ بتاسکیں کہ ماضی قریب میں دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کیونکر عدم تعاون کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں اور دونوں جماعتوں کا خیال یہ ہے کہ پہلے پی پی کو استعمال کیا گیا پھر ن لیگ کو استعمال کیا گیا لیکن اب دونوں اس بات پر متفق ہیں اور ان کا اتفاق رائے ہے کہ ان کے ساتھ ہمیشہ اور بار بار دھوکہ ہوا ہے اسی سبب مولانا فضل الرحمن میدان میں آئے ہیں تاکہ دونوں اپوزیشن لیڈران کو سمجھا سکیں کہ اب اکھٹے نہ ہوئے تو اس وقت اکھٹے ہوں گے جب ساری لیڈر شپ جیل میں ہوگی ۔
تازہ ترین