• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ چند برسوں کے دوران ٹیکنالوجی کی دنیا میں تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا کے آنے کے بعد ذرائع ابلاغ بھی تیز تر ہوگیا ہے، جو خبریںپابندیوں کے باعث پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا نہیں دکھا سکتا وہ باآسانی سوشل میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچائی جا رہی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے روایتی میڈیا سے زیادہ سوشل میڈیا موثر انداز میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے عوام میں مقبولیت حاصل کررہا ہے۔ اس کے ذریعے میڈیا اسٹیک ہولڈرز سے لے کر عام دُکان دار تک ہر کوئی اپنی رائے دوسروں سے شیئر کرسکتا ، اس پر دیگر افراد کی رائے اور ردِ عمل کو بھی فوری طور پر حاصل کیا جاتا ہے۔ اسی لیے سوشل میڈیا صارفین کو کوئی چیز پسند یا ناپسند آجائے تو اسے تیزی سے شیئر کرتے اور اس پر اپنی مثبت و منفی رائے موثر انداز میں دیتے ہیں، جس کے باعث وہ مواد سماجی رابطوں کی تمام ویب سائٹس پر ٹرینڈ بن جاتا ہے۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر اگر کوئی مواد مقبول ہو جائے تو پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا بھی اسے دکھانے پر مجبور ہوجاتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ بعض مواقعوں پر سوشل میڈیا روایتی میڈیا کو ٹرینڈ دینے کا سبب بھی بنتا ہے۔ پچھلے چند برسوں کی طرح اس سال بھی کئی خبریں سوشل میڈیا پر گردش کرتی دکھائی دیں، کئی ایسی خبریں و تنازعات تھے، جنہیں صارفین نے اڑے ہاتھوں لیتے ہوئے دلچسپ ’’میمز‘‘ (وہ منفرد تصاویر جن پر مختصر اور مزاحیہ تجزیے و تبصرے لکھے ہوں) اور مزاحیہ وڈیوز تیار بنائیں۔ زیر نظر مضمون میں ایسی ہی چند خبروں اور موضوعات کے بارے میں پڑھئے، جنہیں 2018 ء میں سوشل میڈیا صارفین نے دلچسپ بنا کر پیش کیا، نیز ان مہم کے بارے میں بھی جانیے جن کا آغاز رواں برس سوشل میڈیا سے ہوا یا ان میں تیزی آئی۔

# 33 بلین ایڈ ٹو پاکستان

ہر نیا سال اپنے ساتھ نئی امیدیں، اُمنگیں اور جذبے لے کرآتا ہے۔ ہر شخص پُر امید ہوتا ہے کہ جس طرح سال بدلا ہے اسی طرح اس کی زندگی میں بھی مثبت تبدیلیاں آئیںگی۔ نیک تمناؤں اور دعاؤں کے ساتھ ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارک باددی جاتی ہے کہ آنے والا سال ان کیلئے خوشی کی نوید لے کر آئے۔ یہ تو عام روایتی انداز ہے جو دنیا بھر میں اپنایا جاتا ہے۔ لیکن امریکی صد ڈونلڈ ٹرمپ کسی روایتوں کے پابند نہیں ہیں، اس کی مثال ان کے رواں سال کے پہلے ٹویٹ سے ہی لگا لیجئے جو انہوں نے یکم جنوری 2018کو کیا، جس میں انہوں نے پاکستان کے حوالے سے سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے لکھا کہ، ’’امریکہ نے 15 سالوں میں پاکستان کو 33 ارب ڈالر بطور امداد دے کر بےوقوفی کی۔ انہوں نے ہمیں سوائے جھوٹ اور دھوکے کے کچھ نہیں دیا۔‘‘ انکا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’پاکستانی حکومت ہمارے رہنماؤں کو بےوقوف سمجھتے رہے ہیں۔ وہ ان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں، جن کا ہم افغانستان میں انکی نہ ہونے کے برابر مدد سے تعاقب کر رہے ہیں۔

ایسی اک تصویر دکھلاؤ
ان سے لے گا ٹرمپ 33 ارب ڈالر

اب ایسا نہیں چلے گا۔‘‘ اس ٹویٹ کے ساتھ ہی یہ عندیہ دیا کہ وہ پاکستان کو دی جانے والی امداد میں کمی کر سکتا ہے۔ اس ٹویٹ کو صرف ایک گھنٹے کے دوران دنیا بھر سے سوشل میڈیا صارفین نے 14200 بار ،ری۔ ٹویٹ، جبکہ 34 ہزار سے زائد افراد نے لائیک کیا۔ اُس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے امریکی صدر کو جوابی ٹویٹ میں کہا کہ، ’’ پاکستان بہت جلد دنیا کو حقیقت ، حقائق اور مفروضے میں فرق بتائے گا۔‘‘ لیکن جوابی سلسلہ یہاں رُکنے والا کہاں تھا، موجودہ وزیر خزانہ اسد عمر سمیت کئی سیاسی رہنماؤں نے اپنے ٹوئیٹر اور فیس بُک اکاونٹ پر اس حوالے سے اپنا موقف شئیر کیا۔ ان تمام صورت حال میں پاکستانی منجلوں کا انداز سب سے مختلف رہا انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ان کے خلاف مزاحیہ اور تنقیدی میمز بنانے شروع کر دیئے۔ جس میں پاکستانی عوام کی مختلف عادات جیسے ٹوٹ پیسٹ ختم ہونے کے باوجود زبردستی ٹویب میں سے پیسٹ نکالنے کی ناکام کوشش، شیمپو یا ہینڈ واش ختم ہونے کی صورت میں اس کی بوتل میں پانی ڈال کر استعمال کرنا وغیرہ کی تصاویر کو #’’33 بلین‘‘، ‘‘ #ڈونلڈ ٹرمپ‘‘ اور #’’ان سے وصول کریں گے 33 بلین‘‘ کے ساتھ وائرل کیا۔ ابھی معاملہ سرد خانے کی نظر ہی ہوا تھا کہ 19 نومبر کو ٹرمپ نے ایک اور ٹوئٹ کیا کہ ’’ہم پاکستان کو مزید ڈالرز نہیں دیں گے،کیونکہ یہ دیگر ممالک کی طرح پیسے لینے کے باوجود ہمارے لیے کچھ نہیں کرتا۔ اوسامہ بن لادین کی مثال سب کے سامنے ہے پاکستان کی مدد کے بغیر ہم نےاس کے خلاف آپریشن کیا، جبکہ اسکی دوسری مثال افغانستان میں ہونے والا آپریشن ہے۔ بس اب ختم‘‘۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس ٹوئٹ کے بعد پاکستانی حکومت نے دو ٹوک انداز میں اس کا جواب دیا اور امریکا کو باور کروا دیا کہ وہ ہماری مدد کے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں لڑسکتا اور ہم نے اس جنگ میں کتنی قربانیاں دیں ہیں۔

#جسٹس فار زینب

4 جنوری کو پنجاب کے ضلع قصور میں سات سالہ زینب گھر سے مدرسے جانے کیلئے نکلی، مگر مدرسے پہنچ نہ سکی، جب ننھی زینب کولاپتا ہوئےکئی گھنٹے گزر گئے تو اس کے چچا نے پولیس رپورٹ درج کرواکر سی سی ٹی وی فوٹیج، جس میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا تھا کہ کس طرح اغواء کار اُسے اپنے ساتھ لیے جا رہا تھا، کی مدد سے اس کی تلاش شروع کر دی۔ مسلسل 5 دنوں کی تلاش کے بعد کچرے کے ڈھیر سے ایک بچی کی نعش برآمد ہوئی جسے زیادتی کے بعد قتل کرکے پھینک دیا گیاتھا۔ پوسٹمارٹم سےیہ بھی ثابت ہوگیا کہ بچی اور کوئی نہیں زینب ہی ہے۔ لیکن معصوم بچی کا قاتل اب بھی آزاد تھا، کسی صارف نے بچی کی تصویر اور سی سی ٹی وی فوٹیج مکمل معلومات کے ہمراہ 10 جنوری کی دوپہر فیس بک پر ڈال دی۔

وڈیو سامنے آتے ہی سوشل میڈیا صارفین میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ اُٹھی۔ اسی روز بعد نماز ظہر قصورسمیت دیگر شہروں میں بھی قاتل کی فوری گرفت کیلئے تمام کاروبای سرگرمیاں معطل کرکے پرتشدد مظاہرے کیے گئے۔ امن و امان کی بگڑتی صورت حال کے پیش نظر چیف جسٹس پاکستان نے واقعے کا از خود نوٹس لیا اور تحقیقات کیلئے تفتیشی اداروں کو 72 گھنٹوں کی مہلت دی۔ بعدازاں 23 جنوری کو پولیس نے عمران نامی شخص کوگرفتار کیا، جو زینب سمیت 8 بچیوں سے زیادتی اور ان کے قتل میںملوث تھا،تمام تر الزام ثابت ہونے پر عمران علی کو 4 مرتبہ سزائے موت، عمر قید، 20 لاکھ جرمانے کی سزا سنائی گئی ، جس پر 17 اکتوبر 2018 کو عمل درآمد کرتے ہوئےاسے کیفر انجام تک پہنچا دیا گیا۔

#نقیب اللہ محسود، مقصو اور انتظار قتل کیس

رواں برس کے آغاز میں یکے بعد دیگر تین جعلی پولیس مقابلوں کی وڈیو سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آئی، جن میں نقیب اللہ محسود، انتظار احمد اور مقصود نامی بے گناہ افراد کے قتل کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

بعدازاں سوشل میڈیا صارفین کی بڑی تعداد نقیب اللہ اور انتظار احمد کو انصاف دلانے کیلئے سرگرم ہوگئی۔ یادرہے کہ، 13جنوری 2018ء کو کراچی میں ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس نے نقیب اللہ محسود کو دہشت گرد قرار دے کر جعلی مقابلے میں مار دیا تھا، اسی روز شہر قائد میں ایک اور جعلی مقابلہ ڈیفنس کے علاقے میں ہوا، جس کے نتیجے میں انتظار احمد کا قتل کر دیا گیا تھا۔ اس واقعے کے دو ہفتے بعد جب انتظار احمد کی سی سی ٹی وی فوٹیج منظر عام پر آئی تو سوشل میڈیا صارفین میں ہلچل مچ گئی۔ صارفین کی جانب سے پولیس کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انصاف کی اپیل کی گئی اور کہا جانے لگا کہ، ’’ایک ماڈل (نقیب) اور طالب علم کو کیسے دہشت گرد ٹھہرا یا جاسکتا ہے‘‘۔ جس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے اس معاملے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے راؤ انوار کو معطل کرکے اس کا نام ای سی ایل میں شامل کردیا ، جبکہ پانچ بہنوں کا اکلوتا اور گھر کا واحد کفیل مقصود کا قتل کیس سرد خانے کی نظر ہوتا دکھائی دیا۔

#می ٹو

بی بی سی ہر سال سو بااثر اور متاثر کُن خواتین کے نام’’100 ویمن‘‘ کے عنوان سے شائع کرتا ہے۔ گزشتہ سال اُن سو متاثر کُن خواتین کے نام شائع کیے جو روزمرہ کی زندگی میں درپیش چار بڑے مسائل، روایات، ناخواندگی، کھیلوں میں صنفی تعصب اور مختلف مقامات پر ہراسانی، سے نہ صرف بخوبی نمٹ رہی ہیں، بلکہ ان مسائل کے حل کیلئے کام بھی کر رہی ہیں۔ ان چار مسائل میں سے سب سے زیادہ رد عمل عوامی یا دفاتر میں ہراساں ہونے پر آیا۔ اسے مزید تقویت اُس وقت ملی جب ’’# می ٹو‘‘ کے ذریعے ہراساں کیے جانے کے واقعات سوشل میڈیا پر شیئر کیے گئے۔ واضح رہے کہ، یہ مہم سب سے پہلے افریقی امریکی خاتون ’’ترانا برُکے‘‘ نے 2006 میں شروع کی، وہ نیو یارک میں انسانی حقوق، بالخصوص خواتین کے حقوق کیلئے کام کرتی ہیں۔ بعدازاں رواں برس خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر ٹائم میگزین نے پانچ ایسی خواتین کو سال کی شخصیت قرار دیتے ہوئے اپنے سرورق پر جگہ دی، جنہوں نے جنسی زیادتی یا ہراساں کیے جانے کے خلاف آواز بلند کی۔ نیز انہوں نے عام مرد و خواتین سے بھی گزارش کی کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی اور ہراسانی پر خاموش رہنے کی بجائے اس کے خلاف آواز بلند کریں تاکہ اس مسئلے کا کوئی موثر حل نکالا جاسکے۔ جس کے بعد دنیا بھر سے کئی بہادر خواتین اور مردوں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو انفرادی طور پر بیان کرنا شروع کیا اور پھر یہ تحریک بن گئی۔ اسی کے پیش نظر شکایات کا تناسب پڑوسی ملک بھارت میں سب سے زیادہ رہا جبکہ پاکستان میں بھی چند واقعات سامنے آئے جن میں بیشتر شوبز انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی خواتین نے رپورٹ کیے، ابھی بھی پاکستانی عام مرد و خواتین اس حوالے سے بات کرنا معیوب سمجھتے ہیں۔

بائیکاٹ مہم

جب کوئی قوم متحد ہوکر کسی مسئلے کے خق میں یا اس کے خلاف آواز بلند کرتی ہے تو یقیناً اسے انصاف مل کر ہی رہتا ہے۔ ایسا ہی کچھ رواں برس بھی ہوا۔ جب پاکستانی سوشل میڈیا صارفین نے دنیا بھر میں چلنے والی روش کی پیروی کرتے ہوئے اپنے مسائل کے حل کی خاطر مختلف بائیکاٹ مہم چلائی گئیں۔ جن میں ماہ رمضان کے دوران پھلوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خلاف فروٹ بائیکاٹ اور سیاحت کی غرض سے مری کا روک کرنے والوں کو تشدد اور لوٹ مار کا نشانہ بنانے والوں کے خلاف مری بائیکاٹ مہم قابل ذکر ہیں۔

#درخت لگاؤ مہم

سال 2015 کراچی میں آنے والی ہیٹ ویو کو، کون بھول سکتا ہے، جب کئی شہریوں نے ہیٹ ویو کے باعث دم توڑ دیا۔ عالم یہ تھا کہ گرمی کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہونے والوں کیلئے اسپتال تو اسپتال، مردہ خانوں اور قبرستانوں تک میں جگہ نہ تھی۔ اس برس گرمی کے سبب 1300 سے زائد افراد کی اموات ہوئی۔ نتیجتاً 2016، 2017 میں گرمی کے آغاز سے ہی شاہراہوںاور چورنگیوں پر راہ گیروں کیلئے ٹھنڈے پانی کے کولر اور میڈیکل کیمپ قائم کیے، رواں برس ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے سوشل میڈیا پر بڑھتی ہوئی گرمی کی لہر سے نمٹنے کیلئے زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی اپیل کی گئی۔ جسے بڑی تعداد میں صارفین نے نہ صرف لائیک اور شیئر کیا بلکہ درخت لگا کر عملی مظاہرہ بھی پیش کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ مہم کی صورت اختیار کر گیا۔ بعدازاں کراچی کی طرح ملک کے چند دیگر شہروں سے بھی وڈیوز منظر عام پر آئیں جس میں عوام درخت لگا کر اس مہم میں اپنا کردار ادا کر رہے تھے۔ مہم اس وقت شدید متاثر ہوئی جب کراچی کی شاہراہوں پر جگہ جگہ لگے ’’کونوکارپس‘‘ سے متعلق افواہیں گردش کرنے لگیں اور عوام کشمکش کا شکار ہونے لگےکہ وہ کون سا درخت لگائیں اور کون سا نہیں۔

#عام انتخابات

گزشتہ انتخابات کی طرح اس مرتبہ بھی سوشل میڈیا کا گہرا اثر انتخابات پر مرتب ہوا۔ جب پانچ سال سے غائب ایم این اے اور ایم پی اے اپنے حلقے میں ووٹ مانگنے گئے، تو عوام نے انکی کارکردگی کے حوالے سے نہ صرف سوال اُٹھائے بلکہ انکی وڈیوز ریکارڈ کرکے سوشل میڈیا پر بھی ڈال دیں۔ ان میں چاہے سردار جمال لغاری کی وڈیو ہو جس میں وہ ووٹرز کو ایک ووٹ کی پرچی پر ناز دکھانے کی وڈیو ہو ، پی پی پی کے ناراض ووٹرز جنہوں نے بلاول بھٹو کی گاڑی پر پتھراوں کی یا پھر تحریک انصاف کے رہنما اور موجودہ صدر عارف علوی کی اپنے حلقے این اے 247 میں ووٹ مانگنے والی وڈیو، جس میں ووٹرز کا کہنا تھا کہ، وہ ان کی بجائے کسی آزاد امیدوار کو ووٹ دینا پسند کریں گے، ہر ایک پر سوشل میڈیا صارفین شدید غم و غصے کا اظہار کرتے نظر آئے۔ ایک صارف کا یہ بھی کہنا تھا کہ عوام کو عقل و شعور تو پہلے بھی تھا، لیکن اب موبائل اور سوشل میڈیا آگیا ہے۔ جب اثاثہ جات ظاہر کیے گئے اس وقت بھی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نے سیاست دانوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ 25 سو کنال کا بلاول ہاؤس 35 لاکھ، 25 ہزار کنال پر بنا جاتی عمرہ کی 90 لاکھ اور 300 کنال کے بنی گالا کی قیمت جب 76 کروڑ ظاہر کی گئی، تو صارفین طنزیہ، یہ خواہش ظاہر کی کہ، ’’وہ بھی سیاستدانوں جیسے گھرکی استطاعت رکھتے ہیں، کوئی اسٹیٹ ایجنٹ ان سے رابطہ کرئے‘‘۔ انتخابی مہم کے دوران سیاست دانوں کے ایک ایک جملے اور ٹویٹس پر سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کی کڑی نظر رہی، پھر چاہے شہباز شریف کا، پان کھانے والوں کے ’’کرانچی‘‘ کو لاہور بنانے کا دعویٰ ہو، یا پھر احسن اقبال کا اپنے حریف ابرالحق کو میراثی کہنا نہ صرف فوری وائرل ہوا، بلکہ اس حوالے سے مزاحیہ میمز اور اس پر صارفین کے کمینٹس بھی سامنے آنے لگے۔

#آزاد امیدوار

عام انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو تحریک انصاف حکمراں جماعت بن کے ابھری لیکن اس کے باوجود مرکز اور پنجاب میں حکومت بنانے کیلئے اتحادی جماعتوں اور آزاد امیدوارں کی حمایت درکار تھی۔ جس کی ذمہ داری پارٹی چیئرمین عمران خان نے جہانگیر ترین کو سونپی۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے انہیں قبل از انتخابات نااہل قرار دیا تھا۔ اسی دوران جہانگیر ترین کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس میں وہ اپنے پرائیویٹ جیٹ میں چند آزاد امیدواروں کے ہمراہ سوار تھے۔ اس تصویر سے شروع ہونے والا سلسلہ سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ کی شکل اختیار کر گیا۔ اس تصویر کے ساتھ کیپشن لکھا گیا کہ، ’’ جہانگیر ترین آزاد امیدواروں کو پرانے پاکستان سے نئے پاکستان میں لے جا رہے ہیں‘‘۔ اس کے علاوہ ان پر دھڑا دھڑ مزاحیہ میمز بننے لگیں، جن میں وہ آزاد امیدواروں کیلئے مارے مارے پھر رہے تھے۔دوسری جانب تحریک انصاف کے حمایتی صارفین نے آزاد امیدواروں کو پارٹی میں شامل کرنے پر انہیں شاباشی دی۔ ایک صارف نے لکھا کہ، ’’نااہل شخصیت نے اہلیت کے سارے ریکارڈ توڑ دیے‘‘۔ ایک اور صارف نے لکھا کہ، ’’ایک ہوتا ہے اچھا ، اس کے بعد ہوتا ہے بہتر ، اس کے بعد ہوتا ہے بہترین اور پھر آتا ہے جہانگیر ترین‘‘۔

#نیا پاکستان

جب اقتدار ملتا ہے، تو تکبر آ ہی جاتا ہے، ایسا ہی کچھ ہوا نو منتخب صوبہ سندھ کے ایم پی اے عمران شاہ کے ساتھ بھی۔ جنہیں حلف اُٹھائے ابھی ایک دن ہی گزرا تھا کہ ان کی ایک وڈیو سوشل میڈیا کے ذریعے منظرعام پر آئی جس میں وہ کراچی اسٹیڈیم روڈ پر ایک عام شہری کو کئی بار تھپڑ مارتے دکھائی دیئے۔

ان کے تھپڑوں کی گونج اس قدر گونجی کہ اس معاملے کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے انہیں 24 گھنٹوں کے اندر اندر اپنا موقف پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے مناسب کارروائی کیلئے معاملہ پارٹی کی ڈسپلینری یا انضباطی کمیٹی کو بھیجا گیا۔ معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے عمران شاہ نے فوری وضاحتی وڈیو پیغام ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا پر ڈالا جس میں انہوں نے عوام سے معافی اور صفائی پیش کی۔ بعدازاں تحریک انصاف کراچی ڈویژن کے صدر فردوس شمیم نقوی نے عمران شاہ کو شوکاز نوٹس جاری کیا۔ نوٹس ملنے پر عمران شاہ، معافی مانگنے داؤد چوہان کے گھر پہنچ گئے، جس پراس نے نومنتخب رکن سندھ اسمبلی کو معاف کردیا۔ انضباطی کمیٹی نے تمام حقائق کو مد نظررکھتے ہوئے انہیں 5 لاکھ روپے جرمانے کی رقم ایدھی ہومز اور یتیم خانوں میں جمع کرانے اور ایدھی ٹرسٹ کی سفارش پر 20 آرتھوپیڈک مریضوں کا مفت علاج کروانے کا حکم دیا۔ جبکہ سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے 30لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ جس کے ساتھ ہی عمران شاہ الیکشن کمیشن ایکٹ 2017 کے تحت عدالت عظمیٰ سے سزا یافتہ ہونے کے باعث رکن صوبائی اسمبلی سے نااہل ہوگئے۔

#55 روپے فی کلو میٹر

اقتدار میں آنےسے قبل ایوان صدر، وزیر اعظم اور گورنر ہاؤس استعمال نہ کرنے، اقتدار میں آنے کے بعد پروٹوکول نہ لینے اور سادگی کا پرچار بلند کرنے والے عمران خان جب اقتدار میں آئےاور بنی گالا سے ایوان وزیر اعظم تک کا سفر ہیلی کاپٹر سے کرنے لگے تو سوال اُٹھنا شروع ہو گئے۔ وہ بھی ایسے وقت میں جب پچھلی حکومت کے دوران خیبرپختونخوا میں سرکاری ہیلی کاپٹر کے استعمال پر اُنہیں نیب کی جانب سے تحقیقات کا سامنا رہا۔ میڈیا انٹرویو کے دوران ، عمران خان کے زیر استعمال ہیلی کاپٹر کے حوالے سے سوال پر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ، ’’وزیر اعظم اپنے ذاتی ہیلی کاپٹر میں سفر کرتے ہیں، جس کا خرچہ 50 سے 55 روپے فی کلو میٹر ہے‘‘۔ بس پھر کیا تھا، سوشل میڈیا ایکٹوسٹس نے انہیں آڑے ہاتھوں لے لیا۔ انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، ایک صارف نے کراچی میں بڑھتے ہوئے ٹریفک سے پریشان مسافروں کو ہیلی کاپٹر کے استعمال کا مشور دے ڈالا۔ اس کے علاوہ طنز ومزاح پر مبنی پوسٹس اور وڈیوز بھی بنائی گئیں۔

#عارف پینٹرسنگر

یوں تو سوشل میڈیا پر کچھ بھی شیئر کرنا نہایت آسان اور ہر ایک کی پہنچ میں ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر چیز وائرل ہو جائے۔ صرف وہی مواد وائرل ہوتا ہے جو صارفین کو متاثر کرنے اور ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے میں کامیاب ہوجائے۔ایسی ہی ایک وڈیو راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے روغن ساز محمد عارف کی وائرل ہوئی، جو گھروں میں رنگ و روغن کا کام کرتا ہے۔ کہتے ہیں ناں، قسمت کسی کسی پر مہربان ہوتی ہے۔ یہ مثال محمد عارف پر بالکل صادق آتی ہے، جسے راتوں رات نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی شہرت حاصل ہوئی اور یوم آزادی کے موقعے پر اسے اُبھرتی ہوئی گلوکاراہ عائمہ بیگ کے ساتھ اسٹیج پرفارمینس کا موقع بھی ملا۔

#گستاخانہ خاکے رُکوائے جائیں

ابھی انتخابات کا شور و غُل کچھ کم ہی ہوا تھا کہ نیا معاملہ سر اُٹھانے لگا، جوعالمی سطح پر ہونے والے گستاخانہ خاکوں کے مقابلوں کا تھا۔ جس کے انعقاد کا اعلان رواں برس 13 جون کو ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن لیڈر ’’گیریٹ ولڈرز‘‘ (ملعون) نے کیا۔ جس میں دنیا بھر سے مصوروں کو دعوت دی کہ ’’وہ آزادی اظہار رائے کے تحت توہین آمیز خاکے بذریعہ ای میل ارسال کریں۔200 منتخب خاکوں کا مقابلہ نومبر میں ہوگا، جیتنے والے خاکے کو مستقل طور پر ہالینڈ کی پالیمنٹ میں آویزاں کیا جائے گا‘‘۔ واضح رہے کہ گیریٹ ولڈرز نے 2008 میں بھی سولہ منٹ کی ’’فتنہ‘‘ نامی توہین آمیز وڈیو یوٹیوب پر اپلوڈ کی تھی، جسے ریلیز سے قبل شدید مزحمت کا نشانہ بنایا گیا۔ بعدازاں یوٹیوب نے یہ مواد ضائع کردیا۔ رواں برس ایک بار پھر گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کا اعلان ہوا تو، یہ سوشل میڈیا ایکٹویسٹ ہی تھے جنہوں نے مختلف ٹرینڈز، پوسٹ اور ٹویٹ کے ذریعے پاکستانی صارفین کی توجہ اس جانب مبذول کروائی اور حکومت کو اقتدار میں آتے ہی اس حوالے سے موثر اقدام اُٹھانے پڑے، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے او آئی سی سمیت اقوام متحدہ میں بھی معاملہ پیش کیا۔ جس پرہالینڈ کی حکومت نے ان مقابلوں سے مکمل طور پر لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اسے گیریٹ ولڈرز کا ذاتی فعل ظاہر کیا۔ نتیجتاً یہ مقابلے منسوخ ہوگئے۔

#ایسا ہے پاکستان

جب احتشام الحق کی اپلوڈ کردہ تصویر، جس میں ایک معذور باپ تین بچوں سمیت لاہور کی سخت سردی میں مال روڈ کے کنارے مفلسی کی چادر اوڑھے سو رہا تھا، سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گِل نے اس خاندان کی مدد عنقریب تیار ہونے والے پانچ شیلٹر ہومز کے ذریعے کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ یہاں واضح رہے کہ، اس تصویر کے وائرل ہونے سے قبل ہی عمر حسین نامی شخص، جو ریسٹورانٹ کا مالک ہے، اسکا مال روڈ سے گزر ہوا تو، انہیں سڑک کنارے سوتا دیکھ کر انکی ممکنہ مدد کی کہ یہ آئندہ وہاں نظر نہ آئیں، مگر ٹھٹھرتی سردی کے باوجود وہ شخص اپنے بچوں کے ساتھ دوبارہ وہاں سونے لگا۔ جس کے باعث عمر حسین کو اس پر شبہ ہوا، حقیقت جاننے کیلئے اس نے پولیس کی مدد لی۔ جب اسے انکے حالات کا علم ہوا تو اس نے اس غریب باپ کو اپنے ریستورانٹ میں ملازمت دی، بچوں کو گرم کپڑے دلوائے اور انہیں کھانا کھلایا۔ اسی اثناء میں اس خاندان کی وائرل ہوتی تصویر عمر حسین تک بھی پہنچ گئی تو اس نے عوام کو آگاہ کرنے کیلئے انکی تصاویر اور وڈیو فیس بُک پر اس پیغام کے ساتھ اپلوڈ کی کہ، اس نےاس خاندان کی ہرممکن طرح سے مدد کرنے کی کوشش کی ہے۔ انکے اس عمل کو نہ صرف ملکی سوشل میڈیا صارفین نے بلکہ بین الاقوامی میڈیا نے بھی بے حد سراہا۔

#میرا بستہ واپس کرو

ننھے منھے، معصوم اور شرارتی بچوں کی تصاویر یا وڈیوز جب کبھی والدین یا عزیز و اقارب سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں تو صارفین اس پر کمینٹس اور لائیک کیے بنا نہیں رہتے۔ اکثر ایسی وڈیوز جن میں بچے اپنے تاثرات کا اظہار کر رہے ہوں وائرل بھی ہوجاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک وڈیو گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں ایک ننھا پٹھان بچہ، محمد احمد شاہ اپنے بیگ کیلئے فکرمند دکھائی دیا۔ ہوا کچھ یوں کہ اس کی مس نے اس کا بستہ لے لیا اور واپس دینے سے انکار کرنے لگیں۔ جس کی وجہ بچہ پریشان ہو کر شور مچانے اور دلچسپ انداز میں بحث کرنےلگا۔ یہاں تک کہ اس نے اپنی مس کو چھٹی بند کرنے کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ وڈیو دکؤیکھنے والے اس کی باتوںپر ہنسے بغیر نہ رہ سکے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس وڈیو کے باعث یہ ننھا پٹھان بچہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا کہ مارننگ شوز میں اسے بطور مہمان بلوایا جانے لگا۔ لیکن مارننگ شوز کا مواد تخلیقی انداز کا نہیں رکھا گیا بلکہ اس سے بچے کے اخلاقیات پر منفی اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہونے لگا کیونکہ تمام نجی چینلز پر یکساں طور پر اسے غصہ دلانے والی حرکات و سکنات کی جاتیں، کبھی اس سے اس کے کھلونے چھین لیے جاتے تو کبھی اس سے بلا وجہ بحث کی جاتی، جس سے یہ خدشہ ہونے لگا کہ بچہ لاشعوری طور پر اس عادت کو اچھا سمجھ کر اپنالے گا۔ وہ ہی سوشل میڈیا صارفین جو کچھ عرصے قبل بچے کی جن باتوں پر ہنس رہے تھے ، انہوں نے مارننگ شوز کے مواد کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

یہ بھی وائرل ہوا

جہاں ملکی سطح پر مختلف، دلچسپ و منفرد موضوع صارفین کی توجہ کا مرکز بنے رہے وہیں بین الاقوامی خبریں بھی موضوعِ بحث بنی۔ ایسی چند اہم و خاص خبریں جنہیں صارفین نے آڑے ہاتھوں لیا، جن کی میمز اور وڈیوز بنائی گئی، یا پھر جن کے حوالے سے سوشل میڈیا پر مختلف ہیش ٹیگ کے ذریعے آواز اُٹھائی گئی درجہ ذیل ہیں۔

٭… رواں برس جب مارچ میں برطانوی شہزادے ہیری اور امریکی اداکارہ میگھن مرکل کی شادی کی تاریخ کا اعلان ہوا تو یہ جوڑا برطانوی عوام کے ساتھ دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بھی بن گیا۔ سوشل میڈیا پر #بلیک روائل ویڈینگ، #روائل ویڈینگ سمیت پرنس ہیری اور میگھن مرکل کے ناموں کے ہیش ٹگ بھی وائرل ہونے لگے۔ عوام کی نظر ان کی ہر ایک حرکت پر رہی۔ میگھن مرکل کے جوڑے سے لے کر میک اپ اور زیورات تک ہر موضوع زیر بحث رہا۔

٭… امریکی صدر ڈونلڈ ٹرپ کسی نہ کسی حوالے سے سوشل میڈیا صارفین کی تنقید کا نشانہ بنتے رہتے ہیں، رواں برس بھی مختلف وجوہات کی بنا پر ان کا نام ہیش ٹگ بنا رہا۔ کبھی ٹرمپ انتظامیہ کو 2000 مہاجر بچوں کو والدین سے علیحدہ کرنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا، تو کبھی سی این این کے نامہ نگار جم اکاسٹا کا اجازت نامہ منسوخ کرنے پر۔ انہیں سوشل میڈیا پر اس وقت بھی تنقید کا سامنا رہا، جب امریکی نجی چینل کی نیوز کاسٹر ریچل میڈو تارکین وطن کی پالیسی کے حوالے سے خبر پڑھتے ہوئے رو پڑیں۔ ان کی یہ وڈیو اور تصاویر تیزی سے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ اس پالیسی پر حالیہ اور سابقہ امریکی خاتون اول نے بھی ٹرمپ کو تنقید کی اور اسے تبدیل کرنے پر زور دیا۔ اس کے علاوہ مونٹانہ ریلی میں جب ٹرمپ ٹیکس ریفارم اور میڈیا کے حوالے سے گفتگو کر رہے تھے، اس دوران، ان کے عقب میں کھڑا، چیک شرٹ میں ملبوس نوجوان جو ان کی گفتگو سن کر اپنے چہرے کے تاثرات پر قابو نہ رکھ سکا۔ بعدازاں سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نے اسے ہیرو بناکر پیش کیا۔ اور #پلیڈ شرٹ گائی (Plaid Shirt Guy) کے ہیش ٹیگ سے اس کے تاثرات کے میمز بنئے۔

٭… مصر سے تعلق رکھنے والے فٹبال اسٹار موصلاح کا مجسمہ ورلڈ یوتھ فارم کی تقریب میں پیش کیا گیا۔ مجسمے کو تقریب میں موجود حاضرین سمیت سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے بھی شدید تنقید اور مذاق کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ یہ موصلاح سے زیادہ گلوکار لیو سیئر اور فلم ہوم الون کے کردار مارئوو سے مماثلت رکھتا ہے۔ اس حوالے سے کی جانے والی پوسٹس کے لیے ہیش ٹیگ صلاح اور ایل ایف سی استعمال کیئے گئے۔

٭… چائنا بینک نوٹ پرنٹنگ اینڈ منٹنگ کارپوریشن بذریعہ نجی اخبار دعویٰ کیا کہ، وہ دنیا میں نوٹ چھاپنے کی سب سے بڑی کمپنی ہے جس نے حال ہی میں چند غیر ملکی کرنسی چھاپنی شروع کی اور کئی ممالک سے معاہدے بھی کیے ہیں۔ ان ممالک کی فہرست میں انڈیا کا نام بھی شامل تھا۔ اس خبر کی اشاعت کے فوراً بعد ہی یہ موضوع سوشل میڈیا پر مقبول ہو گیا اور ہیش ٹیگ چائنا پرنٹنگ روپی استعمال ہونے لگا۔ خبر وائرل ہوئی تو انڈین صارفین کے درمیان قومی سلامتی کے حوالے سے اشتعال پھیل گیا۔ سوشل میڈیا پر اعتراضات کے بعد بھارتی حکومت نے اس خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا کی کرنسی چار انتہائی حفاظت میں قائم پریس میں چھاپی جاتی ہے۔

٭… شام سے تعلق رکھنے والے بشر بسیس نے رواں برس اکتوبر میں سوشل میڈیا پر لائیو ویڈیو نشر کی، جس میں اس نے اپنی اٹھارہ سالہ بہن راشہ بسیس کو غیرت کے نام پر سر عام گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ جس کے بعد سوشل میڈیا صارفین میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ اُٹھی، یہ واقعہ شام کے شہر جرابلس میں پیش آیا جس کے بعد غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے راشہ بسیس کو انصاف دلانے کے لیے مہم چلائی گئی۔ اس مہیم کے لیے راشہ بسیس کے نام کے ہیش ٹیگ سمیت #جرایمۃ۔لاشیف بھی وائرل ہوا۔

تازہ ترین