• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی اندیشے کی بات نہیں ہے کیونکہ میں کوئی ایسا کھیل کھیلنے نہیں جا رہا جس سے ٹرمپ یا عمران خان سرکار کو کوئی خطرہ ہو۔ نہ ہی میں شاہ حسین والی پتنگ اڑا رہا ہوں جس میں ـ’’نو گز تار گڈی دی اسیں لے کراہاں اڈیـ ‘‘ (پتنگ کی نو گز تار لیکر کر میں اڑ رہا ہوں) والا کھیل ہے۔ میں بلھے شاہ والا کھیل ـ’’ہوری کھیلوںگی کہہ کر بسم اللہ‘‘ کا بھی سوچ نہیں سکتا کیونکہ ہندوستان اور پاکستان میںاس کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ نہ ہی میں سیاست کا کھیل کھیلنے میں کوئی حاصل سمجھتا ہوں کیونکہ وہاں بھی تاریخ کے مہرے پٹ چکے ہیں یا پٹنے والے ہیں: یہ کھیل بھی طاق نسیاں کی زینت ہی رہے تو فی الحال بہتر ہے۔ میں تو بہت ہی عام سے کھیلوں کی بات کر رہاہوں جن سے ہم دن رات لطف اندوز ہوتے تھے لیکن وہ اب معدوم ہو چکے ہیں اور ان کی جگہ ایک بیکراں اکتاہٹ نے لے لی ہے جس سے منشیات کا استعمال، جرائم اور مذہبی انتہا پسندی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

جب ہم بچپن میں دنیا سے مکمل طور پر کٹے ہوئے گاؤں میں رہتے تھے تو ہمارے ہاں اکتاہٹ کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ہم گونا گوں کھیلوں میں اتنے مشغول رہتے تھے کہ شام کے اندھیرے بڑھنے پر ماؤں کوبچے گھیر کرگھر واپس لانا مشکل ہو جاتا تھا۔ اسکول سے واپس آتے ہی بستے پھینک پھانک کر چلچلاتی دھوپ میں ہم ـ’دھپ چھاں‘جیسے کھیلوں میں مشغول ہو جاتے تھے۔ اس کھیل میں ایک پارٹی خفیہ کونوں میں لکیریں کھینچتی تھی اور دوسری پارٹی ان کوڈھونڈ کر مٹاتی تھی اور جو لکیریں بچ جاتی تھیں اتنے پوائنٹ اس پارٹی کو مل جاتے تھے۔ اس کے علاوہ اخروٹوں، گولیوں (پل گولی) اورٹوٹے ہوئے مٹی کے برتنوں کے چھوٹے چھوٹے گول ٹکڑے بنا کر چھوٹا سا گڑھا (کھتی) کھود کر نشانہ بازی کے کھیل کھیلے جاتے تھے۔ زمین پر مربع شکل میں لکیریں کھینچ کر ’اڈا کھڈا‘ اور ’باراں ٹہنیـ ‘ (ہر دو کھلاڑیوں کے پاس بارہ بارہ ٹکڑے ہوتے تھے ) جیسی دیسی شطرنج کھیلی جاتی تھی۔ گرمیوں کی شاموں میں میدان میں لکیریں کھینچ کر ’وانجو‘ کھیلنے کے علاوہ رات کو ’بلی بچیاںدی ماں‘ کھیلی جاتی تھی جس میں کوئی بالغ شخص ’ماں‘ کا کردار ادا کرتا تھا۔ سردیوں ـ’پٹھو گرم‘ اور ’کھدو کھونڈی‘ جیسے کھیلوں کا دور شروع ہو جاتا تھا۔ گھروں میں لڑکیاں ’پٹولے‘ (کپڑے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے) اور ’گڑیا گڈے‘ کا بیاہ رچاتی تھیں۔ اس کے علاوہ کبڈی، کشتی، بگدر اٹھانا (وزن اٹھانے کا مقابلہ) اور ’پنجہ کشی‘ جیسے کھیل چھوٹوں اور بڑوں میں مقبول تھے۔

آپ نے غور کیا ہوگا کہ ان تمام کھیلوں میں کوئی قیمتی یا باہر سے منگوائی ہوئی چیز استعمال نہیں ہوتی تھی۔ سب کھیل انسانوں نے اپنے تصور سے تخلیق کئے ہوئے تھے۔ کھیلوں میں استعمال ہونے والی کچھ چیزیں گاؤں کے ترکھان بنا دیتے تھے یا ’کھدو‘ جیسی چیز مائیں خود ہی بنا دیتی تھیں۔ میرے گاؤں کے ہائی اسکول میں تو فٹ بال اور والی بال بھی میسر نہیں تھا اور ’رسہ کشی‘ کا واحد کھیل کھیلا جاتا تھا جس میں مقامی طور پر تیار کیا ہوا بڑا سا رسہ استعمال ہوتا تھا۔ جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے یہ درجنوں کھیل ہر چھوٹے بڑے کو لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرتے تھے اور مصروف رکھتے تھے۔ لیکن اب وہ دنیا ختم ہو چکی ہے اور اس کے نتیجے میں خلا پیدا ہوگیا ہے جسے پُر کرنے کے لئے نہ ہی مواقع اور نہ ہی وسائل میسر ہیں۔ اب ہر جگہ پکے مکانات تعمیر ہو چکے ہیں اور ’دھپ چھاں‘ جیسے کھیل نا ممکن ہو گئے ہیں۔ اب دیہات کی مشترکہ بقایا زمینوں پر قبضہ کیا جا چکا ہے اور گاؤں کی گلیاں سیوریج کے گندے پانی سے جوہڑ کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ گاؤں کے نہری پانی کے نالوں اور ’چھپڑوں‘ میںپانی کے بھی کھیل نہیں کھیلے جا سکتےکیونکہ نالوں کی اینٹوں اور سیمنٹ سے تعمیر نو ہو چکی ہے پانی کے جوہڑوں تک کی زمین پر قبضہ ہو چکا ہے۔ غرضیکہ تمام کھیل قصہ پارینہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ اب کرکٹ، فٹ بال اور والی بال جیسے کھیل کھیلے جا سکتےہیں جن کے لئے اول تو گراؤنڈ چاہئیں اور دوم ہر کھیل کے سامان کے لئے پیسے درکار ہیں۔ اکثر دیہات اور شہروں میں گراؤنڈ عام بچوں کی دسترس سے باہر ہیں اور کروڑوں بچے کرکٹ جیسے کھیلوں کا سامان خریدنے سے قاصر ہیں۔ پہلے کھیلے جانے والے کھیلوں میں ہر غریب اور امیر بچہ ایک ہی سطح پر حصہ لے سکتا تھا لیکن اب کھیل بھی طبقاتی تقسیم کا شکار ہو چکا ہے۔میں ماضی کا رونا نہیں رو رہا اور نہ ہی بیتے ہوئے

دور کو درخشاں بنا کر پیش کر رہا ہوں۔میں جانتا ہوں کہ پرانا دور کس قدرکٹھن تھا۔ میں حقیقت پسند ہوں اور جانتا ہوں کہ تاریخ ہر چیز کو فنا کر کے آگے بڑھ جاتی ہے لیکن میں یہ ضرور کہہ رہاہوں کہ انسان تعمیر نو سے پرانی چیزوں کا متبادل پیدا کرتا ہے یا اسے کرنا چاہئے۔ زندگی میں نئے قدم رکھنے والے نو نہالوں کی جسمانی اور ذہنی نشووارتقا کے لئے تفریحی مواقع اور کھیل کی سہولتیں ٖفراہم کرنا از حد ضروری ہے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں اس پہلو کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور بعد از اسکول تفریحی مصروفیات کو لازم سمجھا جاتا ہے۔ اب ہمارے معاشرے کے بچے پہلے کی طرح کاشت کاری کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹا نہیں سکتے اور اگر ان کے لئے کوئی کھیل یا تفریحی مواقع میسر نہیں ہیں تو ان کی ذہنی پراگندگی میں اضافہ ہونا نا گزیر ہے۔ اب اگر معاشرہ ذہنی کشادگی کیلئے کوئی متبادل سامنے نہیں لاتا تو مجرمانہ ذہنیت ، بے راہ روی اور تشدد پسندی کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین