• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بجلی معاہدے گلے کا پھندا، نجی پاور پلانٹس چہیتے، بجلی لی نہیں کھربوں روپے دیدیئے، چیف جسٹس ، بجلی لیں نہ لیں پیسے دینے پڑتے ہیں، سیکرٹری واٹراینڈ پاور

اسلام آباد (اے پی پی، جنگ نیوز)سپریم کورٹ نے آئی پی پیز کو زائد ادائیگیوں کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ہمارے گلے کا پھندا بن گیا ہے، آخر معاہدہ کی ایسی شرائط کیوں قبول کی گئیں، اس بات کوسامنے لانا چاہیے کہ معاہدہ کر کے بجلی کیوں نہ لی گئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نجی پاور پلانٹس چہیتے ہیں، بجلی لی نہیں لیکن کھربوں روپے دے دیئے، بتایا جائے کہ عوام کا پیسہ آئی پی پیز کو مفت کیوں دیا گیا؟ انہی لوگوں کی وجہ گردشی قرضہ کھربوں روپے تک پہنچ گیا، معاملہ نیب کو بھجوا دیتے ہیں، جہاں بدعنوانی نظر آئی سخت کارروائی ہوگی، جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ بجلی کے شارٹ فال کے باوجود آئی پی پیز سے بجلی کیوں نہیں لی جاتی؟ جہاں بدعنوانی نظر آئی سخت کارروائی ہوگی۔ جسٹس اعجازالاحسن کہا 10آئی پی پیز کو 159ملین روپے فی کس اضافی دیئے گئے ہیں۔ سیکرٹری واٹر اینڈ پاور ڈویژن نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے آئی پی پیز سے معاہدہ کر رکھا ہے، بجلی لیں نہ لیں انہیں پیسے دینے پڑتے ہیں۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر وزیر توانائی عمر ایوب خان کووضاحت کیلئے طلب کرلیا۔ بدھ کو چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے آئی پی پیز کو زائد ادائیگیوں کے حوالے سے کہا کہ عوام کوبجلی تومل نہیں سکی، لیکن من پسند افراد کوزائد رقم دی گئی۔سماعت کے دوران جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ ملک میں 10 آئی پی پیز کو 159ملین روپے فی کس اضافی دیئے گئے ہیں، دوسری جانب شکایت یہ آرہی ہے کہ بجلی پیدا ہی نہیں ہوئی لیکن ادائیگیاں توکردی گئی ہیں۔ عدالت کوسیکرٹری پاور ڈویژن نے پیش ہوکر بتایا کہ حکومت نے آئی پی پیز سے معاہدہ کر رکھا ہے،جسکے مطابق ان کمپنیوں کو استعداد کے مطابق ادائیگی کی جاتی ہے اگر ہم ان سے بجلی نہ خریدیں تب بھی ان کو ادائیگی کرناہوتی ہے ، چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ ہمیں صرف یہ بتایا جائے کہ عوام کا پیسہ آئی پی پیز کو مفت کیوں دیا گیا؟ سوال یہ ہے کہ صرف ہمارے ملک پاکستان میں ایسے معاہدے چل رہے ہیں، آخر کیوں بلاوجہ اداروں کواربوں روپے ادا کئے جاتے ہیں۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ آئی پی پیز کیساتھ معاہدہ گلے کا پھندا بن گیا ہے، معاہدہ کی ایسی شرائط نہ جانے کیوں قبول کر لی گئیں، معلوم ہونا چاہیے معاہدہ کر کے بجلی کیوں نہ لی گئی، آج کھربوں روپے کا سرکلر ڈیٹ(گردشی قرضہ) بن گیا ہے، اب ہر کوئی ذمہ داری دوسرے پر ڈالے گا، عوام کو بجلی ملی نہ صنعتوں کو،پھر بھی پیسے پورے دیئے گئے۔ پتہ نہیں اس وقت کون لوگ تھے جنہوں نے یہ معاہدے کئے۔ سماعت کے دوران سیکرٹری پاور نے عدالت کو مزید بتایا کہ این پی سی سی سستے فیول سے چلنے والے پلانٹس کو ترجیح دیتی ہے عدالت چاہے تو ہم اس معاملے پر عدالت پریذنٹیشن دیں گے توچیف جسٹس نے کہا ہمیں اس کیس کو سمجھنے کر ضرورت ہے شاید آپ نے ایک پریذینٹیشن تیار کر رکھی ہوگی جو وزیراعظم کو دیتے ہونگے۔سیکرٹری پاور ڈویژن نے عدالت کوآگاہ کیا کہ آئی پی پیز2002 ءکی پالیسی کے بعد وجود میں آئی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہمیں صرف یہ بتایا جائے کہ عوام کا پیسہ مفت میں کیوں دیا گیا؟ دنیا بھر میں ایسے معاہدے ختم ہو چکے، لیکن صرف پاکستان میں ایسے معاہدے چل رہے ہیں۔پاور ڈویژن کے حکام نے عدا لت کو مزید بتایا کہ این پی سی سی ڈیمانڈ جاری کرتی ہے جبکہ آئی پی پیز کو اسٹینڈ بائی پر رکھا جاتا ہے،بعدازاں عدالت نے آئندہ سماعت پرطلب کرتے ہوئے مزید سماعت ملتوی کردی۔

تازہ ترین