• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر رضوانہ انصاری،حیدرآباد

سنو ،رکو، ٹھہرو میری آواز کی گونج سناٹے کو چیرتی چلی گئی ۔ ٹھہرو،آگے اندھیرا ہے، کھائی ہے، ڈھلوان ہے ۔ میں چلائی کہاںجا رہے ہو تم وہ سب رک گئے، سب نے مڑ کر مجھے دیکھا ۔ معصوم چہرے ، اداس آنکھیں، لاغر جسم ،مسکراہٹ کو ترسے ہونٹ خوشی سے نا آشنا،انہیں دیکھ کر میری آواز میرے گلے میں دم توڑنے لگی ۔ چھوٹے چھوٹے بے شمار معصوم بچے مجھے حیرت سے دیکھنے لگے ، یوں لگا جیسے یہ بچے کسی بانسری بجانے والے کے پیچھے سحر زدہ سے چلتے چلتے روشن بستی سے باہر نکل آئے ہیں۔ آو،ادھر آو، واپس آو، میرے پاس آو، میرے پاس بیٹھو، کہاں جارہے ہو تم سب ؟۔ بڑا معصوم سا جواب آیا، پتہ نہیں…!!

نسبتاً روشن جگہ پر ان کو بٹھا کر میں ان کے پاس بیٹھ گئی ۔ ان کے چہرے نمایاں نظر آرہے تھے ۔ اب میں انہیں اور وہ مجھے غور سے دیکھنے لگے ۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے جن میں سے کچھ سرکاری اور نجی اسکولوں کا یونیفارم پہنے ہوئے تھے، کچھ سادہ شلوار قمیض ،چند کے سروں پر حجاب بندھے تھے، کچھ چھوٹے چھوٹے دوپٹے اوڑھے تھیں،کچھ نسبتاً بڑے بچے ٹی شرٹ اور جینز پہنے تھے ،کچھ بچے صاف ستھرے کپڑوں اور سنورے ہوئے بالوں کے ساتھ، کچھ میلے ہاتھوں اور آلودہ کپڑوں کےساتھ، کچھ پیوند لگے کچیلے کپٹروں اور جوتوں سے بے نیاز پیروں کے ساتھ، کچھ انتہائی لاغر کے نجانے کس طرح سانس لے رہے تھے اور کچھ لڑ کھڑاتے ہوئے کھانس رہے تھے ۔ غور سے دیکھا سارے بچے نچلے یا درمیانی طبقے یا غربت کے مار ے خاندانوں کے لگ رہے تھے ۔ ان میں کوئی بھی اشرافیہ کا بچہ نہیں تھا ۔

میں نے رسان سے محبت سے پوچھا ، چلو جلدی جلدی بتاو کہ تم لوگ کہاں اور کیوں جارہے ہو؟ کیا تم لوگوں کو علم نہیں کہ آگے بہت اندھیرا اور کھائی ہے۔ روشنی تو دوسری طرف ہے ،دائیں جانب اور تم لوگ بائیں جانب جارہے ہو … تمہارے والدین کہاں ہیں۔؟ تمہارے گھر والے، دوست احباب، رشتے دار وغیرہ کیا تم لوگ ان سے ناراض ہو۔؟ شاباش بتاو…؟ چلو پہلے کون بتلائے گا…

وہ نیکر بشرٹ پہنے صاف ستھرا سا بچہ اپنی بہن کا ہاتھ پکڑے پہلے تھوڑا سا جھجکا، پھر مسکرایا اور بولا، ہمارے والدین ہم سے بہت زیادہ پیار کرتے ہیں۔ ہم ناراض نہیں ہیں۔ امی ابا ہمارے لئے بڑے محنت کرتے ہیں۔ ہمارے کھانے پینے لباس اور تعلیم ہر چیز کا خیال رکھتے ہیں۔ وہ پہلے سے کٹے ہوئے پیٹ کو مزید کاٹ کر ہمارے لئے آسانیاں مہیا کرتے ہیں۔ ایک راز کی بات بتاوں میں اور میری بہن ناشتے میں انڈے کےساتھ ملاوٹ شدہ آٹے کا پراٹھا کھا کر اور کیمیکل سے تیار شدہ دودھ پی کر نام نہاد پرائیوٹ اسکول چلے جاتے ہیں، جہاں کم تعلیم یافتہ اور کم تنخواہ پانے والی ٹیچرز ہمیں پڑھاتیں کم اور ڈانٹیں زیادہ ہیں۔ اس درمیان میں بیٹھا بچہ بولا میں توسرکاری اسکول میں پڑھتا ہوں۔ وہاں تو میز کرسی بھی نہیں ہے۔ اور وہاں پڑھائی کم اور پٹائی زیادہ ہوتی ہے۔ استاد تو کبھی کبھی آتے ہیں اور پھر ہنس کر بولا یہ سامنے والے بچے کا اسکول تو درخت کے نیچے ہے، کیوں کے اسکول کے کمرے میں سائیں کی بھینس اور بکری رہتی ہے۔ پہلا بچہ دوبارہ بولا ہاں تو میں بتلا رہا تھا کہ جب ہم اسکول سے واپس آتے ہیں تو ہماری امی گندے پانی میں اگائی ہوئی سبزیاں، پریشر والے گوشت یا پھر ہارمونیز پر پلی ہوئی مرغی کے گوشت کو ملاوٹ شدہ مسالوں چربی اور جانوروں کی انتڑیوں سے بنائے ہوئے گھی یا تیل میں پکا کر تیار کر دیتی ہیں۔ ساتھ ہی ہمیں انجکشن کے ذریعے میٹھا بنایا ہوا یا پھر غیر معیاری رنگ سے رنگا ہوا پھل بھی کھانے کو دیتی ہیں۔ رات کو بھی ہم کیمیکل سے تیار شدہ دودھ پی کر سو جاتے ہیں۔ ہماری بھولی امی پھر بھی سوچتی ہیں کہ ہماری قسمت کیوں خراب ہے … ان ساری ملاوٹ شدہ چیزوں کے کھانے سے ہم بیمار ہوجاتے ہیں تو پھر ہمیں غیر تربیت یافتہ جعلی ڈاکٹرز یا حکیموں سے علاج کروانا ہوتا ہے، جو نسخہ پر جعلی دونمبر کی دوائیاں لکھ کر دیتے ہیں، نہ ہم صحت یاب ہوتے ہیں اور ناہی بیمار رہتے ہیں، اس کےساتھ ہمیں پینے کے لیے ناصاف پانی مُیسر ہے اور ناصاف ماحول ۔اب آپ سوچیں گی ہم زندہ کیسے ہیں،اس کا جواب ہے۔ صرف ماں باپ کی محبت کی وجہ سے، کیوں کہ ہمارے علاقے میں سارے بچے ایسے ہی بڑے ہوئے ہیں۔

دوسرا نسبتاً بڑا اعتماد بچہ جو میلے کپڑوں میں ملبوس تھا بولا، ہم چاہنے کے باوجود اسکول نہیں جاتے، ورکشاپ پر استاد کے پاس کام کرتے ہیں۔ گھر میں باپ بیمار ہے۔ ماں گھروں میں کام کرتی ہے۔ استاد کام کم سکھاتا ہے۔ اس لیے پیسے بھی کم دیتا ہے، بھلے پیسے کم دے مگر وہ ذرا ذرا سی بات پر مارتا بہت ہے۔

اب تو بچے دھیرے دھیرے مجھ سے بات کرنے کے لیے راغب ہورہے تھے۔ ایک بچی بولی میں اسکول جاتی ہوں واپس آتی ہوں تو کھانا کھا کر مدرسے چلی جاتی ہوں۔ وہاں سے واپس آکر ٹیوشن جاتی ہوں۔ وہاں سے واپس آتی ہوں تو امی کارٹون لگا دیتی ہیں اتنی دیر میں رات کا کھانا تیار ہوجاتا ہے، کھا کر سو جاتی ہوں ۔ ہمارے گھر میں کوئی آپس میں بات چیت نہیں کرتا۔ ابو رات کو دیر سے گھر آتے ہیں۔

بکھرے بالوں والی بچی جس کے جسم اور چہرے پر تشدد کے نشان تھے ،بولی میں کوئی اسکول وسکول نہیں جاتی ۔ میں ایک آنٹی کے گھر کام کرتی ہوں۔ میرے ابا نے پیسے لے کر مجھے ان کے گھر چھوڑا ہے۔ میرے نو بہن بھائی ہیں لیکن اسکول کوئی بھی نہیں جاتا۔ میں سارا دن آنٹی کے گھر میں کام کرتی ہوں۔ غلطی ہوجائے تو بہت مار پڑتی ہے۔ آنٹی کھانا بھی نہیں دیتی ہیں۔ جب زیادہ بھوک لگتی ہے تو میں بسکٹ چرا کر کھالیتی ہوں، آنٹی کو پتا چل جاتا ہے تو اور بھی زیادہ مار پڑتی ہے۔ میں نے پوچھا ، تم اپنے گھر والوں کو کیوں نہیں بتاتی ہو؟ انہوں نے پیسے لے رکھے ہیں۔ اگر یہ لوگ مجھے مار بھی دیں گے تو پولیس کسی کو نہیں پکڑے گی ۔ بس راضی نامہ ہوجائے گا ۔

ننگے پیروں، گورے رنگ اور بھوری آنکھوں والا بچہ کہنے لگا ،باجی ہم سارا دن تھیلے میں کچرا جمع کرتا ہے۔ دس بہن بھائی ہیں۔ باپ مزدوری کرتا ہے۔ ماں بہن بھائیوں کو سنبھالتی ہے۔ سارے دن کام کرتا ہوں، پر گھر میں پھر بھی روز کھانا نہیں ملتا ۔ کچرے میں ہی سے کبھی کوئی کھانے کی چیز مل جائے تو کھالیتا ہوں۔ میرا بھی دل کرتا ہے کہ اس کچرے کے تھیلے کی جگہ میرے کندھے پر کتابوں کا بستہ ہو ۔ میں بھی دوسرے بچوں کی طرح اسکول جائو ۔

انتہائی لاغر سانولا سا بچہ جس کے گال پچکے ہوئے تھے، بلکہ یہ کہنا کچھ غلط نہ ہوگا اس کے گال تھے ہی نہیں بس ہڈیاں ہی تھیں۔ اس کی ہنسلی، پسلی کی ہڈیاں، اس کی میلی سی قمیض کے بغیر بٹن والے گلے سے بہت نمایاںہو رہی تھیں۔ کمزور سی آواز میں بولا، ادی اماں میں بھی اسکول نہیں جاتا ہوں۔ میری ماں بھی میرے جیسی کمزور ہے۔ ہر سال میرا بھائی یا بہن پیدا ہوتا ہے۔ گھر میں کھانے کو بہت کم ہے۔ ہمارے علاقے میں پانی بھی نہیں ہے۔ گورنمنٹ کہتی ہے یہاں بچےبیماری سے مرتے ہیں،جبکہ ہم تو بھوک سے مرتے ہیں۔ میں بھی جلدی مر جاوں گا۔ ان سب میں نسبتاً بڑا بچہ تلخ مسکراہٹ کےساتھ بولا، میرا تو کوئی گھر ہی نہیں ہے ،سڑک پر رہتا ہوں۔ دن میں ہوٹل میں کام کرتا ہوں اور رات کو کسی دوکان کے تھلے پر سو جاتا ہوں۔ سردیوں میں بڑی مشکل ہوتی ہے۔ ماں باپ کا تو پتہ نہیں۔ جب ماں کی شکل یاد نہیں تو اسکول کی شکل کیا دیکھتا…؟

گھسیٹ کر چلتا ہوا ایک بچہ آگے نکل کر آیا اور بولا، یہ دیکھیں میرا پاوں خراب ہے، مجھے پولیو ہے۔ جب قطرے والی باجیاں گھر آتی تھیں تو بابا دروازہ بند کر دیتا تھا اور کہتا تھا کہ یہ دوائی حرام ہے۔ ہم آٹھ بہن بھائی ہیں کسی کو قطرے نہیں پلائے گئے نہ ٹیکہ لگوایا ہے۔ فراک شلوار والی چھوٹی سی بچی شکایت بھرے لہجے میں بولی، ہمارے امی ابا گھر سے نکلنے نہیں دیتے۔ اسکول بھی ابا خود لےکر جاتا اور آتا ہے۔ کسی رشتے دار، کسی سہیلی کسی پڑوس وغیرہ میں اول تو جانے نہیں دیتے یا پھر ابا خود ساتھ جاتے ہیں۔ کہتے ہیں میں تمہیں دو پاوں والے جانوروں سے بچاتا ہوں ایک مرتبہ ہم بہنوں کو گھمانے پارک لے کر گئے تھے تو وہاں پر جھولا ٹوٹ گیا، جس کے بعد ہم گھر واپس آگئے اسی اثناء میں بارہ سال کی بچی آگے بڑھی۔ اس کے سنورے بال اور آنکھوں میں کاجل دیکھ کر حیران ہوئی۔ میں نے پوچھا تم اسکول جاتی ہو۔ وہ بولی اسکول؟ میری تو شادی ہوگئی۔ بابا کے دوست سے۔ بہت پیسہ لیا ہے بابا نے۔

ایک اور بچی اس کے برابر بیٹھی تھی میں نے پوچھا تم؟ کہنے لگی ہم لوگ اسکول نہیں جاتے ہیں۔ ہمارے گھر میں کوئی لڑکی اسکول نہیں جاتی ہے۔ دادا کہتے ہیں لڑکی کو اسکول نہیں جانا چاہیے۔ ماحول خراب ہے۔ لڑکیاں خراب ہوجاتی ہیں۔ باجی کیوں خراب ہوجاتی ہیں لڑکیاں؟ اس نے الٹا سوال داغ دیا اور میں سٹپٹا گئی !

دو بچے ساتھ بیٹھے تھے، میں نے پوچھا بیٹا آپ پڑھتے ہو، کہنے لگے ابا نے اسکول میں داخل تو کر وایا تھا مگر کچھ سمجھ نہیں آتا تھا سبق یاد نہیں ہوتا تھا۔ ماسٹر بہت مارتا تھا اب ورکشاپ پر کام سیکھتے ہیں۔

اداس آنکھوں والی لڑکی کو اس کے ساتھ بیٹھی دوسری بچی نے ٹہوکا دیا تووہ بولی سب کے سامنے تھوڑا بتائوں گی میں نے پاس بلایا تو بولی جرگے نے مجھے ونی کر دیا ہے بس اور کچھ نہیں۔

ایک لڑکا ہنس کر آگے بڑھا اور بولا ’’سندھ کے گائوں کا ہوں 13 سال عمر ہے میری، میرے ساتھ بدفعلی کرنے والے کو خبر ہے جرگہ میں کیا سزا ہوئی ، ایک روپیہ جرمانہ اور پانچ تھپڑ مارنے کی سزا، کیوںکہ مجرم بڑے لوگوں کا آدمی ہے، بھلے میرے کو 10تھپڑ مارو مگر اس کو جیل بھیجو! میری حیرانی کو ایک دوسرے بارہ چودہ سالہ لڑکے نے اور بڑھا دیا، بولا میں مین پوری، گٹکا اور صمد بونڈ کا نشہ کرتا ہوں۔

ایک بچہ آگے نکل کر آیا اور بولا آنٹی میں آپ کو بہت مزے کی بات بتاتا ہوں ہمارے اسکول کے راستے میں ندی ہے اس پر کوئی پل نہیں ہے۔ ہم روزانہ تیر کر اس کو پار کر کے اسکول جاتے ہیں۔ گرمی میں تو مزا آتا ہے۔ پر سردی میں بڑی مشکل ہوتی ہے اس کے بعد ایک اور بچہ بولا باجی ہم تو تھوڑے سے ہیں۔ پیچھے تو بہت سارے بچے چھوڑا کر آئے ہیں۔ ان بچوں کی باتیں سن کر میں سوچ رہی ہوں، پوری بات اور پورا قصہ کون لکھے گا۔ کتنا مشکل تھا یہ رستہ، کون سمجھے گا۔ یہ غم نہیں، یہ تکلیف بھی نہیں، یہ کوئی منجمد سی فریاد ہے، نہیں یہ دل کو چیرنے والی آہ ہے، نہیں یہ کوئی اور احساس ہے جو مجھے کھائے جا رہا ہے۔ ہمارے بچے ہماری محبتوں کا مرکز، ہمارے وجود کا حصار ہماری تمنائوں کے جزیزے، غربت، بھوک ، جہالت، اداسی اور اندھیروں کی جانب بڑھ رہے ہیںاور کسی کو کوئی پریشانی نہیں یہ میرا مستقبل ،میرے بچے ، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بچے،2018 میں بھی دردناک زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ بے سمت ، بے راہ روی، بے ہدف مستقبل ہیں بچے تو انسانوں پر خدا کے یقین کا استعارہ ہوتے ہیں ان بچوں کو تو ذہنی، جسمانی روحانی اور سماجی طور پر صحت مند ہونا چاہیے۔

کیا میرے ملک کے بچوں کو یقین ہے کہ، وہ کبھی بھوکے نہیں سوئیں گے، وہ بیمار ہوں گے تو انہیں لازمی علاج کی سہولیات میسر ہوںگی ۔وہ تعلیم حاصل کر سکیں گے، جیسے دنیا میں دوسرے ممالک کے بچے حاصل کرتے ہیں۔ انہیں رہنے کے لئے چھت میسر ہوگی اور سب سے اہم بات یہ کہ ان کی جان، عزت اور ذہنی صحت کا تحفظ کیا جائے گا، اور ان کا کام صرف کوشش کرنا، خوش رہنا اور ایمانداری سے زندگی گزارنا ہوگا حقیقت تو یہ ہے کہ انہیں ذہنی، جسمانی روحانی اور سماجی طور پر آسودگی چاہیے، مگر حقائق بہت تلخ اور تکلیف دہ ہیں ان پر نظر ڈالیں تو ایک نومولود کی اکھڑی سانسیں سنائی دیتی ہیں،جو آخر کار ایک ماہ کی عمر سے پہلے ہی رک جاتی ہیں یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نومولودہ کے لئے دنیا کا سب سے خطر ناک ملک بن گیا ہے بچوں کی صحت کے حوالے سے ان کی زندگی کا پہلا مہینہ بلکہ پہلے 28 دن بہت اہم ہوتے ہیں پسماندہ معاشروں میں تمام بچے یہ سرحد عبور نہیں کر پاتے پاکستان ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود اس فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔

اعداد و شمار کے حساب سے 52فیصد نومولود موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔

1000 میں سے 62بچے ایک سال کی عمر تک نہیں پہنچ پاتے1000میں سے 74بچے اپنی پانچویں سالگرہ نہیں منا پاتےپانچ سال سے کم عمر بچوں کی 45فیصد تعداد کمزور جسم اور کمزور ذہن کے ساتھ پل رہی ہے۔ غذا کی کمی اس کی بڑی وجہ ہے۔2018 کے آغاز سے نومبر تک تھر میں چار ماہ سے کم عمر 1720 بچے اب تک فوت ہو چکے ہیں اور 2259 شیر خوار بچے اپنی مائوں کی گودیں ویران کر چکے ہیں ادھر کے پی کے میں رواں سال میں چھ ماہ کے مختصر عرصہ میں اب تک 3979 بچے فوت ہو چکے ہیں … بچوں کی بڑی تعداد غذا کی کمی، ڈاٹریا اور نمونیہ سے فوت ہو تی ہے۔

ہم پولیو کو مکمل شکست نہیں دے سکے 2018 میں نومبر تک پولیو کے چھ کینسر ریکارڈ ہو چکے ہیں۔ ملک میں سینکڑوںبچے تھلیسمیا کی بیماری کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں…

فضائی آلودگی سے ہر سال لاکھوں بچے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ زہریلی ہوا اور فضاء بچوں کی ذہانت کو نقصان پہنچا رہی ہے، آلودگی کی وجہ سے بچے پیدائش کے ساتھ ہی سانس اور دل کے مختلف امراض اور اعصابی نشوونما میں خرابی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ملک بھر میں 15-9 بچے روزانہ جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں، کچھ قتل بھی کر دیئے جاتے ہیں ۔کمسن بچے سگریٹ نوشی، مین پوری، گٹکا اور شیشے جیسی نشہ آور چیزوں کی لت میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ معصوم بچے بھی اسمارٹ فون استعمال کرتے ہیں۔ جب کہ مائیکرو سوفٹ کے بانی بل گیٹس کے گھر میں بچوں کو اسمارٹ فون سے دور رکھا جاتا ہے۔ سلیکون ویلی میں بھی کم عمر بچوں کو الیکٹرانک ڈیوائسز کے استعمال کی ممانعت ہے ، جب کہ ہمارے ہاں بچوں کو اسمارٹ فون دے کر بہلایا جاتا ہے۔

دوسری طرف تعلیم سے محرومی کا منظر بہت اذیت ناک ہے، میرے ملک میں 22.6کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے ہیں ۔ یونیسکو کی سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تعلیم کی شرح دنیا میں نچلی ترین سطح پر ہے۔ جو 60فیصد ہے بلوجستان میں آج بھی 62فیصد بچے تعلیم سے محروم ہیں ،جب کہ سندھ میں 51فیصد، پنجاب میں 30فیصد اور کے پی کے میں 45فیصد بچوں نے اسکول کی شکل نہیں دیکھی، جو بچے اسکول جاتے ہیں ان کی درسی کتب تعلیمی سال شروع ہو جانے کے باوجود دستیاب نہیں ہوتی ہیں۔

بچوں کے کھیل کے میدان پلازوں میں بدل چکے ہیں… اور جو پارک ہیں وہاں جھولے ٹوٹ جاتے ہیں۔

میرے ملک کے گلی گلی اور شہر شہر میں بھکاری بچوں کے غول کے غول سڑکوں پر منڈ لاتے پھرتے ہیں۔ آٹھ دس بچوں والے خاندانوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو دنیا کی ہر نعمت سے محروم ہیں۔

اس وقت میرے ملک میں 14برس تک کی عمر کے تقریباً 40لاکھ بچے چائلڈ لیبر کی چکی میں پس رہے ہیں۔ یہ وہ بچے میں جو اپنے خوابیدہ خواب بیچتے ہیں۔ ان میں 70فیصد لڑکے اور 30فیصد لڑکیاں شامل ہیں۔

ورکشاپوں، چائے خانوں، اینٹوں کے بھٹوں ، بسوں کے اڈوں پر کام کرنے والے یہ چھوٹے اور گھروں میں کام کرنے والی یہ چھوٹیاں طرح طرح کے جسمانی اور نفسیاتی تشدد برداشت کرنے پر مجبور ہیں، بلکہ اکثر جنسی تشدد کا بھی شکار ہوتے ہیں۔

اسٹریٹ چلڈرن جن کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا 2018میں ان کی تعداد بھی 20-15 لاکھ ہوگئی ہے۔ شقی القلب لوگ ان کا بدترین، جسمانی نفسیاتی اور جنسی استحصال کرتے ہیں۔

ثنا خوان تقدیس کی آنکھ ہی نہیں کھلتی… بچوں کو حشرات الارض کی طرح زندہ رہتے دیکھ کر حکمرانوں اور ذمہ داروں کا دل ہی نہیں پسیجتا دنیا کا سب سے آسان کام محبت کا دعویٰ کرنا ہےاور بچوں سے محبت کا دعویٰ تو دنیا کا ہر انسان کرتا ہے، مگر کیا یہ دعوے ہمیشہ درست ثابت ہوتے ہیں۔ بچوں سے محبت صرف یہ نہیں کہ انہیں مطلوبہ آسائشیں فراہم کردی جائیں۔ محبت یہ ہے کہ ان سے بات کی جائے ،انہیں وقت دیا جائے، انہیں اچھے برے کی تمیز سکھائی جائے اور ان کی اخلاقی تربیت کی جائے۔ ان کی رپورٹ کارڈ کے ساتھ ساتھ ان کی حرکتوں اور سرگرمیوں پر بھی نظر رکھی جائے۔

اگر ہم بچوں کو دنیا کی آسائشیں مہیا نہ کر سکیں تو کم از کم انہیں وقت نکال کر گلے لگنا ہی شروع کر دیں۔ گلے لگانا بچے کے اندر محبت، گرماہٹ اور تحفظ کا احساس پیدا کرتا ہے ،جس سے بچے خود اعتماد ہوتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نظر انداز اور ہراساں ہونے والے بچے بڑے ہو کر نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ وہ پرتشدد رویہ اختیار کرتے ہیں، ان کی شخصیت متوازن نہیں رہتی اور وہ آسانی سے منفی سرگرمیوں کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔

صحت مند، خوشحال ، پر سکون اور بامعنی زندگی گزارنا ہر بچے کا پیدائشی حق ہے اور صحت مند معاشرے کی تعمیر میں کردار ادا کرنا ہم سب کی انفرادی اور سماجی ذمہ داری ہے۔ اپنے بچوں کی بھر پور حفاظت اور تربیت کریں ان کے لئے پوری دنیا خوبصورت نہ سہی کم از کم ان کا گھر ان کے اردگر کا ماحول، تعلیم کی جگہ، اور تفریح گاہوں کو ضرور محفوظ، خوبصورت اور پر سکون بنانے کی کوشش کریں۔ انہیں اندھیرے اور کھائیوں سے بچاکر روشن اور بلندی کی طرف جانے کا راستہ دکھلائیں سیاہ رات کتنی بھی تاریک ہو ،پر صبح پھر بھی اس کے مقدر میں لکھی ہوتی ہے سحر جنم لتی ہے۔

آئو کہ کوئی خواب بنیں کل کے واسطے

ورنہ یہ رات آج کے سنگین دور کی

ڈس لے گی جان و دل کو کچھ ایسے کہ جان و دل

تا عمر پھر نہ کوئی حسین خواب بن سکیں

ترقی یافتہ ممالک میں بھی بہت سے بچے مشکل حالات کا شکار ہیں

بچّوں کے تحفظ کی تنظیم ’’سیو دی چلڈرن‘‘ کی رپورٹ 2018 کے مطابق ایک ارب 20 کروڑ بچّوں اور بچیوں کی زندگیاں دائو پر لگی ہوئی ہیں۔ دنیا بھر میں نصف سے زائد بچّے محرومی یا پسماندگی کا شکار ہیں۔ عراق پر امریکی حملے، فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی فوجیوں کی یلغار، کشمیریوں پر بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ڈھائے جانے والے مظالم اور ان مظالم کے باعث محفوظ پناہ کی تلاش میں نقل مکانی کنے والے خاندانوں کے بچوں کی بھوک، مہاجرت کی صعوبتوں اور گولیوں کا نشانہ بننے کی کیفیت کی جو تصویری جھلکیاں عالمی میڈیا میں وقتاً فوقتاً سامنے آئیں، اصل صورتحال اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ خوراک کی کمی، بھوک اور خوف کے عالم میں زندگی بسر کرنا صرف مغربی اور افریقی بچّوں کا مسئلہ نہیں۔ انتہائی ترقی یافتہ ممالک میں بھی ان کے اپنے ہی بعض علاقوں کے قدیم باشندے اور قریبی پسماندہ علاقوں سے غیر قانونی طور پر سرحد پار کر کے آنے والے افراد اور ان کے بچّے روپوشوں کے انداز میں خوف، جبر اور سمجھوتوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ مسلح تنازعات، غربت اور خاص طور پر بچّوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا ناروا سلوک دنیا بھر کے نصف سے زیادہ بچّوں کی محرومی و پسماندگی کے اسباب میں شامل ہے۔ کم عمری کی شادیاں، جبری مشقّت اور ناقص خوراک نے بھی صورتحال کے بگاڑ میں کردار ادا کیا۔ اس رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ متاثرہ بچے مغربی اور وسطی افریقی ممالک میں ہیں۔ یہاں کچھ ایسے مسائل کا ذکر بے محل نہ ہوگا جن کا عام طور پر نوٹس نہیں لیا جاتا۔ برطانوی نشریاتی ادارے نے اس ضمن میں پٹنہ اور لکھنؤ سمیت بھارتی شہروں کے اسکولوں میں 8سے 12سال کی عمر کے مسلم بچّوں کو طنز کا نشانہ بنائے جانے کی نشاندہی کی ہے۔ بعض ممالک میں رنگ اور نسل کی بنیاد پر رکھے جانے والے امتیازی سلوک کے باعث کئی نسلوں کی پوری زندگیاں خوفزدگی کی کیفیت کا نمونہ ہیں۔ یہ سب ایسی باتیں ہیں جن کی روک تھام کے لیے ان سب قوتوں اور حلقوں کو سنجیدگی سے کام کرنا چاہئے جو دنیا کو دہشت گردی سے پاک اور پرامن دیکھنا چاہتے ہیں۔

تازہ ترین