اگر آپ اسلام آباد سے جی ٹی روڈ پر سفر کرتے ہوئِے جہلم داخل ہوں تو سوہاوہ کے بعد دینہ شہر کا اسٹاپ آتا ہے۔ دینہ کا نام عصر حاضر میں سب سے بڑے شاعروں میں سے ایک گلزار کے ذکر کے بغیر نا مکمل ہے۔ آپ یہاں رکیں یا نہ رکیں۔ گلزار کے پرانے گھر جائیں یا نہ جائیں مگر آپ کو یہاں سے گلزار کی شاعری کی خوشبو ضرور آئے گی۔ گلزار تقسیم کے بعد دینہ سے ہندوستان جا بسے۔ مگرآج بھی وہ کسی فلم کا گیت لکھیں، کسی ٹی وی یا سوشل میڈیا پر کوئی نظم یا غزل کہتے نظر آئیں ، آپ کو ان کے لہجے میں جہلم کی خوشبو ضرور آئے گی۔
ذکر جہلم کا ہے ، بات ہے دِینے کی
چاند پکھراج کا ، رات پشمینے کی
کیسے اوڑھے گی اْدھڑی ہو ئی چاندی
رات کوشش میں ہے چاند کو سینے کی
کوئی ایسا گرا ہے نظر سے کہ بس
ہم نے صورت نہ دیکھی پھر آئینے کی
دینہ گلزار کے ساتھ ساتھ مزاحیہ شاعر ضمیر جعفری سے بھی منسوب ہے۔ ضمیر جعفری نے اردو ادب میں بڑا نام کمایا۔ وہ ہنس مکھ شاعر ہی نہیں تھے بلکہ اپنے سماجی کردار کی وجہ سے بھی جانے جاتے تھے۔ دینہ سے چند کلو میٹر آگے آئیں تو راٹھیاں کی ڈھلوان پوٹھوہار کو خدا حافظ کہہ کر آپ کو پنجاب میں خوش آمدید کہتی ہے۔ یہاں الٹے ہاتھ پر کالا گجراں نامی ایک گائوں ہے۔ اس گائوں کے تین تاریخی کردار بہت اہم رہے۔ سب سے پہلے تو تقسیم سے پہلے مزاحمت کے پنجابی شاعر درشن سنگھ آوارہ ہیں۔ کالاگجراں کے اندر داخل ہوں تو مین بازار میں ڈاکخانے کے قریب درشن سنگھ آوارہ کا گھر موجود ہے۔ وقت نے پرانی عمارت کو تو نگل لیا مگر یہاں پیدا ہونے والے آوارہ کا بچپن اور جوانی آج بھی یہاں گھومتی پھرتی محسوس کی جاسکتی ہے۔ آوارہ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ اس کی ماں بچپن میں چاٹی میں مدھانی ڈال کر اسے شیخ فرید کا کلام سناتی۔ آوارہ کی کتاب، "بجلی دی کڑک" پر برطانوی حکومت نے پابندی عائد کردی۔ مگر برطانوی حکومت درشن سنگھ آوارہ کے خیالات اور آدرشوں پر پابندی عائد نہ کرسکی اور اس نے "بغاوت" کے عنوان سے ایک اور کتاب لکھ ڈالی۔ تقسیم کے بعد درشن سنگھ آوارہ ہندوستان چلے گئے۔
کالا گجرا ں بازار جائوں تو آوارہ اپنی طویل نظم کا ایک حصہ سناتے دکھتے ہیں،
او مندر دی ولگن وچ مجبور ربا!
مسیتی چکا ہندے وچ محصور ربا!
او گرجے دی ٹیشی تے مغرور ربا!
انجیلاں قرآناں دے مشہور ربا!
تیرے نال دو گلاں کرنے تے جی ہے
تے اج میرا دل پھول دھرنے تے جی ہے
میں سنی?توں حجاں۔نمازاں تے ٹھیناں ایں
توں سنکھاں تے ٹلی جیہے سازاں تے ٹھیناں ایں
خوشامد۔چڑھاوے۔نیازاں تے ٹھیناں ایں
توں بانگاں تے اچیاں آوازاں تے ٹھیناں ایں
سنے کوک گنگیاں غریباں دی جیہڑا
اوہ کس تھاں تے وسدا اے اوہ رب ہے جیہڑا
اسی گائوں میں برصغیر کے معروف ٹریڈ یونینسٹ مرزا ابراہیم کا گھر بھی موجود ہے۔ مرزا تقسیم سے پہلے متحدہ ہندوستان کی ریلوے یونین کے جنرل سیکرٹری تھے۔ پورا ہندوستان ان کی کال پر جام ہوجاتا۔۔ دہلی کی سیاست میں مرزا کا ایک نام تھا۔ وہ اپنے وقت کے معروف سیاستدان وی وی گری کے ساتھ کام کرتے رہے جو بعد میں بھارتی صدر بھی رہے۔ تقسیم کے بعد بھی ریلوے میں مرزاکا طوطی بولتا تھا۔ لوگ آج بھی انہیں یاد کرتے ہیں۔ میرا کراچی جانا ہوا تو جیونیوز سے منسلک پیارے دوست کامران رضی کے والد معروف ٹریڈ یونینسٹ منظور رضی سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے مرزا ابراہیم سے وابستہ قصے سنا ئے تو پتہ چلا کہ کتنا عظیم شخص کالا گجراں میں گمنامی کی موت مر گیا۔ کالا گجراں ہندوستان اور پاکستان میں ایک اور حوالے سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کی جنم بھومی بھی ہے۔ اروڑہ مشرقی پاکستان میں جنرل نیازی کے مقابلے میں بھارتی فوج کے کمانڈر تھے۔ یہ وہی کمانڈر ہیں جنہوں نے جنرل نیازی سے ہتھیار ڈالنے کے معاہدے پر دستخط کروائے۔ اروڑہ محلے میں تقسیم سے پہلے تعمیر کیے گئے گھر اب تک اس جنگجو فوجی کے بچپن کو آوازیں دیتے ہیں۔
کالا گجراں سے نکلیں تو جہلم شہر کم و بیش دو کلومیڑ دوررہ جاتا ہے۔ ضلع چکوال بھی جہلم کی ہی ایک تحصیل تھا۔ اسطرح اس ضلع کا بڑا رقبہ تھا۔ انتظامی مجبوریوں کے تحت جہلم کی تقسیم کردی گئی۔ میری جب بھی کسی چکوال کے رہائشی سے ملاقات ہوتی ہے تو میں ان سے مذاق کرتا ہوں کہ دراصل چکوال جہلم کا بنگلہ دیش ہے۔ فرق اتنا ہے کہ بنگلہ دیش لڑ کر آزاد ہوا تھا اور جہلم نے پیار سے اسے جدا کردیا۔ بھارت کے دو وزرائےاعظم منموہن سنگھ اور اندر کمار گجرال جہلم سے تعلق رکھتے تھے۔ گجرال جہلم شہر سے جبکہ منموہن سنگھ کا تعلق گاہ گائوں سے ہے جو آجکل چکوال کی حدود میں آتا ہے۔ مجھے کسی دوست نے بتایاکہ معروف بھارتی فلم اسٹار سنجے دت کے والد سنیل دت بھی اسی شہر کے باسی رہے۔ تقسیم نے دیگر خاندانوں کی طرح انہیں بھارت دھکیل دیا۔
جہلم کا ذکر ہواور پنجابی شاعر جوگی جہلمی کا ذکر نہ ہو تو یہ بھی زیادتی ہے۔ جوگی کی شاعری میں بھگوان بستا ہے۔ وہ شعر نہیں کہتا زندگی کے اصول بتاتا ہے۔
آج کے دور میں بھی جہلم اور اس کے باسیوں میں آوارہ کی مزاحمت، گلزار کی محبت ، مرزا کی جدوجہد اور جوگی کا کردار بستا ہے۔ اس دور میں جہلم کی نئی نسل کو ادب شاعری اور تاریخ کے اسلوب سکھانے والے جہلم کے اساتذہ بھی بڑے اہم ہیں۔ ان میں سے ایک امیرسلطان ہیں جو آجکل موٹا غربی نامی گائوں میں ہیڈ ماسٹر ہیں۔ آج کے دور میں ان جیسے اساتذہ کو سلام پیش کرنا چاہیے جو مخدوش حالات اور شہر سے دور تعیناتی کے باوجود من سے نئی نسل کو تعلیم دیتے ہیں۔ جہلم گیا تو الیاس صادق ، خالد بٹ اور سہیل کے ہمراہ چائے تو پی مگر امیرسلطان صاحب سے نہ مل سکا۔
جہلم سے واپس آئے دوہفتے گزرگئے مگر دل اب بھی جہلم میں ہی ہے۔