• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”گلاسز میں پانی ڈال دو“ کہنا درست نہیں تو” ججز کی تقرری کامسئلہ“ لکھنا اور بولنا بھی غلط ہے۔پہلے فقرے میں گلاسز کے بجائے گلاسوں لکھا جانا چاہئے تو دوسرے فقرے میں ججز کے بجائے ججوں ہونا چاہئے۔ گلاس بھی انگریزی کا لفظ ہے اور جج بھی، لیکن انہیں اردو نے اس طرح اپنا لیا ہے کہ اب یہ اردو ہی کے الفاظ ہیں، اس لئے جمع بنانے کے اردو ہی کے قاعدے اِن پر بھی لاگو ہوں گے۔ یہ ہرزبان کا معاملہ ہے مثلاً پائیجامہ خالص فارسی اور اردو کا لفظ ہے لیکن انگریزی نے اسے اپنا لیا ہے۔ اس لئے انگریزی میں اس کی جمع پائیجامے یا پائیجاموں نہیں بلکہ کیمبرج ایڈوانسڈ لرنرز ڈکشنری کے مطابق پائیجاماز (pyjamas) کی جاتی ہے لیکن انگریزی کے جو الفاظ اردو میں انگریزی ہی کے لفظ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ان کی جمع انگریزی قاعدے کے مطابق بنانا بالکل درست ہے اور اس کے برعکس کرنا غلط ہے۔ مثلاً فنڈ کا لفظ اردو میں انگریزی کے لفظ کی حیثیت ہی سے لکھا اور بولا جاتا ہے اس لئے اس کی جمع بھی اردو قاعدے کے مطابق فنڈوں کے بجائے انگریزی قاعدے کے تحت فنڈز ہی کرنا درست ہے۔
ایک رائے یہ ہے کہ ججوں کے بجائے ججز وغیرہ جیسی غلطیاں، غلطیاں نہیں بلکہ زبان کے فطری ارتقائی عمل کا حصہ ہیں اور اس عمل میں کوئی رخنہ اندازی مناسب نہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ زبان کی صحت کا کوئی خاص اہتمام نظر نہیں آتا بلکہ اب تو یہ بات عام ہے کہ جہاں آسانی سے ڈاکٹروں اور انجینئروں وغیرہ لکھا جاسکتا ہے وہاں خواہ مخواہ ڈاکٹرز اور انجینئرز لکھا جاتا ہے۔ اسی طرح اور بھی کئی غلطیاں اب عام ہیں مثلاً اچھے اچھے پڑھے لکھے لوگ اور دانشور حضرات بھی ”عوام چاہتی ہے“ جیسے فقرے بولتے سنائی دیتے ہیں حالانکہ یہ لفظ یقینی طور پر تذکیر کے صیغے سے لکھا جانا چاہئے۔ بعض حضرات عوام کو تانیث ہی کے صیغے سے لکھتے ہیں۔ بے چارے ”عوام“ کا یہ حشر اس لئے ہوا ہے کہ انگریزی کا لفظ ”پبلک“ اردو میں تانیث کے صیغے کے ساتھ آیا ہے چنانچہ اس کے اردو متبادل ”عوام“ کو بھی یاروں نے موٴنث بنادیا۔ بعض حضرات ”بلند بانگ“ کی جگہ بلاتکلف ”بلندوبانگ“ لکھتے اور بولتے ہیں۔”کے زیر صدارت“ کے بجائے ”کی زیر صدارت“ تو اب کم وبیش ہر جگہ ہی لکھا اور بولا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ”کے /کی“ کو ”صدارت“ سے متعلق سمجھا جاتا ہے جبکہ اس کی مناسبت ”زیر“ کے ساتھ ہے اور ”زیر“ مذکر بولا جاتا ہے۔ ہماری اس رائے کا ثبوت یہ ہے کہ یہی ”زیر “جب ”علاج“ کے ساتھ لکھا جائے تو ہمیشہ ”کے زیر علاج “ لکھا اور بولا جاتا ہے کیونکہ لکھنے اور بولنے والے یہاں”کے“ کو علاج سے متعلق سمجھ کر لکھتے اور بولتے ہیں اور علاج کا تذکیر کے صیغے سے ہونا بالکل واضح ہے۔ اب رہ گیا یہ معاملہ کہ کیا واقعی ”کے“ کا تعلق صدارت اور علاج کے بجائے”زیر“ سے ہے تو یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں مثلاً جب ہم ”قائد اعظم کے یوم پیدائش پر منعقدہ تقریب“ لکھتے ہیں تو ہم ”کے“ کو پیدائش سے نہیں بلکہ ”یوم“ کی مناسبت سے لکھتے ہیں، اس لئے کہیں بھی ”قائد اعظم کی یوم پیدائش پر منعقدہ تقریب“ نہیں لکھا جاتا۔ ”کے زیر قیادت “ اور ”کے زیر صدارت“ وغیرہ میں ”زیر“ کی پوزیشن بالکل وہی ہے جو ” قائد اعظم کے یوم پیدائش پرمنعقدہ تقریب “ کے فقرے میں ”یوم“ کی ہے۔ کسی بھی جگہ ”کے“ کا تعلق قیادت، صدارت یا پیدائش سے نہیں بلکہ ہر جگہ” زیر “اور ”یوم “ سے ہے۔ اس لئے ”کی زیر صدارت“لکھنا غلط ہے اور اس کی جگہ ہمیشہ ”کے زیر صدارت“ اور ”کے زیر قیادت“ وغیرہ لکھا اور بولا جانا چاہئے۔ مگر ایسی غلطیوں کو درست کرنے کی اب کوئی کوشش کہیں دکھائی نہیں دیتی۔
اصلاح زبان سے اس بے نیازی کا سبب غالباً یہی ہے کہ اکثر لوگ اس رائے کے قائل ہیں کہ یہ سب زبان کے فطری ارتقاء کا حصہ ہے مگر ماضی میں ایسا نہیں تھا۔ ریڈیو پاکستان کے پہلے سربراہ زیڈ اے بخاری مرحوم نے ریڈیو پر درست زبان بولے جانے کا کڑا بندوبست کررکھا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ریڈیو پاکستان کے اس اہتمام کی وجہ سے قومی سطح پر زبان کی اصلاح ہوئی اور کئی ایسے الفاظ جو عام طور پر غلط بولے جاتے تھے، درست بولے جانے لگے مثلاً قیام پاکستان سے پہلے پورے برصغیر میں ”عِصْمَت“ کا تلفظ بالعموم ”عَصْمَت“کیاجاتا تھا مگر ریڈیوپاکستان کی جانب سے اصلاح زبان کے اہتمام نے اس باریک غلطی کو بھی اس طرح درست کردیا کہ اب کوئی بھی اس لفظ کو عین پر زبر کے ساتھ نہیں بولتا۔ اسی طرح ہندوستان کے بعض علاقوں میں خِدمت کے بجائے خِذمت،وَقت کے بجائے وَخَتْ، پچھتاناکے بجائے پستانا وغیرہ بولا جاتا تھا مگر ریڈیو کے تحت اصلاح زبان کے اہتمام نے ان تمام الفاظ کے غلط تلفظ کا مکمل طور پر خاتمہ کردیا۔ سرکاری ٹی وی پر بھی شروع میں زبان کی صحت کا بڑااہتمام ہوتا تھا ۔ضیاء محی الدین، افتخار عارف، عبید الله بیگ، قریش پور اور غازی صلاح الدین جیسے فضلاء پروگراموں کے میزبان ہوتے تھے جبکہ اداکاروں میں قربان جیلانی، سبحانی بایونس، قاضی واجد ، عرش منیر اور عظمیٰ گیلانی وغیرہ جیسی درست زبان بولنے والی شخصیات شامل ہوا کرتی تھیں۔یوں ریڈیو اور ٹی وی کے پروگرام اپنے سامعین اور ناظرین کے لئے معلومات میں اضافے اور تفریح طبع کے ساتھ ساتھ زبان کی اصلاح کا ذریعہ بھی بنتے تھے مگر اب سرکاری ٹی وی میں یہ اہتمام باقی نہیں رہا جبکہ نئے نئے چینلوں کی بہار میں تو زبان کی صحت کے حوالے سے معاملات بالکل ہی بے لگام ہوچکے ہیں۔
سوچنے کی بات ہے کہ کیا زبان کی درستی کی کوئی پروا کئے بغیر جو کچھ ہورہا ہے اسے فطری ارتقاء تسلیم کرکے یوں ہی جاری رہنے دیا جائے یا اس ضمن میں نگرانی کا کوئی نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے؟ … اس سوال پر دانشوروں اور صحافیوں کی تنظیموں کو غور کرنا چاہئے۔ انجمن ترقی اردو اور مقتدرہ قومی زبان اگر کہیں موجود ہیں تو انہیں بھی اس بارے میں سوچنا چاہئے۔ ہمارے خیال میں یہ مشکل نہیں کہ مستند ادیبوں اور اردو کے لائق اساتذہ پر مشتمل ایک نگراں ادارہ اس مقصد کے لئے قائم کردیا جائے جو خود بھی لکھی اور بولی جانے والی زبان پر نگاہ رکھے اور حسب ضرورت اصلاح کرتا رہے اور ضرورت پڑنے پر اس نگراں ادارے سے رہنمائی حاصل کی جا سکے۔ یہ ادارہ سرکاری کے بجائے نجی شعبے کے تحت یا اس کی معاونت اور شرکت کے ساتھ قائم کیا جائے تو امید ہے کہ زیادہ موٴثر ہوگا۔ ہماری رائے میں یہ قومی زبان کا حق ہے اور اسے ادا نہ کرنا اس کے ساتھ کھلا ظلم ہے۔
ایک اور مسئلہ مختلف غیرملکی ناموں کے درست نہ لکھے جانے کا ہے مثلاًبین الاقوامی جوہری توانائی کمیشن کے سابق سربراہ کا اصل نام محمد البرادعی ہے جسے بالعموم البرادی لکھا جاتا رہا ہے۔اسی طرح سٹیلائٹ موبائل فون بنانے والی ایک عرب کمپنی کا نام اردو میں التھورایا لکھا جاتا ہے جبکہ اس کا اصل نام الثریا ہے کیونکہ یہ لفظ اردو میں انگریزی سے آیا ہے اور عربی قاعدہ کے مطابق انگریزی میں ث کی آواز کے لئے th لکھتے ہیں، اس لئے ثریا، تھورایا بن گیا ہے۔البرداعی کا بھی یہی معاملہ ہے۔ یہ بھی اردو میں عربی کے بجائے انگریزی سے آیا اس لئے البرادی بن گیا لیکن انٹرنیٹ، ویب سائٹوں اور تمام زبانوں کے ٹی وی چینلوں کے موجود ہونے کی وجہ سے ایسی غلطیوں سے بچنا اب بہت آسان ہوگیا ہے، ضرورت بس تھوڑی سی تلاش و جستجو کی ہے ۔ یہ سطور اپنی اصلاح آپ کے جذبے کے تحت لکھی گئی ہیں ، ان سے کسی کی تنقیص مقصود نہیں۔
تازہ ترین