• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سکاٹ لینڈ کی ڈائری۔۔۔۔۔ طاہر انعام شیخ
برطانیہ اس وقت اپنی جدید تاریخ کے سب سے بڑے سیاسی بحران میں ہے، بریگزٹ نے عوام اور پارلیمنٹ دونوں کو بُری طرح تقسیم کر رکھا ہے۔ وزیراعظم تھریسا مے کی حکومت نے یورپی یونین سے نکلنے کے لئے جس پلان پر دو سال تک دن رات کام کیا، اسے پارلیمنٹ میں1920کے بعد بدترین حکومتی شکست ہوئی، آرٹیکل50کے تحت29مارچ یورپی یونین سے نکلنے کی آخری تاریخ ہے، اگر موجودہ بحران جاری رہتا ہے تو برطانیہ کو مقررہ تاریخ تک کسی ڈیل نو ڈیل کے ساتھ معاملات طے کرنا ہوں گے۔ تھریسا مے نے اپنے پلان کی پارلیمانی شکست کو تسلیم کرلیا ہے اور اب انہوں نے پارلیمنٹ کی تمام پارٹیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ قومی مفاد میں آگے آئیں تاکہ بریگزٹ کو کسی منطقی انجام تک پہنچایا جاسکے اور پھر اس B پلان کو وہ29جنوری کو پارلیمنٹ کے سامنے دوبارہ منظوری کے لئے پیش کریں گئے۔ بریگزٹ کے حامیوں کا دبائو ہے کہ حکومت بغیر کسی ڈیل کے یورپ سے باہر نکل آئے کیونکہ برطانوی عوام نے ریفرنڈم میں اپنا فیصلہ یہ دیا تھا لیکن نو ڈیل بریگزٹ کو اب صرف انتہائی بائیں بازو کے گروپ کے موقف کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جن کے دماغوں میں ابھی تک اس برطانیہ خطے کا تصور ہے جس پر کبھی سورج غروپ نہیں ہوتا تھا، یہ گروپ سمجھتا ہے کہ یورپ میں رہنے کی صورت میں ہم اپنا مخصوص برطانوی تشخیص کھوبیٹھیں گے، ہمارا پونڈ کمزور یہاں تک کہ وقت کے ساتھ ساتھ ختم بھی ہوسکتا ہے، لندن کا فنانشل سنٹر جو دنیا کے سب سے بڑے مالی مراکز میں ہے، فرینکفرٹ یا ایمسٹردیم اس کی حیثیت کو کمزور کر دیں گے، ماضی میں برطانیہ نے دنیا بھر میں کار ہائے نمایاں انجام دیئے تھے۔ نپولین کو شکست دی، ٹیلر کو شکست دی اور دنیا میں بے شمار سائنسی ایجادات کی، ہم دوبارہ ایسا کرسکتے ہیں، اس موقف کو امریکی بائیں بازور کی حمایت بھی حاصل ہے جو یورو کو ڈالر کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں، یورپ کے ساتھ رہنے یا اس کے ساتھ کسی قسم کی ڈیل مثلاً کسٹمز یونین اور سنگل مارکیٹ میں رہنے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے، وقت کی قوتیں بدل چکی ہیں، عملی حقیقتیں کچھ اور ہیں اب ہم پرانے خواب دیکھنے چھوڑ دیں اور یورپ کے ساتھ مل کر کام کریں، بریگزٹ کے بعد جو صورت حال بنی ہے، بے یقینی پیدا ہوئی ہے اس نے عوام کی رائے کو تبدیل کر دیا ہے۔ ایک تازہ ترین سروے کے مطابق اب پوزیشن یہ ہے کہ اگردوبارہ ریفرنڈم ہو تو یورپی یونین کے حق میں12فیصد زیادہ ووٹ پڑیں گے۔ اپوزیشن کی پارٹیاں سکاٹش نیشنل پارٹی، لبرل ڈیمو کریٹ، پلیڈ سائمرو وغیرہ دوسرے ریفرنڈم کے حق میں ہیں اور ان کو کنزرویٹو اور لیبر پارٹی کے بعض ممبران کی حمایت بھی حاصل ہے، لیبر پارٹی کے چیئرمین کا فی الحال مطالبہ نئے الیکشن کا ہے، جسے جیت کر وہ برسلز کے ساتھ نئے مذاکرات کریں گے لیبر پارٹی کے لیڈر جیرمی کوربن نے تھریسا مے کے ساتھ اس وقت تک نئے مذاکرات میں شمولیت سے انکار کر دیا ہے جب تک کہ وہ نو ڈیل بریگزٹ کے خلاف گارنٹی نہیں دیتی، اگر حکومت اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتی تو وہ نئے ریفرنڈم پر بھی رضا مند ہوسکتے ہیں، اگرچہ لیبر کے ممبران کی اکثریت یورپی یونین کے حق میں ہے لیکن لیڈر جیرمی کوربن اس بارے میں چند تحفظات رکھتے ہیں، وہ برسر اقتدار آ کر چند برطانوی اداروں اور صنعتوں کو قومی ملکیت میں لینا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یورپی یونین کی مکمل ممبر شپ اس سلسلہ میں رکاوٹوں کا باعث بن سکتی ہے، وہ یورپ سے کسٹمز یونین وغیرہ کا معاہدہ چاہتے ہیں، سکاٹش نیشنل پارٹی کی اگرچہ پہلی ترجیح برطانیہ سے آزاد ایک ایسے سکاٹ لینڈ کا قیام ہے جو یورپی یونین کا مکمل ممبر ہو لیکن فی الحال وہ شدت کے ساتھ برطانیہ کے یورپی یونین کے طور سے ممبر رہنے کے حق میں ہیں۔ واضح رہے کہ سکاٹ لینڈ کے عوام نے بھی بھاری اکثریت کے ساتھ یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے حق میں ووٹ دیئے تھے موجودہ صورتحال میں اس بات کا امکان ہے کہ اب حکومت آرٹیکل 50جو کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے متعلق ہے، سابق وزیراعظم گورڈن برائون کی تجویز کے مطابق شاید اس میں ایک سال کی توسیع کر دے تاکہ عوام ٹھنڈے دل کے ساتھ تمام معاملات کا ایک بار پھر جائزہ لے سکیں اور ممکن ہے کہ سال کے آخر میں اس بارے میں نیا ریفرنڈم کروا دیا جائے۔
تازہ ترین