لاہور،رینالہ خورد(نمائندگان جنگ،مانیٹر نگ سیل ، خبر ایجنسیاں) سانحہ ساہیوال کا مقدمہ 16 اہلکاروں کیخلاف درج کرلیا گیا، وزیر قانون پنجاب نے ڈرائیور کو دہشتگرد قراردیتے ہوئے کہا کہ آپریشن ٹھوس شواہد اور مکمل معلومات کی بنیاد پرکیا گیا، ساہیوال کے قریب کار کو روکا تو فائرنگ کا تبادلہ ہوا،کارروائی کیلئے سی ٹی ڈی نے آبادی سے باہر نکلنے کا انتظار کیا،ذیشان سےرابطے میں موجود دہشتگردوں نے گوجرانوالہ میںخود کودھماکے سے اڑالیا ،بدقسمتی سے خلیل فیملی کی قیمتی جانوں کے ضیاع کی وجہ سے اس آپریشن کی حیثیت چیلنج ہو گئی ،متاثرہ خاندان کو2کروڑامداددی جائیگی،دوسری جانب ذیشان کے ورثا نے احتجاج کرتے ہوئے حکومت سے دہشت گردی کاالزام واپس لینے اورراجہ بشارت کےاستعفے کا مطالبہ کیا ہے۔ ادھر وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ساہیوال واقعے میں خوفزدہ سہمے ہوئےبچوں کو دیکھ کر ابھی تک صدمے میں ہوں جن کے ماں باپ کو ان کے سامنے گولیوں سے مار دیا گیا، تحقیقاتی رپورٹ کے بعد سخت کارروائی ہوگی،انہوں نےکہا کہ حکومت بچوں کی کفالت کریگی، ادھر زخمی تینوں بچے لاہورمنتقل کردیئے گئے۔تفصیلات کےمطابق ساہیوال واقعے کا مقدمہ سی ٹی ڈی کے16 اہلکاروں کے خلاف درج کرلیا گیا،وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ساہیوال کے واقعہ میں جاں بحق خلیل کے خاندان کے لیے دو کروڑ روپے کی مالی امداد کا اعلان کیا اور کہا کہ ذمہ داران کے خلاف قانون کے تحت کارروائی ہوگی اور انصاف کے کٹہرے میں لائیں گےجبکہ بچوں کے تمام تر تعلیمی اخراجات بھی پنجاب حکومت اٹھائے گی،راجہ بشارت نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ سی ٹی ڈی کے موقف کے مطابق پہلا فائر کار کے ڈرائیو ذیشان نے کیا جبکہ لواحقین کا موقف اس سے مختلف ہے لہٰذا حقائق کا تعین جے آئی ٹی کرے گی ، جاں بحق خلیل کی فیملی کی درخواست پر اس واقعے کی ایف آئی آر نمبر 33/19 تھانہ یوسف والہ میں درج ہو چکی ہے،سی ٹی ڈی کے موقف کے مطابق یہ آپریشن سو فیصد انٹیلی جنس پر مبنی ٹھوس شواہد اور مکمل معلومات کی بنیاد پر کیا گیا،ذیشان کچھ عرصے سے داعش کے ایک خطر ناک نیٹ ورک کے ساتھ کام کر رہا تھا جو ملتان میں آئی ایس آئی کے افسران کے قتل ، علی حیدر گیلانی کے اغواء اور فیصل آباد میں دو پولیس افسران کے قتل میں ملوث ہے، ان دہشت گردوں نے ملتان میں آئی ایس آئی کے افسران کے قتل میں ایک سلور رنگ کی ہنڈا سٹی کار استعمال کی تھی جس کی تلاش پولیس اور ایجنسیاں کر رہی تھی، 13جنوری کو وہی ہونڈا سٹی کار دہشت گردوں کو لے کر ساہیوال گئی ، جب سیف سٹی کی کیمروں کی مدد لی گئی تو پتہ چلا کہ ذیشان کی کار سفید آلٹوبھی دہشت گردوں کی کارہونڈا سٹی کے ساتھ تھی چنانچہ ایجنسیوں کے لوگ کیمروں کی مدد سے ٹریک کرتے ہوئے ذیشان کے گھر تک پہنچ گئے اور اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ ذیشان دہشت گردوں کے ساتھ کام کر رہاہے۔سی ٹی ڈی کی رپورٹ کے مطابق ذیشان کے گھرمیں بڑی مقدار میں گولہ بارود موجود تھالہٰذا وہاں آپریشن کرنا مناسب نہ تھا، 19جنوری کو سیف سٹی کیمرے نے ذیشان کی سفید آلٹو کار کو مانگا کے مقام پر ساہیوال کی طرف جاتے ہوئے دیکھاگیا جس کی اطلاع ایجنسیوں کو کر دی گئی،سی ٹی ڈی کی ٹیم کو کہا گیا کہ گاڑی کو روکا جائے کیونکہ انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق دہشت گرد گاڑی میں گولہ بارود لے کر جا رہے تھے،چنانچہ جب ساہیوال میں گاڑی کوروکا گیا تو وہاں پر فائرنگ ہو گئی،گاڑی کے شیشے کالے تھے اور پچھلی سیٹ پر لوگ نظر نہیں آ رہے تھے اس گاڑی کو ذیشان خود چلا رہاتھا،ذیشان کی گاڑی سے 2خود کش جیکٹس ،8گرنیڈ ، 2پستول اور گولیاں برآمد ہوئیں،جے آئی ٹی اس بات کابھی تعین کرے گی کہ ذیشان یہ اسلحہ کہا ں اور کس کیلئے لے کر جا رہا تھا اور یہ کہ اس کا خلیل کی فیملی کے ساتھ کیا تعلق تھا ۔راجہ بشارت نے بتایا کہ سی ٹی ڈی کے مطابق ذیشان کے گھر پر موجود دو دہشت گردوں نے سوشل میڈیا پر اس واقعہ کی خبر دیکھی تو دونوں گھر سے نکل کر گوجرانوالہ چلے گئے ،ایجنسی نے ان دہشت گروں کو ٹریک کیا اور گوجرانوالہ میں ایجنسی اور سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے دہشت گردوں کو گھیرے میں لے لیاجس پر دونوں نے اپنے آپ کو خود کش جیکٹوں کے ذریعے اڑا لیا۔صوبائی وزیر نے کہا کہ یہ آپریشن انٹیلی جنس کی بنیاد پر کیا گیا جس کی وجہ سے بہت سے معصوم شہریوں کی جانیں بچا لی گئیں ،ذیشان ساہیوال میں مارا گیا جبکہ اس کے ساتھی دہشت گرد عبد الرحمن اور کاشف گجرانوالہ میں اسی روز شب گیارہ بجے مارے گئے جو اسی آپریشن کا تسلسل تھا،بد قسمتی سے خلیل کی فیملی کے قیمتی نقصان کی وجہ سے اس آپریشن کی حیثیت متنازع ہو گئی ہے تا ہم انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو متاثرہ خاندان سے دلی ہمدردی ہے اور ریاست اس خاندان کی کفالت میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی اور متاثرین کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔ادھر وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر پیغام میں کہا کہ جو بھی والدین یہ تصور کریں کہ ان کے بچے اس ذہنی کیفیت سے دوچار ہوں تو وہ یقیناً صدمہ محسوس کریں گے ۔