• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ سائیں نے مجھے مخلص اور بے لوث دوستوں سے نوازا ہے۔ وہ سب مشکل کی گھڑی میں میرے کام آتے ہیں۔ مشکل کی گھڑی میں میری گھڑی بھی مجھے مشکل میں ڈال دیتی ہے۔ مگر میرے دوست کبھی پیچھے نہیں ہٹتے۔ آپ یہ مت سوچئے گا کہ پیچھے ہٹنے کے لئے میرے دوستوں کا ریورس گیئر خراب ہوگیا ہے۔ میرے مخلص دوست میری طرح بوڑھے ہیں بوڑھے آدمی پیچھے نہیں ہٹتے۔ وہ آگے بڑھتے جاتے ہیں، اور ایک روز غائب ہوجاتے ہیں۔ میرے ایک مخلص دوست کا نام ہے ولی محمد… میں نے اپنی کلائی کی گھڑی ولی محمد کو دیتے ہوئے کہا ’’ولی بھائی، یہ گھڑی بڑی قیمتی ہے۔ سنبھال کر رکھنا‘‘۔

ولی محمد نے احتیاط سے گھڑی درازمیں رکھتے ہوئے پوچھا ’’کیا بات ہے بالم بھائی… تم آج کل اپنی قیمتی اشیاء دوستوں کے ہاں چھپاتے ہو؟‘‘

’’عجلت میں ہوں۔ پھر کبھی بتائوں گا‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’دیگر کچھ قیمتی چیزیں دوستوں کے ہاں رکھنے جارہا ہوں‘‘۔

اب میں ولی محمد کو کیا بتاتا کہ میری قیمتی اشیاء میرے لئے وبال جان بنتی جارہی ہیں۔ میرے دوست اور دشمن سمجھتے ہیں کہ میں بڑا ہی سادہ سا شخص ہوں۔ نمود و نمائش پر یقین نہیں رکھتا۔ اس لئے میرے محلے اور اڑوس پڑوس کے لوگ نہیں جانتے کہ میرے پاس قیمتی اور بیش بہا اشیاء ہیں۔ میرے دوستوں اور دشمنوں کا تاثر غلط ہے… اصل میں، میں کنجوس مکھی چوس قسم کا آدمی ہوں۔ اوپر سے ڈرپوک بھی اول نمبر کا ہوں۔ خستہ حال دکھائی دیتا ہوں۔ ایک کمرے کے پھٹیچر گھر میں رہتا ہوں دوسری جنگ عظیم کی زنگ آلود مخدوش موٹر سائیکل چلاتا ہوں۔ آپ چاہے کتنے ہی ہوشیار اور کائیاں کیوں نہ ہوں، مجھے دیکھ کر آپ میری مالی حالت کا قطعی اندازہ نہیں لگا سکتے۔ کچھ پڑوسی مستحق سمجھ کر مجھے زکوٰۃ بھی دیتے ہیں۔ مگر ہمارے ملک میں دور رس نگاہ رکھنے والے کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو وہ سب کچھ دیکھتے ہیں، جو آپ اور میں نہیں دیکھ سکتے۔ ایسے ہی ایک دور رس نگاہ رکھنے والے ایک سیانے کی نظر میری کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی پر پڑ گئی۔ اس وقت میں کراچی کینٹ ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک ڈھابے کے باہر بینچ پر بیٹھا ہوا چائے پی رہا تھا اور غور سے گزرے ہوئے زمانوں کے کالے انجن کی طرف دیکھ رہا تھا۔ نمائش کے لئے رکھے ہوئے انجن کو دیکھ کر ہم بڈھوں کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔ برصغیر میں ریلوے سروس کا آغاز انگریز نے کیا تھا۔ انگریز کو برصغیر سے رخصت ہوئے اکہتر برس گزر گئے ہیں۔ ان اکہتر برسوں میں سرکار نے بچھی ہوئی ریل کی پٹریوں میں ایک انچ اضافے کے بجائے اندرون پاکستان کے کئی شہروں کو ریلوے سروس سے محروم کردیا ہے۔ ریلوے انجن اکہتر برس پہلے بیرونِ ملک سے آتے تھے۔ اکہتر برس بعد بھی ریلوے انجن باہر سے آتے ہیں۔

کراچی کینٹ اسٹیشن کے بیرونی پھاٹک کے قریب نمائش کے لئے رکھے ہوئے انجن کی طرف دیکھتے ہوئے میں گزرےہوئے وقتوں کی یاد تازہ نہیں کررہا تھا۔ میں ہزاروں ٹن وزنی لوہے کے انجن کو وہاں سے غائب کرنے کی ترکیب سوچ رہا تھا۔ چیزیں غائب کرنے میں، میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ کوئی نہ میرا ثانی ہے اور نہ میں کسی کا ثانی ہوں۔ میں نے کراچی سے ایسی ایسی چیزیں غائب کر دی ہیں جن کا آج تک کسی کو نام و نشان نہیں ملتا۔ مثلاً کراچی شہر میں پھیلا ہوا اور کراچی کو جوڑ کر رکھنے والا ٹرام کا نظام۔ کہاں گیا کراچی سے ٹرام کا نظام؟ میں نے غائب کردیا تھا،ٹرام کی پٹڑیوں کو اور ٹرام کے ڈبوں کو۔ میں خوامخواہ اپنے کارناموں کی تشہیر نہیں کرتا۔ اگر ایک مرتبہ کچھ کر گزرنے کی ٹھان لوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت مجھے کام سرانجام دینے سے روک نہیں سکتی۔ میں نے ٹھان لیا کہ کچھ دنوں بعد‘ گئے وقتوں کا ریلوے انجن پھر کبھی کسی کو دکھائی نہیں دے گا۔

تب کسی نے میرے کان میں سرگوشی کی ’’تمہاری کلائی پر باندھی ہوئی گھڑی بڑی قیمتی لگتی ہے‘‘۔

میں نے پلٹ کر سرگوشی کرنے والے شخص کی طرف دیکھا۔ وہ ایک خرانٹ قسم کا دبلا پتلا شخص تھا۔ میں نے کہا ’’پرس اور موبائل چھیننے والے بہت دیکھے ہیں۔ تم کیا قیمتی گھڑیاں چھینتے ہو؟‘‘

’’میں کیا کرتا ہوں، اس بات کو چھوڑو‘‘۔ خرانٹ نے کہا ’’یہ بتائو کہ قیمتی گھڑی تمہارے پاس کہاں سے آئی ہے؟‘‘

’’نہ اڑ کر آئی ہے، اور نہ چل کر‘‘۔ میں نے بناوٹی رعب سے کہا۔ ’’کیا اس گھڑی کے گم ہونے کی کسی نے تھانے پر رپورٹ درج کروائی ہے؟‘‘

’’زیادہ مت بولو، ورنہ بولنا بھول جائو گے‘‘۔ خرانٹ نے کہا۔ ’’کیا یہ گھڑی تم نے خریدی ہے؟‘‘۔

میں ڈر گیا۔ میں نے کہا۔ ’’جی ہاں! یہ گھڑی میں نے خریدی ہے‘‘۔

خرانٹ نے پوچھا۔ ’’اس قدر قیمتی گھڑی خریدنے کے لئے تمہارے پاس پیسے کہاں سے آئے؟‘‘

میں نے ڈرتے ڈرتے کہا ’’بھائی، میں نے نہ ڈاکہ ڈالا ہے اور نہ کوئی بینک لوٹا ہے‘‘۔

’’کوئی چھپر پھٹا تھا تمہارے لئے؟‘‘ خرانٹ نے کہا۔ ’’سیدھے سیدھے بتائو۔ ورنہ پوچھنے کے دوسرے طریقے بھی ہمیں آتے ہیں۔ کہاں سے آئی ہے اتنی دولت تمہارے پاس؟‘‘

میں خرانٹ کو کیا بتاتا کہ کھڑے کھڑے چیزیں غائب کرنے میں، میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ میں کوٹھیاں، کارخانے، کاروبار، زمین، پیٹرول پمپ غائب کرسکتا ہوں۔ میں نے خرانٹ سے کہا۔ ’’سر، میں جواری ہوں۔ لاس اینجلس اور لاس ویگاس میں جوا کھیلتا ہوں اور گوروں کو چوپٹ کردیتا ہوں۔ میرے پاس جوے میں جیتی ہوئی بے انتہا دولت ہے‘‘۔

خرانٹ نے پوچھا، ’’ٹیکس دیتے ہو؟‘‘

میں نے کہا۔ ’’میں حرام کی کمائی سے ٹیکس دے کر لوگوں کی حلال کی کمائی سے جمع ہونے والا حلال ٹیکس آلودہ کرنا نہیں چاہتا‘‘۔

خرانٹ نے کہا۔ ’’تو تم اعتراف کرتے ہو کہ یہ گھڑی تم نے جائز کمائی سے نہیں خریدی ہے‘‘۔

’’سر، میں چوری نہیں کرتا، ڈاکے نہیں ڈالتا۔ میرے پاس چیزیں غائب کرنے کا ہنر ہے‘‘۔ میں نے گڑگڑاتے ہوئے کہا۔ ’’اور جوا میں پاکستان سے دور باہر کے ممالک میں کھیلتا ہوں‘‘۔

خرانٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔ ’’چونکہ یہ گھڑی تم نے حلال پیسے سے نہیں خریدی ہے، اس لئے ہم تمہاری گھڑی ضبط کرتے ہیں، اور تمہیں جانے دیتے ہیں‘‘۔

کلائی سے اتار کر گھڑی میں نے ان کے حوالے کردی۔ انہوں نے مجھے جانے دیا۔ میری پاس ایک اور قیمتی گھڑی گھر پر پڑی ہوئی تھی۔ وہ گھڑی میں نے ولی محمد کو سنبھال کر رکھنے کے لئے دے دی۔

تازہ ترین