• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سانحہ ساہیوال پر پوری قوم سوگوار ہے اور پولیس اور کائونٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی پیشہ ورانہ تربیت، اہلیت اور کارکردگی کے حوالے سے ایسے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جن کا فی الوقت حکومت کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہے ،البتہ توقع ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے پر کچھ حقائق پر سے پردہ ضرور اٹھ جائے گا۔ ابتدائی تفتیش میں سی ٹی ڈی اہلکاروں کو واقعہ کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے اور بعض کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ پنجاب حکومت نے متاثرہ خاندان کے لئے دو کروڑ روپے کی مالی امداد کا اعلان کیا ہے۔ مقتولین کے بچوں کی کفالت حکومت کی ذمہ داری ہو گی۔ ان کے تعلیمی اخراجات بھی وہی برداشت کرے گی، خاندان کو فری میڈیکل سہولت بھی حاصل ہو گی۔ وزیراعظم عمران خان بھی اس المناک واقعے پر دکھی ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے عوام کے غم و غصے کو جائز قرار دیا ہے اور یقین دلایا ہے کہ واقعے کے ذمہ داروں کو مثالی سزا ملے گی۔ عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے بھی پولیس میں اصلاحات لانے پر زور دیتے رہے ہیں اور اب بھی انہوں نے کہا ہےکہ قطر سے واپسی پر وہ پنجاب پولیس کے پورے ڈھانچے کا جائزہ لینے کے بعد اس میں اصلاحات کا عمل شروع کریں گے۔ پولیس اصلاحات وقت کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت ہر جعلی پولیس مقابلے اور ہر ایسے واقعے کے بعد شدت سے محسوس کی جاتی ہے، جس میں پولیس کے جانبدارانہ رویے اور متشددانہ کارروائی کا عنصر نمایاں نظر آتا ہو۔ ساہیوال کے سانحے سے پہلے بھی ایسے افسوسناک واقعات بار بار پیش آتے رہے ہیں۔ سی ٹی ڈی، سی آئی ڈی کا نعم البدل ہے ۔یہ اصل میں پولیس ہی کا حصہ ہے لیکن دہشت گردی کے خلاف زیادہ موثر بنانے کے لئے اس کا تنظیمی ڈھانچہ الگ کر کے اسے براہ راست وزیراعلیٰ کو جوابدہ بنایا گیا تاہم یہ آئی جی پولیس کو بھی جواب دہ ہے۔ سی ٹی ڈی اہلکاروں کی خصوصی تربیت کے لئے مسلح افواج کے علاوہ غیر ملکی ٹرینرز کی خدمات بھی حاصل کی گئیں۔ اسے جدید ترین اسلحہ اور بھرپور وسائل فراہم کئے گئے۔ بجٹ بھی الگ کر دیا گیا۔2017-18میں اس کے لئے صوبائی بجٹ میں پونے پانچ ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی۔ اس جدید فورس نے دہشت گردی کے کئی نیٹ ورک پکڑے اور کئی وارداتیں ناکام بنائیں لیکن اس پر بے گناہ لوگوں کو غائب کرنے اور دوسری بے قاعدگیوں کے الزام بھی لگتے رہے۔ ساہیوال کے واقعے نے اس کی ساکھ مزید بگاڑ دی ہے۔ اس واقعہ کے متعلق پولیس نے جو پہلی ایف آئی آر درج کی اس میں مقتول خواتین اور مردوں کو داعش کے خطرناک دہشت گرد قرار دیا گیا۔ واقعے کی ویڈیو کلپس سامنے آنے کے بعد یوٹرن لیتے ہوئے ایک اور ایف آئی آر درج کرائی گئی ،جس میں سی ٹی ڈی کے6اہلکاروں پر یہی الزام لگا کر انہیں قاتل کے طور پر پیش کیا گیا۔ دونوں ایف آئی آرز ایک دوسرے کی ضد ہیں جو پیشہ ورانہ بددیانتی کو ظاہر کرتی ہیں۔ پھر یہ اقدام سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کی خلاف ورزی بھی ہے جس کے تحت ایک ہی واقعے کے بارے میں پہلی ایف آئی آر درج کرنے کے بعد کسی بھی قسم کی دوسری ایف آئی آر درج نہیں کی جا سکتی۔ اس کے علاوہ بھی واقعے کے متعلق سی ٹی ڈی کے بیانات میں واضح تضادات سامنے آئے۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اس سانحے پر شدید احتجاج کیا گیا اور جوڈیشنل انکوائری کے علاوہ تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیٹی قائم کرنے کے مطالبات کئے گئے۔ یہ تمام باتیں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ سانحہ ساہیوال سے سبق سیکھا جائے اور پولیس میں ایسی اصلاحات لائی جائیں کہ آئندہ ایسے روح فرسا واقعات کا اعادہ نہ ہو۔ اب جبکہ وزیراعظم عمران خان پولیس اصلاحات کیلئے پرعزم نظر آتے ہیں اور وزیر اعلیٰ پنجاب بھی پولیس کا رویہ تبدیل کرنے کی وکالت کر رہے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اس معاملے میں مزید تاخیر کی جائے۔ توقع ہے کہ مقتولین کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ لواحقین کو انصاف ملے گا اور اس کے ساتھ ہی حکومت پولیس اصلاحات لانے کے لئے فوری قابل عمل اور موثر اقدامات کرے گی۔

تازہ ترین