کیا بینک کا سُود لینا اور دینا حرام ہے؟ کیا یہ سود وہی ’’رِبا‘‘ ہے جس کو اللہ اور اس کے رسولﷺ نے منع کیا ہے؟ ربا کی حُرمت کی عِلت کیا ہے اور کیا یہ علت آج کے دور کے بینکنگ کے سود کو حرام قرار دینے کا جواز فراہم کرتی ہے؟ اگر بینک کا سود حرام ہے تو کیا اس کا کوئی حقیقی متبادل موجود ہے؟ کیا اسلامی بینک حقیقت میں بِلاسود بینکاری کرتے ہیں یا سود ہی کو ایک مختلف جامہ پہنا کر عربی ناموں سے سامنے لے کر آتے ہیں؟ یہ اور اس طرح کے بہت سے سوالات ہر باشعور مسلمان کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں ۔ علما کی سود پر کی گئی تنقید کا جائزہ لینے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس مسئلے میں مقاصد ِشریعت اور احکام کی روح کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ قرآن و سنت کی اصل علت حرمت، معاشی ظلم، کا تو کہیں خال خال ہی ذکر ملتا ہے۔ شریعت کی روح سے زیادہ اس کے لبادہ کو اہمیت دینے کا ہی نتیجہ ہے کہ ’’اسلامی بینکنگ‘‘ کی صورت میں اجتہادی غلطی کا ایک شاہکار نمونہ سامنے آتا ہے۔ ’’اسلامی بینکنگ‘‘ کا ایک اجمالی جائزہ ہی اس حقیقت کے اظہار کیلئے کافی ہے کہ عملی طور پر سود کا واحد ’’متبادل‘‘ عربی زبان میں مختلف ناموں سے سود ہی ہے۔ اگر سود قرض پر مدت کے لحاظ سے اضافے کا نام ہے تو آپ اس کو مضاربہ کہہ لیں یا مشارکہ، مرابحہ کا نام دے لیں یا اجارہ کا، کیا فرق پڑتا ہے۔ اگر روایتی بینکنگ کا سود اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ جنگ کے مترادف ہے اور جو اضافہ اسلامی بینکنگ میں ہوتا ہے وہ ایک عربی نام اور طریقہ کار میں جزوی تبدیلی سے عین اسلامی بن جاتا ہے تو اہل ایمان کیلئے اس معاملے میں متذبذب ہونا فطری امر ہے اور اس مسئلے کا نئے سرے سے جائزہ لینا ضروری ہو جاتا ہے۔
علما کے موقف میں بنیادی طور پر دو عوامل کارفرما دکھائی دیتے ہیں1۔ قرآن و سنت کے مطابق ربا کی حرمت کا اصل مقصد معاشی ظلم، ناانصافی اور ضرورت مند کے استحصال کو روکنا ہے لیکن علماء نے اس علت حرمت اور اس کے سدباب کے مسئلے پر عمومی طور پر توجہ نہیں دی۔ وہ نہ تو روایتی مالیاتی اور بینکنگ کے نظام میں مجموعی حوالے سے معاشی استحصال کے عناصر شناخت کرسکے ہیں اور نہ ہی اس امر کی وضاحت کرسکے ہیں کہ وہ کون سا مالی ظلم ہے جس کو اسلامی بینکنگ کا نظام روک رہا ہے۔ 2۔ علماء، مہاجنی سود (USURY) اور بینکنگ کے سود (انٹرسٹ) میں جو واضح فرق ہے، کو شاید نہیں سمجھ سکے۔ انٹرسٹ مالیاتی مارکیٹوں میں پیسے کی طلب اور رسد کے باہمی تعامل سے طے ہوتا ہے اور اس کی شرح کے استحصالی ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جبکہ یوزری کی شرح ہمیشہ ظالمانہ حد تک زیادہ ہوتی ہے اور اس کا تعین ضرورت مند کی مالی مجبوری کی شدت سے ہوتا ہے۔ اسلام میں دنیا کے دیگر مذاہب اور تہذیبوں کی طرح اسی یوزری کی ممانعت کی گئی ہے۔ سولہویں صدی عیسوی میں تجارتی مقاصد کیلئے سرمائے کی فراہمی کے عمل اور بینکنگ نے یورپ میں فروغ پانا شروع کیا۔ سترہویں اور اٹھارہویں صدی عیسوی میں صنعتوں اور علم معیشت کی ترقی اور پھیلائو نے تو قرض، سرمائے اور انٹرسٹ کے حوالے سے ماضی کے نظریات تک کو بدل کر رکھ دیا۔ اس تبدیلی کی دو بنیادی وجوہات تھیں۔1۔ قرض ایک مجرد چیز اور محض پیسوں کا لین دین نہ رہا بلکہ اس نے پیداواری عمل میں ایک بنیادی عامل بن کر سرمائے کی شکل اختیار کرلی اور انٹرسٹ کی شرح کا تعین سرمائے کی طلب اور رسد سے وابستہ ہوگیا۔ 2۔ قرض زیادہ تر تجارتی اور صنعتی ضروریات کے لئے لیا جانے لگا۔ ظالم ساہو کار اور مظلوم مقروض والا تعلق اس معاملے میں نہیں چل سکتا تھا۔ مالیاتی مارکیٹوں کے پھیلائو اور استحکام، ریاست کے دائرہ کار میں وسعت اور معاشی اداروں میں اس کے عمل دخل کی وجہ سے نہ تو بینکرز انٹرسٹ کی شرح استحصالی حد تک زیادہ کرسکتے تھے اور نہ ہی تاجر اور صنعتکار متوقع منافع سے زیادہ انٹرسٹ ادا کرنے کیلئے تیار تھے۔
علما کی یہ بے اطمینانی کسی معمولی مسئلے کے بارے میں نہیں کہ جس کو نظر انداز کر دیا جائے اور اسکے صحیح اور غلط ہونے کا فیصلہ وقت پر چھوڑ دیا جائے۔ انٹرسٹ کو حرام سمجھنا اور عملی ضروریات کے تحت انٹرسٹ والے نظام کا حصہ بننا ایک ایسا متضاد رویہ ہے جو کتنے ہی افراد کو ایک ناکرہ گناہ کے احساسِ جرم میں مبتلا کرتا ہے۔ یہ لوگ انٹرسٹ کے عنصر کی وجہ سے اپنی آمدن اور اخراجات کے حلال ہونے کے حوالے سے ایک تشکیک کے زیراثر نفسیاتی حوالے سے ایک ناقابل رشک زندگی گزارتے ہیں۔ اجتماعی حوالے سے بھی اس مسئلے میں یکسوئی نہیں ۔چنانچہ ضروری ہے کہ اس موضوع کا قرآن و سنت اور جدید زندگی کے معاشی حقائق کی روشنی میں ازسرنو جائزہ لیا جائے اور ابہام دور کیا جائے۔بینک کا ادارہ اور سرمائے کی فراہمی کا عمل آج کے دور میں انسان کی بنیادی معاشی ضرورت ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انٹرسٹ کے بغیر مالیاتی مارکیٹیں کام نہیں کر سکتیں اور جدید تہذیب اور مادی ترقی کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ نتیجتاً انٹرسٹ کو ربا کے مترادف سمجھ کر حرام قرار دینے کا مطلب تو پھر یہ لیا جائیگا کہ خدا کے احکامات آج کے دور میں ناقابل عمل ہیں (نعوذباللہ)۔ یقیناً ایسا نہیں تو پھر مسئلے کو سمجھنے میں کسی غلطی کا ارتکاب ہوا۔