بہ لحاظِ رقبہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ، بلوچستان اپنے محلِ وقوع، جغرافیائی اہمیت، قدرتی و معدنی وسائل، ساخت اور متنّوع ثقافتی خدوخال کی وجہ سے ہمیشہ توجّہ کا مرکز رہا ہے۔ تاہم، یہاں کے لوگ نیم صحرائی زمینی ساخت اور کم بارشوں کی وجہ سے اکثر خشک سالی اور قحط کی صورت حال سے دوچاررہتے ہیں۔اگرچہ یہاں کے بلند و بالا پہاڑ قدرت کے انمول معدنی وسائل سے مالا مال ہیں۔تاہم، اس قدر قدرتی و معدنی وسائل رکھنے کے باوجود اس خطّے کے لوگ غربت کی لکیرسے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور770کلومیٹر طویل ساحلی پٹّی کے حامل اس خطّے کے لوگوں کی زندگی میں خوش حالی نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔البتہ چند برسوں سے ’’سی پیک ‘‘ کے حوالے سے بڑی شدّومد سے باتیں ہورہی ہیں ، لیکن یہاں بھی یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان اربوں ڈالر کے منصوبوں سے بلوچستان کے عوام کو کیا فوائد حاصل ہوں گے؟
صوبائی حکومتوں کے اتفاقِ رائے کے بعدوفاقی حکومت کی جانب سےستمبر 1995ء میں نیشنل منرل پالیسی کا اجراء کیا گیا، لیکن کئی برس گزرنے کے باوجود اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا، تو مشرف دورِ حکومت میں اکتوبر 1999ء میں مذکورہ پالیسی کے حوالے سے اقدامات کا آغاز کیا گیا، تاکہ اس پر عمل درآمد سے معدنیات کے شعبے میں بیرونی سرمایہ کاری کو ترغیب مل سکے۔اس حوالے سے بعض کام وفاق اور بعض صوبوں کو سونپے گئے۔ جن میں معدنی سرمایہ کار سہولت کار اتھارٹی کی تنظیمِ نو، معدنیات کی تلاش اور اس کے لیے لائسینس کے اجراء کا طریقۂ کار وضع کرنا، صوبوں میں مائنز اور منرلز محکمے کا قیام اور اس کے لیے قوانین کے اجرا ءسمیت سیکرٹری اور ڈائریکٹر جنرل ٹیکنیکل کی تقرری، صوبے میں تین ڈویژنل ہیڈز کی تقرری، آپریشنل اسٹاف کی بھرتی اور مائن اور منرلز کے شعبے کے لیے تزویراتی حکمتِ عملی کی ترتیب شامل تھے۔ اس حوالے سے زیادہ تر کام صوبے کی جانب سے کیا گیا۔جس کے بعد قومی منرل پالیسی پر 8مارچ 2002ء سے عمل درآمد شروع ہوا اورجو کام کیے گئے، اُن میں مائنز و منرل کے لیے علیٰحدہ محکمے کا قیام، سیکرٹری کی تقرری، متعلقہ محکموں کی وساطت سے ون ونڈو سروس کے تحت مائننگ انڈسٹری کو سہولتیں مہیّا کرنے کے علاوہ ڈائریکٹریٹ جنرل، مائنز و منرل، انسپکٹریٹ آف مائنز اور لیبر ڈیپارٹمنٹ کے مائنز و یلفیئر ونگ کا قیام شامل تھے۔
قومی منرل پالیسی ہی کی روشنی میں بلوچستان منرل رولز 2002ء کا بھی اجراء کیا گیا۔واضح رہے کہ بلوچستان میں کوئلہ، تانبا، سونا، خام لوہا اور ماربل (اونیکس) ماربل (آرڈینری) کرومائیٹ، بیرائیٹ، لائم اسٹون، گرینائیٹ سمیت 20دیگر قیمتی معدنیات کے علاوہ تیل اور گیس کے بھی وسیع ذخائر موجود ہیں۔علاوہ ازیں، سوئی کے علاوہ لوٹی کے مقام سے بھی گیس حاصل کی جارہی ہے۔ بلوچستان میں بیرونی سرمایہ کاری سے فی الوقت تین بڑے معدنی منصوبوں پر کام ہورہا ہے۔ جن میں ضلع چاغی میں سینڈک اور ریکوڈک کے تانبے اور سونے کی تلاش اور اسے بروئے کار لانے کے منصوبے اور ضلع لسبیلہ میں دُدرخام لوہے کا منصوبہ شامل ہیں۔ تاہم، ان منصوبوں میں تعطّل، منرل پالیسی کے تحت صوبوں کو رائلٹی، لیزنگ اور ٹیکس کی مد میں ان کے محدود حصّے کی وجہ سے خاطر خواہ آمدنی نہیں ہوپارہی ہے۔ رپورٹس کے مطابق، دنیا میں سونے اور چاندی کا دوسرا بڑا ذخیرہ بلوچستان کے ضلع چاغی میں ریکوڈک میں پایا جاتا ہے، جب کہ چاغی کے بہ ظاہر خشک اور سنگلاخ پہاڑوں میں ایک کروڑ 23لاکھ ٹن تانبے اور دو کروڑ 9 لاکھ اونس سونے کے ذخائر موجود ہیں۔ ماہرین کے مطابق، ریکوڈک میں 58 فی صد تانبے اور 28 فی صد سونے کے ذخائر کی کل مالیت کا اندازہ لگ بھگ 65 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ 1993ء میں بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ، نواب ذوالفقار علی مگسی نے منصوبے کا ٹھیکہ آسٹریلوی کمپنی BHPکو دیا، لیکن بعدازاں بے قاعدگیوں کی وجہ سے منسوخ کردیا۔ پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں’’ ٹیتھیان کاپر کمپنی ‘‘ اور چلّی کی ایک کمپنی کو ٹھیکہ دیا گیا، جو مائننگ لائسنس کے ساتھ ساتھ 75فی صد آمدنی کی حق دار ٹھہریں۔ کمپنی کو ریکوڈک سے ملنے والے سونے اور چاندی کے ذرّات ،پائوڈر کی شکل دے کر پائپ لائن کے ذریعے گوادر لاکر عالمی منڈی میں فروخت کے لیے بھیجے جانے تھے۔ اس معاہدے کے تحت حکومتِ بلوچستان کو 25فی صد آمدنی کی ادائیگی ہونی تھی، لیکن جب پیپلزپارٹی کی حکومت برسراقتدار آئی، تو TCCپر لائسنس کے اجراء کے لیے ٹیتھیان کاپر کمپنی پر سونے اور چاندی کی پراسیسنگ کے لیے ریکوڈک ہی میں ریفائنری لگانے کی شرط رکھ دی گئی اور وفاقی حکومت کے دبائو کے باوجود نواب محمد اسلم رئیسانی نے ٹیتھیان کاپر کمپنی کو لائسنس دینے سے انکار کردیا، جس کے بعد 2010ء میں بلوچستان حکومت نے اس منصوبے پراز خود عمل درآمد کا فیصلہ کیااورمنرل کمپنی ٹیتھیان نے ریکوڈک میں معدنیات کو ڈیولپ کرنے کا معاہدہ کیا، مگر بعد میں بلوچستان ہائی کورٹ نے ریکوڈک کی لیز منسوخ کر دی اور بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی یہ فیصلہ برقرار رکھا، تومذکورہ کمپنی نے انٹر نیشنل سینٹر برائے ریزولو شن آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس کے بین الاقوامی ادارے میں ہرجانے کا دعویٰ دائر کردیا۔دعوے میں کہا گیا تھا کہ ریکوڈک سے کان کنی میں اس کے کم و بیش تین ارب ڈالرز خرچ ہوئے ہیں اور یہ رقم حکومتِ پاکستان ادا کرے۔پاکستان نے اپنا موقف اس ثالثی عدالت کے سامنے پیش کیا ، معاملہ عدالت سے باہر نمٹانے کے لیے بارہا کوششیں کی گئیں، مگر معاملہ اب تک سلجھتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ منصوبے کے معاہدے سے باہر کے حصّے پر حکومت نے سعودی عرب کو سرمایہ کاری کی پیش کش بھی کی ہے۔ ریکوڈک کے سونے اور چاندی کے ذخائر 33لاکھ 47ہزار ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ علاقے کی 15مائنز میں سونے اور چاندی کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں اور دو مائنز پر عمل درآمد کے لیے فزیبلٹی رپورٹ بھی تیار کی جاچکی ہے۔جس کے بعد باقاعدہ پیداوار کا آغاز ہونا باقی ہے۔ سابق وزیرِاعلیٰ بلوچستان، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے 2015ء میں اپنی کابینہ کے بعض ممبران اور سرکاری ٹیم کے ساتھ انگلینڈ کا دورہ کیا، تاکہ TCCکے ساتھ عدالت سے باہر معاملہ طے کیا جائے۔ یا نئے سرے سے TCC کے ساتھ کوئی نیا معاہدہ طے کیا جائے، مگر تاحال اس سلسلے میں کوئی مثبت پیش رفت سامنے نہیں آئی۔
اسی طرح ’’سینڈک کاپر گولڈ پراجیکٹ‘‘ بلوچستان میں سونے اور چاندی کا دوسرا بڑا منصوبہ ہے۔ پاک، ایران بارڈر پر سرحدی قصبے، تفتان کے شمال میں سینڈک کے مقام پر دریافت ہونے والے ذخائر میں 40کروڑ ٹن غیر صاف شدہ مواد میں 0.4فی صد (17لاکھ ٹن) تانبا اور 22 لاکھ 40ہزار اونس سونا موجود ہے۔ سینڈک کے مقام پر تانبے کی دریافت 1970ء میں ایک چائنیز انجینئرنگ فرم کے تعاون سے ہوئی،بعدازاں 13.5ملین کے خرچ سے 1995ءکے آخر میں سینڈک میٹلز لمیٹڈ کے توسّط سے سینڈک کا پر گولڈ منصوبے کا آغاز ہوا۔ پاکستان اور چائنا کے درمیان 350ملین امریکی ڈالرز کے سینڈک کاپر گولڈ مائننگ معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ ابتدائی طورپر میٹالرجیکل کارپوریشن آف چائنا لمیٹڈ کو 10سال کے لیے لیز مائننگ کا اختیار دیا گیا، جو چائنا میٹالرجیکل گروپ کارپوریشن کا ذیلی ادارہ تھا۔ 1995ء میں سینڈک منصوبے سے آزمایشی پیداوار کا آغاز ہوا۔ چار ماہ آزمایشی طورپر چلانے سے ماہانہ 17سو ٹن تانبا 6ہزار اونس سونا اور چاندی کی پیداوار ہوئی۔ آزمایشی طور پر پیداوار کے بعد سینڈک میٹلر لمیٹڈ کو اس منصوبے کو آگے بڑھانا تھا، مگر17ارب روپے کی رقم مہیّا نہ کی جاسکی، نتیجتاً منصوبہ کئی سال تک التواء کا شکار رہا۔ واضح رہے کہ 1995ء میں آزمائشی پیداوار کے وقت سینڈک منصوبے سے 1500 ٹن بلسٹر کاپر کی پیداوار حاصل ہوئی۔ حکومت اس منصوبے کے حوالے سے ہر سال تن خواہوں اور مشینری کی مرمت پر 300ملین روپے خرچ کر رہی ہے۔31اکتوبر 2017ء میں لیز ایگریمنٹ ختم ہونے کے بعد اسے توسیع دی گئی، اب چائنیز فرم 30اکتوبر 2022ء تک اس منصوبے پر کام کر سکتی ہے۔ معدنیات کے شعبے میں دیگر دو بڑے منصوبے خضدار ڈویژن میں ’’دلبند آئرن اور‘‘اور’’ ڈدر گنگا، سرمائی لیڈزنک‘‘ ہیں۔ دلبند میں 200ملین ٹن تک کے آئرن کے ذخائر ہیں۔ صوبہ بلوچستان کی حکومت، جو ہمیشہ مالی وسائل کی کمی کا شکار نظر آتی ہے، ان منصوبوں میں حائل رکاوٹوں کو دور کرکے لاکھوں ڈالرز کی آمدنی حاصل کرنے کے قابل ہوسکتی ہے۔ سینڈک منصوبہ اگر پیداوار دے رہا ہے، تو حکومتِ بلوچستان اس کی آمدنی کا فرانزک آڈٹ کر واکر اپنی آمدنی میں اضافہ کر سکتی ہے۔
بہرحال، مشکلات کے باو جود یہ وسا ئل تیز رفتار اقتصادی اورصنعتی ترقی کے فروغ میں بہت اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور اگر توجّہ اور اعتماد کا ماحول پیدا ہوجائے، تو پاکستان معدنی وسائل کی دریافت اور پیداوار کے ذریعے نہ صرف تجارتی خسارے سے نجات حاصل کرسکتا ہے، بلکہ اس کی بدولت غیر مُلکی قرضہ بھی ادا کرسکتا ہے۔اس کے علاوہ مُلک میں دیگر معدنی وسائل بھی دستیاب ہیں۔ جن میں معدنی تیل ایک اہم قیمتی سرمایہ ہے۔ملک میں تیل کے ذخائر بلوچستان کے اکثر علاقوں سمیت سطح مرتفع، پوٹھوہار، کھوڑ، ڈھلیاں، کوٹ میال، ضلع اٹک میں سارنگ، ضلع چکوال میں بالسکر، ضلع جہلم میں جویامیر اور ڈیرہ غازی خان میں ڈھونڈ ک اور سندھ میں بدین، حیدر آباد، دادُواور سانگھڑ کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ تیل اور گیس کی تلاش کے لیے ملک میں تیل اور گیس کی ترقیاتی کارپوریشن(OGDC) قائم کی گئی ہے۔ صنعتوں کو رواں رکھنے کے لیے قدرتی گیس کی ضرورت ہوتی ہے، جو پیٹرول کے مقابلے میں سستی بھی ہوتی ہے۔ملک کی توانائی کا تقریباً35فی صد قدرتی گیس پر منحصر ہے۔ خوش قسمتی سےپاکستان میں گیس کے وسیع ذخائر موجودہیں۔ پاکستان میں قدرتی گیس سب سے پہلے 1951ء میں بلوچستان میں ڈیرہ بگٹی کے قریب’’ سوئی‘‘ کے مقام پر دریافت ہوئی، اس کے بعد سندھ اور پوٹھوہار سمیت 13مقامات میں دریافت ہوئی۔ گیس کے ذخائر کے سب سے اہم مقامات بلوچستان میں سوئی، اوچ، کوئٹہ، لورالائی، ژوب، زیارت، دکی، ہرنائی سمیت سندھ میں خیر پور، مزرانی، سیری، ہنڈ کی اور کندھ کوٹ اور پنجاب میں ڈھوڈک، پیر کوہ، ڈھلیاں اور کوٹ میال شامل ہیں۔ اسی طرح کوئلہ بھی قیمتی ذرائع توانائی میں کافی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان دنیا کے اُن دس ممالک میں شامل ہے، جہاںکثیر مقدار میں یہ معدنیات موجود ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق، ملک میں کوئلے کے تقریباً ایک ارب 75کروڑ ٹن کے ذخائر موجود ہیں۔ تاہم، پاکستان میں ملکی ضرورت کا صرف گیارہ فی صد کوئلہ استعمال کیا جاتا ہے۔ پنجاب میں ڈنڈوت، مکڑوال اور پڈھ کے مقام پر بھی کوئلے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ بلوچستان میں کوئٹہ، شاہ رگ، خوست، ہرنائی، ڈیگاری بولان سمیت مختلف علاقوں میں کوئلہ موجود ہے۔ سندھ میں کوئلے کی کانیں جھمپیر اور لاکھڑا میں موجود ہیں۔ حال ہی میں ضلع تھرپار کر میں بھی کوئلے کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں، مگر انتہائی گہرائی میں ہونے کے باعث انہیں کھود کر نکالنا مشکل ہے، البتہ اسے گیس میں تبدیل کرکے اس سے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ صوبہ خیبر پختون خوا میں بھی کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔
ملکی صنعت و حرفت کے لیے خام لوہے کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اس کا شمار بھی انتہائی اہم معدنیات میں ہوتا ہے، جس سے فولاد، مشینریز اور مختلف قسم کے اوزار بنائے جاتے ہیں۔ کالا باغ کے علاقے میں خام لوہے کے سب سے بڑے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ جب کہ ایبٹ آباد، لنگڑیال اور چترال میں بھی لوہے کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں خام لوہا (لوہے کی معدن) خضدار، مسلم باغ سمیت مختلف علاقوں میں پایاجاتا ہے۔ ملک میں اب تک منظرِ عام پر آنے والا لوہا درمیانے درجے کا ہے، جس سے ملک کی صرف16 فی صد ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز میں درآمد شدہ خام لوہا استعمال ہوتا ہے۔اسی طرح کرومائیٹ، جو ایک سفید رنگ کی دھات ہے، فولاد سازی، طیارہ سازی، رنگ سازی اور لوازمات بنانے میں کام آتا ہے۔ اس کے دنیا میں سب سے بڑے ذخائر پاکستان میں ہیں، جسے برآمد کرکےکثیر زرِمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔ اس کے ذخائر بلوچستان میں مسلم باغ، چاغی، خاران اور خیبر پختون خوا میں مالا کنڈ، مہمند ایجنسی اورشمالی وزیرستان میں پائے جاتے ہیں۔
درج بالا اہم، قیمتی معدنیات کے علاوہ بھی قدر ت نے پاکستان کو بیش بہا معدنی خزائن سے نوازا ہے، ان اربوں ڈالرز مالیت کے دریافت شدہ معدنی وسائل کو بروئے کار لاکر ملک سے غربت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ یہاں ایسے ہی
کچھ معدنی ذخائر کا مختصر تذکرہ پیش کیا جارہا ہے۔ برقی آلات سازی میں عام استعمال ہونے والے تانبے کے وسیع ذخائر ضلع چاغی میں موجود ہیں، جب کہ سفید رنگ کا چمکیلا پتھر جپسم، جو سیمنٹ، کیمیائی کھاد،پلاسٹر آف پیرس اور رنگ کا پائوڈر بنانے میں استعمال ہوتا ہے، پنجاب کے ضلع جہلم، میاں والی اور ڈیرہ غازی خان کے علاوہ خیبر پختون خوا میں کوہاٹ، سندھ میں روہڑی اور بلوچستان میں کوئٹہ، لورالائی سمیت دیگر علاقوں میں بہ کثرت پایا جاتا ہے۔مختلف اقسام اور مختلف رنگوں کا سنگِ مرمر بھی چاغی، مردان، سوات، شانگلہ کے اضلاع اور خیبر پختون خوا میں بہ کثرت پایاجاتا ہے۔ اپنی نزاکت و نفاست اور خوش نما رنگوں کی بنا پر پاکستان کا سنگِ مرمر دنیا میں سب سے زیادہ عمدہ اور معیاری سمجھا جاتا ہے۔ سیاہ و سفید سنگِ مرمر، ضلع اٹک میں کالا چٹا کی پہاڑیوں سے نکلتا ہے۔ سنگِ مرمر سے بنائی گئی مختلف اشیاء کی برآمد سے پاکستان کثیر زرِ مبادلہ کمارہا ہے۔ کوئٹہ سے ژوب تک اس کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ ضلع چاغی میں پایا جانے والا ماربل (اونیکس) اپنی خوب صورتی کی وجہ سے آرایشی اشیاء بنانے کے لیے نہایت موزوں ہے۔ دھاتی منرلز کی بات کی جائے، تو یہاں ایلومینیم کے بھی بڑے ذخائر موجود ہیں، جو زیارت اور قلات کے علاقوں باکسائٹ اور لیٹرائٹ میں پائے جاتے ہیں۔ جب کہ دیگر دھاتوں میں کرومائٹ کے ذخائر مسلم باغ، خضدار اور لسبیلہ کے علاقوں میں موجود ہیں۔ سیسے اور جست کےخضدار اور لسبیلہ کے علاقوں میں کم وبیش 60 ملین ٹن سے زائد ذخائر موجود ہیں۔ جنوبی کیرتھر بیلٹ کے علاقے دودّر میں بھی کوئی دس ملین ٹن کا ذخیرہ دریافت ہوا ہے، جب کہ چاغی میں آتش فشانی چٹانوں میں مِلا جلا لوہا بھی کوئی ایک سو ملین ٹن کے لگ بھگ موجود ہے۔ چاغی میں چاندی، مولی بڈنم ، یورینیم اور ٹنگسٹن بھی کچھ مقدار میں ہے۔ پلاٹینیم مسلم باغ، ژوب، خضدار اور لسبیلہ کے علاقوں میں موجود ہے، جس پر تفصیل سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹائی ٹینیم اور زرقون مکران کی ریت میں پائے گئے ہیں۔ مکران اور سیاہان کے علاقے میں اینٹی منَی اور سونا چاندی کے ذخائر کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ غیر دھاتی منرلز میں ایلم مغربی چاغی میں کوہِ سلطان آتشِ فشاں پہاڑ سے نکلتا ہے، جو رنگ سازی اور چمڑے کی صنعت میں کام آتا ہے۔ ایس بسٹاس، ژوب سے نکلتا ہے۔ بیرائٹ کوہِ سلطان، چاغی، لسبیلہ اور خضدار کے علاقوں سے نکلتا ہے،جو رنگوں اور ڈرلنگ کمپاؤنڈز بنانے کےکام آتا ہے۔ فلورائیٹ قلّات، دالبندین، ژوب، لورالائی اور آس پاس کے علاقوں میں کافی مقدار میں موجود ہے۔ اسپن تنگی، ہرنائی اور چما لانگ میں پائے جانے والے جپسم کے علاوہ چونے کے پتھربلوچستان میں بھرے پڑے ہیں، جو سیمنٹ بنانے میں کام آتے ہیں۔ اسی طرح سجاوٹی پتھر جیسے ماربل، اونیکس، سرپینٹائن، گرینائٹ، ڈائیورائٹ، گیبرو، بسالٹ، رائیو لائٹ اور کوارٹزائٹ چاغی، خضدار، لسبیلہ، ہرنائی شاہ رگ اور زیارت کے پہاڑی سلسلوں میں بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ لسبیلہ کے سجاوٹی پتھروں میں سرپینٹائن، پکچر ماربل اسٹون، ریفل، لائم اسٹون، ماربل اور کئی اقسام کے فریکچرڈ لائم اسٹون مقبول ہیں، جو کراچی کی کاٹیج انڈسٹری کو سپلائی کیے جاتے ہیں، ان سے فرش اور دیواروں کے لیے ٹائلز اور آرایشی برتن وغیرہ بناکر بیرون ملک ایکسپورٹ کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ انتہائی سختٖ منرلز، ابراسیوِز، گارنٹ، پامس، پارلائٹ اور بسالٹ وغیرہ بھی چاغی اور ژوب کے علاقے میں بہ کثرت پائے جاتے ہیں۔ نمکیات کے ذخائر، جن میں بوریکس، بوریٹس، سلفائڈ اور کاربونیٹس شامل ہیں، چاغی، لسبیلہ، پنجگور اور مکران میں بہ کثرت پائے جاتے ہیں، جب کہ گندھک، چاغی میں اور فرٹیلائزر پوٹا شیم چاغی اور کچھی ڈسٹرکٹ میں پایا جاتا ہے۔ نائٹریٹ، چاغی اور فاسفیٹ بولان پاس کے علاقے میں ملتا ہے۔ میگنیشیم کے ذخائر ،خضدار، قلّات، مسلم باغ اور ژوب کے علاقوں میں موجود ہیں۔
ان تمام وسائل کے باوجود حکومتِ بلوچستان کی حالت یہ ہے کہ اس وقت صوبے کے ملازمین کو تن خواہیں دینے کے لیے وسائل موجود نہیں۔ اس تناظر میں اگر موثر حکمت عملی کے ساتھ ٹھوس اقدامات کے ساتھ صوبے میں موجود معدنیات پر خصوصی توجّہ مرکوز کی جائے، تو عین ممکن ہے کہ پاکستان دنیا کے خوش حال ترین ممالک میں شامل ہوجائے۔ اس حوالے سے سب سے پہلے ہمیں ایک اچھا ماحول پیدا کرکے اکائیوں کااعتماد بحال کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی ملک سے کرپشن اور بدعنوانی کا خاتمہ کرکے چھوٹی اکائیوں کو اقتدار میں نمایاں حصّہ دینا ہوگا۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں، تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہم امداد لینے والے ممالک کی فہرست سے نکل کرامداد دینے والوں میں شامل ہوجائیں۔