• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چھ ماہ پہلے معرضِ وجود میں آنے والے نئے پاکستان میں اک بھونچال برپا ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا- چھ ماہ کے دوران مالیاتی خسارہ دو ارب ماہانہ کےحساب سے مسلسل بڑھ رہا ہے، قرضوں کےبوجھ میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر روز بروز گر رہے ہیں، عوام کو اچھے کی آس امید دلانے کے لئے دو ضمنی بجٹ بھی آ چکے ہیں، حالیہ ضمنی بجٹ کے اندازے و تخمینے چار ماہ پہلے کے منی بجٹ کے برعکس دکھائی دیتے ہیں۔ دعوئوں اور وعدوں کی مشکلات اور پریشانیاں بڑھنے سے عوام کی امیدیں ماند پڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔

بلاشبہ خان حکومت پر اب تک کرپشن کا کوئی داغ نہیں لیکن نااہلی اور عدم استعداد کا دھبہ کیا اس سے کہیں زیادہ برا نہیں؟ اب یہ بات جناب وزیراعظم کو بھی سمجھ آ رہی ہے، انہوں نے ابتدا میں بھجوائی گئی ’’تگڑی‘‘ ٹیم کے ڈھیر ہونے کے خطرات کو بھی بھانپ لیا ہے لیکن بوجوہ اس کو تبدیل کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہے، تاہم وقتی حل کے طور وہ بیک وقت اپنی ذاتی آل رائونڈر صلاحیت کو آزمانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ وفاق کی سطح پر کم از کم پانچ ترجمانوں کے باوجود حکومت کی حالت یا پرفارمنس کی درست ترجمانی کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا، وفاق میں چھوٹے بڑے وزرا و مشیر بیچارے جھنڈے والی گاڑیوں، درجنوں ملازموں، مفت بجلی، پانی، ٹیلیفون، پیٹرول اور ایئر ٹکٹس کی سہولتوں سمیت وزرا کالونی کے مزے لوٹ کر وزیراعظم کی سادگی پسند حکومت کے دعوئوں کا تو منہ چڑا ہی رہے ہیں، رونا تو یہ ہے کہ دو اہم صوبوں کے سادہ طبیعت وسیم اکرم پلس اور انضمام الحق کی کارکردگی بھی ایسی ہے کہ بیچارے کپتان کو ہر روز ان کی وکالت اور پرفارمنس کے لئے بھی بیان دینا پڑتے ہیں۔ یہی نہیں وزرا کی زبان درازی کا خمیازہ بھی کپتان کو منتخب ایوان میں ناپسندیدہ ذاتی حملوں کی صورت سہنا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ تو پریشانی کا سبب بن ہی رہا ہے لیکن نئی نویلی حکمرانی کے انداز کا دوسرا اہم پہلو اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے اور وہ ہے مسلسل بڑھتی کنفیوژن جس سے عوام کو آگے بھی اندھیرا دکھائی دے رہا ہے اور ان کے حوصلے پست ہو رہے ہیں۔ عوام سوچتے ہیں کیا انصافی حکومت ہے کہ جو چھوٹی چھوٹی گستاخیوں پر بے گناہ اعلیٰ پولیس افسران کو سخت سزائیں دے لیکن سرعام جیتے جاگتے معصوم انسانوں کے قاتلوں اور ان کی پشت پناہوں کو مجرم کہنے سے بھی عاری ہو۔ لگتا ہے کہ کسی بھی سطح پر فیصلہ سازی یا نئے مجوزہ اقدامات پر کوئی مربوط و ٹھوس حکمت عملی نہ ہونے کے سبب عوام و خواص کی بے چینی آئے روز بڑھتی جا رہی ہے اور کنفیوژن کو دور کرنے کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ مزید کنفیوژن پیدا کر دی جائے۔

چھ ماہ کےدوران ملکی سطح پر اب تک کوئی بڑا فیصلہ یا کامیابی تو سامنے نہیں آ سکی البتہ ڈوبتی معیشت کے سہارے کے لئے برادر ملکوں سے اربوں ڈالر کی سود پر ملنے والی امداد کو بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے، جو بقول شہباز شریف اور مسٹر زرداری، دوست ملکوں سے امداد بھی سپہ سالار کی کوششوں کے طفیل مل رہی ہے، حکومت کا اس میں کوئی کمال نہیں۔

کنفیوژن یہ ہے کہ معاملہ مانگ تانگ اور ادھار سے کب تک چلے گا؟ دگرگوں معاشی حالات کا حقیقی حل کیا ہے؟ گزشتہ حکومت کے درجنوں ترقیاتی منصوبوں سمیت بجلی بنانے کے پلان بھی روک دئیے گئے سب باتیں چھوڑیں مگر یہ تو واضح کر دیں کہ سردیوں میں گیس نہ ہونے پر ٹھٹھر کر لحافوں سے گزارہ کرنے والے بے بس عوام کو کیا آئندہ گرمیوں میں ٹھنڈے پسینے پر صبر و شکر کرنا پڑے گا یا لوڈشیڈنگ کے بچائو کی کچھ تدابیر کر رہے ہیں؟ یہی وہ کنفیوژن ہے جس کو دور کوئی نہیں کر رہا۔

ایک کروڑ نوکریوں اور 50لاکھ گھروں کا وعدہ تو جانے کب ایفا ہوگا لیکن کوئی تو اس گتھی کو سلجھائے کہ لاکھوں بیروزگار اور تجاوزات کے نام پر بے گھر ہونے والوں کو اب آباد کون اور کب کرے گا؟ بقول خواجہ آصف ترقی کی شرح ساڑھے چھ سے گر کر ساڑھے تین پر آنے سے سالانہ 7لاکھ افراد کے بیروزگار ہونے کا خدشہ پیدا ہو رہا ہے، اس کنفیوژن کو حکومت دور نہیں کرے گی تو کون کرےگا؟خدا خدا کرکے حکومت اپوزیشن کی مارا ماری کے بعد چیئرمین پی اے سی اور کمیٹیوں کا معاملہ حل ہوا لیکن فوجی عدالتوں میں توسیع سمیت قانون سازی کے معاملات جوں کے توں ہیں، سیاسی محاذ آرائی کا ماحول پارلیمنٹ کے ایوانوں کو مسلسل پراگندہ کر رہا ہے۔ شاید عوام کو مزید کنفیوژ کیا جا رہا ہے کہ وہ سیاست کے اس چال چلن کو دیکھ کر جمہوریت سے توبہ کر لیں۔

کرپشن کےخلاف نعروں اور ایکشنز پر بھی کنفیوژن بڑھتی جا رہی ہے، دو بڑی جماعتوں کے سربراہوں اور اہم قائدین کےخلاف کرپشن کے سنگین الزامات پر کارروائیاں جاری ہیں لیکن بیماریوں اور تکلیفوں کی خبروں سے محض کنفیوژن ہی نہیں، ڈیل کا تاثر بھی پیدا کیا جا رہا ہے جس کا ممکنہ کلیدی کردار اور سہولت کار چھوٹا بھائی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پہلے چھوٹے میاں اور پھر بڑے میاں بیماری کے علاج اور خاطر خواہ خفیہ ادائیگیوں کے بعد بیرون ملک جانے والے ہیں، چھوٹے بھائی کے بیٹوں اور داماد کو حالیہ ریلیف دینا اس کا غماز ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ بڑے بھائی اور تیمارداری کے لئے بیٹی کا باہر جانا بھی ٹھہر گیا ہے۔ سیاست میں سب پہ بھاری شخصیت کی اہم کیسز میں عدم گرفتاری اور ای سی ایل سے نام نکالا جانا بھی معاملات طے ہونے کی طرف اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ پتا نہیں خان صاحب کی ’’کوئی این آر او نہیں ملےگا‘‘ کی دھمکیوں اور ملک لوٹنے والوں کو اندر کرنے کی گردان پر کوئی یقین کرنے کو کیوں تیار نہیں؟ پتا نہیں کیوں سیاسی افق پر اس قسم کی افواہوں سے پھیلنے والی کنفیوژن کو کوئی ٹھوس اقدامات سے دور نہیں کر رہا ہے، تاہم طاقتور حلقوں میں یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ حکومت کی نااہلی سے پھیلنے والی کنفیوژن کا ماحول اب مزید چلنے والا نہیں!دوسری طرف بھی لگتا ہے مسٹر خان کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے لیکن شاید اس میں ابھی ایک دو ماہ باقی ہیں، اگر انہوں نے اندرونی معاملات کو ٹھیک کرنے کے لئے ضروری ایکشن از خود نہ لیے اور مسلط کردہ وسیم اکرموں اور انضماموں سے جان نہ چھڑائی تو معاملات ہاتھ سے نکل بھی سکتےہیں جو اس کنفیوژڈ کہانی کے ڈراپ سین کا سبب بن سکتےہیں۔

تازہ ترین