تحریک انصاف کی حکومت نے 23؍جنوری 2019ء کو جو مالی ضمنی (دوسرا ترمیمی) بل 2019ء پیش کیا ہے وہ نہ تو منی بجٹ ہے اور نہ ہی معاشی اصلاحات کا پیکیج۔ یہ بل دراصل تاجروں، صنعت کاروں، کارپوریٹ سیکٹر، اسٹاک مارکیٹ، ٹیکس چوری کرنے والوں اور نان فائلرز کے لئے مراعاتی پیکیج ہے۔ اس بل سے تاجر برادری بہت خوش ہے اور اس سے معاشی سرگرمیوں میں یقیناً کچھ اضافہ ہوگا۔ یہ مراعات بہرحال ٹیکسوں کی چوری روک کر نہیں بلکہ قرضے لے کر دی جارہی ہیں۔ اس بل اور حکومت کی غیردانشمندانہ معاشی پالیسیوں کے نتیجے میںبجٹ خسارہ (جوکہ ام الخبائث ہوتا ہے) پریشان کن حد تک بڑھ جائے گا اور مہنگائی و قرضوں کا بوجھ بھی تیزی سے بڑھے گا۔ اس بل میں پاکستان سے باہر آف شور میں ناجائز اثاثے رکھنے والوں کو جنہوں نے اپریل 2018ء میں جاری کردہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھایا تھا حالانکہ انہیں موقع دیا گیا ہے کہ وہ اپنی ناجائز رقوم پاکستان لائے بغیر قانونی تحفظ حاصل کرلیں۔
وزیر اعظم عمران خان اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ لاکھ مراعاتی و اقتصادی پیکیج لے آئیں مگر معیشت میں بنیادی نوعیت کی اصلاحات کئے بغیر (خصوصاً ٹیکسوں کے شعبے میں) نہ تو معیشت بحال ہوسکتی ہے اور نہ ہی عوام کی حالت بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ تحریک انصاف نے 2018ء کے انتخابات سے پہلے جو 10نکاتی ایجنڈا پیش کیا تھا اس میں کہا گیا تھا:’’پہلے 100روز کے اندر معیشت کی بحالی اور قرضوں پر انحصار کم کرنے کے لئے کاروبار دوست اور عدل پر مبنی ٹیکس پالیسی لاگو کی جائے گی‘‘۔ عدل پر مبنی ٹیکس پالیسی میں مندرجہ ذیل بنیادی نکات شامل ہوتے ہیں:۔
(1) وفاق اور صوبوں کا ایک مقررہ آمدنی سے زائد ہر قسم کی آمدنی پر بلاکسی استثنیٰ ٹیکس موثر طور پر نافذ اور وصول کرنا۔(2) معیشت کو دستاویزی بنانا اور کالے دھن کو سفید ہونے سے روکنا۔(3) غیرمنقولہ جائیدادوں کی خرید و فروخت کی رجسٹریشن مارکیٹ کے نرخ پر کرنا۔(4) ود ہولڈنگ ٹیکس کے نظام اور نان فائلر کے تصور کو ختم کرنا۔
بدقسمتی سے وفاقی کابینہ، پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلیوں میں تحریک انصاف کے اپنے بہت سے معزز اراکین عدل پر مبنی ٹیکس پالیسی نافذ کرنے اور تحریک انصاف کے اپنے منشور کے کچھ نکات پر عمل درآمدکرنے لئے آمادہ نہیں ہیں چنانچہ انصاف پر مبنی ٹیکس پالیسی 2023ء تک بھی موثر طور پر نافذ نہیں ہو سکے گی حالانکہ ان اقدامات سے ناقابل یقین حد تک بہتری آسکتی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے دور میں اپریل 2018ء میں جاری کردہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو عمران خان صاحب نے بجاطور پر مسترد کرتے ہوئے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ اقتدار میں آکر وہ اس ایمنسٹی اسکیم سے مستفید ہونے والوں کے معاملے کی تحقیقات کرائیں گے اور ان سے ’’منی ٹریل‘‘ بھی پوچھیں گے۔ اب موجودہ حکومت اس وعدے سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔ 23؍جنوری 2019ء کو ایف بی آر کو احکامات دئیے گئے ہیں کہ وہ ان معاملات کو نہ چھیڑیں۔ نگران حکومت نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ایک ماہ کی توسیع کردی تھی اور اس میں یہ شق برقرار رکھی تھی کہ جو رقوم ملک سے باہر منتقل کی گئی تھیں صرف 5فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر باہر ہی رکھے جانے کے باوجودان کو قانونی تحفظ مل جائے گا۔ اپنے وعدوں کی تکمیل کیلئے موجودہ حکومت کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ چار ماہ کے اندر اس آرڈیننس کو پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرتی، مگر ایسا نہیں کیا گیا جو اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ لوٹی ہوئی دولت کو پاکستان واپس لانے کا موجودہ حکومت کا عزم کمزور ہوگیا ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ جولائی 2018ء میں ایف بی آر نے قومی اخبارات میں اشتہارات شائع کرائے تھے جن میں تنبیہ کی گئی تھی کہ 31؍جولائی 2018ء تک ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ نہ اٹھانے کی صورت میں ’’غیرظاہر شدہ غیر ملکی اثاثوں اور آمدنی پر ٹیکس کے علاوہ جرمانہ اور قانونی کارروائی ہوگی‘‘۔ 23؍جنوری 2019ء کے بل میں انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق123میں جو اضافہ کیا گیا ہے اس میں دانستہ جھول رکھاگیا ہے اور پاکستان سے رقوم باہر بھیجنے والوں کو موقع دیا گیا ہے کہ وہ اپنی رقوم آف شور میں ہی رہنے دیں۔پارلیمنٹ کو شق123کا سنجیدگی سے نوٹس لینا ہوگا۔ایف بی آر کے چیئرمین نے جولائی 2018ء میں کہا تھا کہ جو لوگ ملکی اثاثوں کے ضمن میں 31؍جولائی کو ختم ہونے والی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے ان کی آئندہ نسلیں بھی روئیں گی۔ اب اس دوسرے ترمیمی بل میں ان افراد کو بھی مراعات دے دی گئی ہیں جنہوں نے اس اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھایا تھا۔
موجودہ حکومت نہ صرف تقریباً 16؍ارب ڈالر کے بیرونی قرضے لینے کے معاملات کو حتمی شکل دے رہی ہے بلکہ جلد ہی آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے علاوہ مزید بیرونی قرض بھی لے گی جبکہ دوست ممالک سے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری بھی حاصل کی جارہی ہے۔ ماضی میں ریکوڈک اور کارکے کی جانب سے سرمایہ کاری کے معاہدات میں تنازعات پیدا ہونے اور عالمی عدالتوں میں پاکستان کے خلاف فیصلے آنے سے پاکستان کو خطیر رقوم کا جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے چنانچہ نئی سرمایہ کاری کے ضمن میں تمام شرائط کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا جائے اور یہ بھی یقینی بنایا جائے کہ ان قرضوں و سرمایہ کاری کے نتیجے میں آگے چل کر پاکستان مشرق وسطیٰ کے تنازع میں ملوث نہ ہو۔جولائی سے دسمبر 2018ء کے 6؍ماہ میں 10.7؍ارب ڈالر کی ترسیلات کو تجارتی خسارے کی مالکاری کے لئے استعمال کیا گیا جوکہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ دنیا کے کسی ملک نے صرف بیرونی وسائل پر انحصار بڑھا کر پائیدار معاشی ترقی حاصل نہیں کی۔ ملکی وسائل بڑھانے کی طرف حکومت کی توجہ بہت کم ہے۔ مالی سال 2019ء اور 2020ء میں معیشت کی شرح نمو اوسطاً اس شرح سے کم رہے گی جوموجودہ حکومت کو ورثے میں ملی تھی۔ معیشت کے شعبے میں پی ٹی آئی کی حکومت وہی کچھ کررہی ہے جو سابقہ حکومتیں گزشتہ 25سے زائد برسوں سے کرتی رہی ہیں چنانچہ خدشہ ہے کہ پاکستان قرضوں کے شیطانی چکر میں پھنستا چلا جائے گا اور 2019ء میں آئی ایم ایف سے لیا جانے والا نجاتی پیکیج آخری پروگرام ثابت نہیں ہوگا الا ّیہ کہ تحریک انصاف کے انتخابی منشور پر عمل درآمد کیا جائے۔