مریم طارق
’’بچے والدین کی بات نہیں مانتے، ہر وقت موبائل فون پر مصرو ف رہتے ہیں، آج کل کے بچے پڑھائی میں دل چسپی سے زیادہ غیر نصابی سرگرمیوں میں دل چسپی لیتے ہیں۔‘‘
درج بالا اور ان جیسی بیسیوں قسم کی شکایات تقریباً ہر گھر کا مسئلہ ہیں، والدین بچوں کے مستقبل کو لے کر پریشان دکھائی دیتے ہیں، کیوں کہ قوموں کی شناخت ان کی تہذیب ، تمدن اور روایات سے ہوتی ہے، جو اقوام اپنے تاریخی ورثے کے زیر سایہ اپنی نسل نو کو پروان چڑھاتی ہیں، وہ ہمیشہ زندہ و جاوید رہتی ہیں، کیوں کہ ہر قوم کی بقا و سالمیت اسی میں ہے، کہ وہ اپنی روایات و اقدار اپنی نئی نسل کو درجہ بہ درجہ منتقل کرتی رہے۔ نسل نو ملک و بام عروج پر پہنچانے کے ساتھ ساتھ تہذیب و تمدن کے بھی وارث و محافظ ہوتے ہیں۔ ہمارے نوجوان تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ با شعور بھی ہیں، جدید ٹیکنالوجی کی دور میں بھی بڑی محنت و لگن سے آگے بڑھ رہے ہیں، لیکن انہیں اپنی درخشاں تاریخ،ثقافت، زبان و تہذیب سے آگہی بھی ضرور ہونی چاہیے۔ مگر غور طلب بات یہ ہے کہ کیا انہیں اپنے گھر، آس باس کے ماحول یا بزرگوں سے اپنی تہذیب و روایات کے متعلق کچھ سیکھنے کو مل رہا ہے؟بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہوتی ہے، جہاں وہ زندگی کا پہلا سبق سیکھتا ،اخلاقی تربیت حاصل کرتا ہے، وہ جس ماحول میں آنکھ کھولتا، تربیت پاتا ہے، اس کا اثر بچے کی سوچ و شخصیت پر بھی ضرور پڑتا ہے۔وہ اپنے والدین کی عادات و اطوار ان کی حرکات و سکنا ت کو اپنانے کی کوشش کرتاہے۔والدین جیسا ماحول مہیا کرتے ہیں، اس کی شخصیت اسی سانچے میں ڈھل جاتی ہے۔ ا س ضمن میں والدین کی مثال ایک کمہار کی سی ہوتی ہے، وہ جس سانچے میں اپنی اولاد کو ڈھالیں گے، وہ ویسے میں ڈھل جائیں گے۔جب آج کے والدین یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں، کہ نسل نو ان کی بات نہیں سنتی، کہنا نہیں مانتی یا بد اخلاق ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں ملنے والی تربیت میں کمی ہے۔ اگر نوجوان اخلاقی پستی کا شکار ہیں، تو اس حوالے سے والدین کی ذمے داری ہے کہ وہ شروع ہی سے اپنی اولاد کو ایسی تربیت دیں، کہ وہ اعلیٰ اخلاقی اطوار کے مالک ہوں، انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ گھر کے تمام افراد کے ساتھ کیسے پیش آناہے۔ کھانے پینے کے آداب، بڑوں سے بات کرنے کا سلیقہ ، پڑوسیوں کے حقوق، اپنی تہذیب و تمدن وغیرہ کے بارے میں، انہیں اچھی طرح سمجھانا چاہیے، اگر والدین انی ذمے داریاں احسن طریقے سے انجام دیتے ہیں، تو ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ نسل نو غیر مہذب یا اپنی تہذیب سے نا آشنا ہوں، والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ نسل نو کی اخلاقی تربیت کریں، انہیں صرف درسی تعلیم نہ دیں، بلکہ اپنی تہذیب و تمدن اور روایات سے بھی آشنا کرائیں۔ اچھے استاد کی صحبت کسی بھی انسان کی زندگی بدل سکتی ہے، ایک استاد بچے کی کردار سازی میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔اساتذہ سے صرف درسی تعلیم ہی نہیں حاصل کی جاتی بلکہ وہ اخلاقی تربیت بھی کرتے ہیں۔ ان کی ہر بات کا طلبہ پر گہرا اثر ہوتا ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ استاد کو اپنا کردار اور شخصیت ہمیشہ مثالی رکھنی چاہیے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کل، نہ استاد اپنی ذمے داریاں بہتر طور سے ادا کر رہے ہیں، اور نہ ہی نوجوان ان کا ادب کرتے ہیں، مگر اس میں صرف نوجوان کو مورد الزام ٹھہرانا قطعی طور پر درست نہیں ہے۔ آج کل بچے بھی شکایت کرتے نظر آتے ہیں، کہ ان کے والدین کے پاس ان کے لیے ووقت ہی نہیں ہے، ظاہر ہے جب تک والدین ، اولاد کی تربیت پر توجہ نہیں دیں گے، ان کے ساتھ وقت نہیں گزاریں گے، انہیں تمیز و تہذیب نہیں سکھائیں گے، تب تک نسل نو اپنی تہذیب و اقدار یا روایات کیسے سیکھے گی۔یہ وہ چند وجوہ ہیں، جن کی وجہ سے نوجوان تذبذب کا شکار نظر آتے ہیں۔ جب گھر میں ساز گار ماحول نہیں ملتا، تو وہ انٹرنیٹ، موبائل فون وغیرہ کی طرف مائل ہوجاتے ہیں، پھر والدین شکایت کرتے ہیںکہ نسل نو خود سر اور بد تمیز ہے۔ ہم اپنی اقدار و تہذیب کو اپنے ہاتھوں تباہ کر رہے ہیں۔ نسل نو تک ہماری روایات و اقدار و تہذیب منتقل ہی نہیں ہو رہیں۔ اس ضمن میں نوجونوں کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کے لیے کچھ وقت ضرور نکالیں، کچھ دیر گھر کے بزرگوں و بڑوں کے ساتھ گزاریں، ان کے تجربات کی روشنی میں زندگی گزارنے کے اطوار سیکھیں، اپنے اندر تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کریں۔ بڑوں یا اساتذہ کی ڈانت کو غنیمت جانیںاور اپنی اصلاح کی کوشش کریںہماری ثقافت، ہماری پہچان ہے۔ اسے زندہ رکھنا ہر فرد بالخصوص نسلِ نو کی ذمے داری ہے کہ وہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر کلی طور پر پابندی لگانے کے بہ جائے، اس کے مثبت استعمال کے فوائد اور منفی استعمال کے نقصانات بتائیں، نوجوانوں سے وقت نہ دینے کا شکوہ کرنے کے بہ جائے، ان کے لیے خود وقت نکالیں، کیوں کہ یہ ان کے مستقبل کا سوال ہے اور اپنی روایات و تہذیب کو اسی صورت نسل نو میں منتقل کیا جا سکتا ہے، جب والدین اور بزرگ اپنی ذمے داریوں کا احساس کریں، اگر والدین ، اساتذہ اور بزرگوں نے وقت کی نزاکت کو نہ پہچانا ، تو نئی نسل جدید تہذیب کے سیلاب میں بہہ جائے گی اور اس کے ذمے دار ہم خود ہوں گے۔