• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج میرا انٹرویو تھا ۔ گھر سے نکلتے ہوئے سوچ رہا تھا،کامیاب ہو گیا تو فوراً اپنے جدّی پشتی مکان کو خیر باد کہہ دوں گا لیکن یہیں شہر میں قیام کروں گا ۔ امی اور ابو کی روزانہ کی مغزماری سے جان چھڑا لوں گا ۔۔۔صبح جاگنے سے لےکررات سونے تک ہونے والی مغز ریزی سے اکتا گیا ہوں ۔صبح سوکر اُٹھو تو حکم ہوتا ہے،’’پہلےبستر کی چادر درست کرو، پھر غسل خانے جانا‘‘۔ غسل خانے سے نکلو توحکم ملتا ہے، ’’نل ٹھیک سے بند کردیا،تولیہ صحیح جگہ پر رکھا یا یوں ہی پھینک دیا ؟‘‘۔ ناشتہ کرکےگھر سے نکلنے کا سوچو، توکہا جاتا ہے، ’’پنکھا بند کیا یا چل رہا ہے‘‘ ؟ ۔ کیا کیا باتیں سنوں۔ نوکری مل گئی تو پہلی تنخواہ ملتے ہی گھر چھوڑ دوں گا۔ جیسے ہی دفتر کے احاطے میں پہنچا، بہت سے امیدوار بیٹھے’’باس‘‘ کا انتظار کر رہے تھے۔صبح دس بج گئے تھے ، ایک نظر ہال میں ڈالی تودیکھا لائٹیں ابھی تک جل رہی ہیں،فوراً امی یاد آگئیں، اٹھ کر بتی بجھا دی ۔آفس کے دروازے پر کوئی نہیں تھا ، بازو میں رکھے واٹر کولر سے پانی رس رہا تھا ، میں نے کولر کا نل بند کردیا، والد صاحب کی ڈانٹ بھی یاد آگئی تھی ۔ چند منٹ بعد ایک لڑکے نے نوٹس بورڈ پر پوسٹر چسپاں کیا، جس پر لکھا تھا، ’’انٹرویو دوسری منزل پر ہوگا‘‘۔ دوسرے لڑکوں کے ساتھ میں بھی دوسری منزل پر جانے لگا۔دیکھاسیڑھی کی لائٹ جل رہی ہے، اسے بند کرکے آگے بڑھا تو ایک کرسی سر راہ دکھائی دی۔ اسے ہٹاکر دوسری منزل پر گیا، دیکھا پہلے سے موجود امیدوار اندر جاتے اور فوراً واپس آجاتے تھے ؛ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ انٹرویو لینے والے بینچ نےدرخواستیںلے کر کچھ پوچھا تک نہیں۔ میرا نمبر آیا، میں نے اپنی فائل مینجر کے سامنے رکھ دی۔ تمام کاغذات دیکھ کر منیجرنے پوچھا، ❓ کب سے جوائن کر رہے ہو ؟ ان کے سوال پر مجھے یوں لگا جیسے آج یکم اپریل ہو اور یہ مجھے فول بنا رہے ہیں ۔منیجرنے محسوس کر لیا کہ مجھے یقین نہیں آرہا۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’ہم نےآج کے انٹرویو میں کسی سے کچھ پوچھا ہی نہیں ہے صرف’’ CCTV ‘‘ کیمرے کے ذریعے سب کو دیکھا ہے۔ بہت امیدوارآئے، مگر کسی نے نل یا لائٹ بند نہیں کی ۔مبارک باد کےمستحق ہیں تمہارے والدین جنہوں نے تمہیں تمیز اور تہذیب سکھائی ہے ۔جس شخص کے پاس Self Discipline نہیں وہ چاہے جتنا ہوشیار اور چالاک ہو مینجمنٹ اور زندگی کی دوڑ میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکتا ۔ ہم نے تمہیں اپنے ادارے میں ملازمت دے دی ہے‘‘۔ یہ سن کر بہت خوش ہوا اور جو کچھ سوچ کر گھر سے نکلا تھا، اس پر خود ہی شرمندہ ہوگیا۔ اُسی لمحے سوچا گھر پہنچتے ہی امی ، ابو سے معافی مانگ کر انہیں بتاؤں گا کہ آج اپنی زندگی کی پہلی آزمائش میں ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر روکنے ٹوکنے کی باتوں نے مجھے جو سبق پڑھایا ہے ان کے مقابل میری ڈگری کی کوئی قیمت نہیں ہے ۔ایسا نصاب پڑھایا جائے جو زندگی بدل دے۔ (طالب علم، سہیل عمران)

تازہ ترین