• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرکلر ریلوے کی بحالی۔۔وزیر ریلوے بمقابلہ ہمدردقابضین

minhajur.rab@janggroup.com.pk

وزیرریلوے کے کراچی سرکلر ریلوے کی ہرممکن بحالی کے بیان کے بعد کراچی کی دو اہم جماعتیں سرگرم ہوگئیں۔ ایک جس کی صوبہ میں حکومت ہے دوسری جس کی ضلعی حکومت ہے۔ دونوں ہم نوا ہوکر کہہ رہی ہیں کہ ہم قبضہ کی سرکاری زمین پر بنے گھر نہیں گرائیں گے۔ وہ کسی بھی غیرقانونی قابض کوبے گھر نہیں کرسکتے۔ یعنی ایک طرف یہ بھی اقرار ہے کہ یہ ناجائزقابضین ہیں مگرد وسری طرف ان سے زمین واگزار کرانا غیراخلاقی قرار دیا جارہا ہے۔۔ اہل دانش اس سوچ میں ہیں کہ جب عدالتی حکم پر چالیس سالوں سے قائم دوکانوں کو مسمار کیا گیا تو اس وقت ان لوگوں کے روزگار ختم نہ ہوئے تھے ؟اس وقت وہ غیراخلاقی فعل نہ قرار دیا گیا؟ اس وقت یہ سارا عمل اخلاقی طور پر جائز اور عدالتی حکم کی تعمیل قرار دی گئی۔ لیکن اب جب غیرقانونی شادی ہالوں اور غیرقانونی رہائشی کالونیوں کی باری آئی تو یکایک شور اٹھ گیا، حالات کے خراب ہونے کی دھمکی دی جانے لگی، احتجاجی مظاہروں سے ڈرایا جانے لگا۔ ایک معمولی مظاہرے کو الیکٹرنک میڈیا میں سب سے پہلے نمبر پر نشرکیا گیا جبکہ کوریج ایک ہی کیمرے سے کی گئی کیونکہ ہر چینل کی فوٹیج ایک ہی تھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس اہم قومی مسئلہ کی تشہیر کس طرح کروائی گئی۔ جبکہ اس دن کی سب سے اہم خبر طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والا معاہدہ تھا۔ جس کا پاکستان سے بڑا گہرا تعلق تھا۔ لیکن اسے اتنی اہمیت نہ دی گئی جتنی شادی ہال کی بندش کی تھی۔ ایسے میں لوگوں کے ذہن میں طرح طرح کےسوال پیداہوتے ہیں۔ آخرایسی بھی کیا بات ہے کہ ہمارے رہنما اس قدر جذباتی ہوگئے؟ سب کچھ چھوڑچھاڑ کر سب سے پہلے اس مسئلہ کو ہنگامی بنیادوں پہ حل کردیا گیا؟ اس کا جواب تو آنے والا کل ہی دے گا۔ سب اپنی اپنی آراء کو سنبھال کر رکھیں۔ لیکن اس واقعہ نے یہثابت کردیا کہ کراچی ماس ٹرانزٹ کے کسی بھی منصوبہ پہ کام اتنا آسان نہیں۔ سرکلرریلوے کےمنصوبہ کو اب دس سال ہوچکے ہیں۔ کتنی ابتدائی اور فیزیبلٹی رپورٹیں بن چکی ہیں، کتنی ملاقاتیں اور دورے ہوچکے ہیں،حتی کہ لاگت کا تخمینہ اور متوقعہ آمدن کا تخمینہ بھی لگایا گیا تھا مگر ابھی تک سب سے بڑے مسئلہ کہ حل کے لیے کچھ بھی نہیں کیا جاسکا۔ یعنی سرکلر ریلوے کی زمین کو واگزار کروانا۔ اس پہ 2009 کے سروے کے مطابق تقریباً ساڑھے چار ہزار مکانات تعمیر ہیں۔ جن میں پکے، کچے پکے، کچے گھر شامل ہیں۔سب سے پہلے جائیکا(JICA جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی) اس میںدلچسپی رکھتی تھی اور یہ پروجیکٹ کے متاثرین کے لیے Resettlement plan چاہتی تھی جس کی بنا پر پورٹ قاسم کے پاس " جمعہ گوٹھ" میں سرکلر ریلوے کے متاثرین کے لیے جگہہ مختص کردی گئی تھی اور باقاعدہ وہاں کی town planning کرلی گئی تھی۔ صرف وزارت ریلوے کو وہ زمین حکومت سندھ کومنتقل کرنا تھی لیکن اس مسئلے کو اتنا طول دیاگیا ۔دوسری طرف متاثرین اس قبضے سے مطمئن نہ ہوئے انہیں اتنا دور جانا پسند نہ آیا لیکن پھر بھی جائیکا مطمئن تھی اور وفاقی سطح پرضمانت مانگ رہی تھی جو اس وقت کی پی پی پی حکومت سے دی نہ گئی ۔ پھر اگلی حکومت جو کہ CPECسے شروع ہوتی تھی اس نے جائیکا کو نظرانداز کرکے چین سے اس منصوبے کوفنانس کروانا چاہا لیکن اس وقت کہ وزیر ریلوےجمعہ گوٹھ کی زمین متاثرین منصوبہ کو دینے کے خلاف تھے لہذا منصوبہ کو CPEC کا حصہ بناکر اس کو ریلوے سے نکال کر صوبائی حکومت کے سپرد کردیاگیا۔ یعنی اب صوبائی حکومت کا حصہ وزارت ریلوے کے حصہ سے زیادہ ہے اور تیسری ضلعی حکومت ہے۔ چینی سرمایہ کاروں کو اس سے فرق نہیںپڑتا کہ متاثرین منصوبہ کو کہیںاورآباد کیا جائے یا نہیں۔ انہیں توصرف سرکلرریلولے کی زمین خالی چاہیئے۔ اسی لیے عدالتی حکم کہ بعد یہ امکان پیدا ہوا ہو کہ شاید اب ماس ٹرانزٹ جوکہ کراچی شہر کے لیے بہت ضروری ہے سرکلر ریلوے کی شکل میں فراہم ہوجائے گی۔

تازہ ترین