بلوچستان کے ساحلی علاقے گوادر کوپورے پاکستان کا ایک اہم حصہ مانا جاتا ہے۔یہ علاقہ نہ صرف سیاحوں کو تفریح فراہم کرتا ہے بلکہ ’گوادر پورٹ‘ پاکستان کی معیشت میں بھی ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
بلوچستان کا یہ ساحلی علاقہ قدرتی حیاتیات سے مالامال ہونے کے باعث ماہی گیروں کےاعتبار سے بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔گوادر کے ذریعے ماہی گیروں کو ایک وسیع پیمانے پر مچھلیاں پکڑنے کےمواقع ملتے ہیں جن سے ان کے روز مرہ کا گُزر بسر ہوتا ہے۔
گوادر چونکہ بحیرہ عرب سے منسلک ہے اس لیے گوادر پرقائم بندرگاہ ذرائع آمدورفت کے لیے بے حد مفید ثابت ہوتی ہے۔آج کل ماہی گیروں کو ایک مسئلہ درپیش ہےجس کے تحت ماہی گیروں کو پانی میں جا نے سے روک دیا گیا ہےجبکہ انہیں صرف کنارے پر رہنے کی اجازت ہے۔
سی پیک منصوبے کےتحت گوادر پر بننے والی ’ایسٹ بے ایکسپریس وے‘ کے باعث ماہی گیروں کو بیچ سمندر میں جانے پر بابندی عائد کردی گئی ہے۔ ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ یہی وہ حصہ ہے جہاں مچھلیوں کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔
ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ گوادر انتظامیہ’ریڈزون‘ میں اگر انہیں دیکھ لے تو نہ صرف ان کو مارتے ہیں بلکہ انہیں یہاں سے واپس بھیج دیتے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ماہی گیروں کی جانب سے تین ماہ جاری رہنے والے احتجاج کے بعد حکومت نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کے خدشات کو جلد دور کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ گوادر کی 70فیصد آبادی کا انحصار ماہی گیری پر ہے۔