بالعموم مشکل حالات میں ہی مشکل تبدیلیا ںرونما ہوتی ہیں۔اس کا اطلاق معیشت کو سنوارنے پر بھی ہوتا ہے۔برطانیہ نے یورپ میںفوجی کارروائیوں کا مالی بوجھ اٹھانے کیلئے 1694ءمیں سینٹرل بینکنگ کا نظام متعارف کیا۔جنگی اخراجات کیلئے برطانیہ نے جدید انکم ٹیکس متعارف کیا۔دوسری جنگِ عظیم کی کساد بازاری سے معاشی ترقی کے نئے نظام نے جنم لیا جس کے تحت قرضے دینے کیلئے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)، امداد برائے ترقی کیلئے بین الاقوامی بینک، ورلڈ بینک اور تجارت کے اصول و ضوابط وضع کرنے کیلئے ڈبلیوٹی اوجیسے ادارے وجود میں آئے۔
ادھر عالمی مالیاتی ادارے، آئی ایف آئیز جنگ کے اثرات کو زائل کرنے کیلئے معاشی ترقی پرتوجہ دینے کے بجائے گلوبلائزیشن کو فروغ دینے کیلئے سرگرم رہے۔آئی ایف آئیز کے کردار پر مسلسل تنقیدمیں اضافہ ہوتا رہا ہے۔مثال کے طور پر ارجنٹائن کے مالی بحران سے پتا چلتا ہے کہ آئی ایف آئیز نے متوازن عالمی معاشی ترقی کی کوشش کے بجائے گلوبلائزیشن کو پروان چڑھایا،نتیجے کے طور پر ارجنٹائن کو بدترین اقتصادی بحران کا سامنا ہے اور گزشتہ چند سالوں کے دوران اس کے جی ڈی پی میں اضافہ نہ ہونے کے برابر رہا اور کچھ سالوں میں تو منفی بھی رہا ہے جس کی وجہ سے گزشتہ پانچ سالوں کے دوران افراطِ زر کی شرح میں 25فیصد تک کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔آئی ایف آئیزکی مہارت اور دوراندیشی ابھی تک لوگوں کی محرومی، غربت اور ما یوسی کو کم کرنے میںکوئی فعال کردار ادا نہیں کر سکی ہے۔ دنیا کی آٹھ ارب آبادی میں سے دو ارب لوگ مشکل سے یومیہ دو ڈالر پر گزارا کرتے ہیں۔
طرہ یہ بھی ہے کہ ورلڈ بینک نے پاکستان کو اپنی موجودہ صنعتوں کو جن میں شوگر، کیمیکلز، ریفائنریز، آٹوموٹوز، فرٹیلائرز اور اسٹیل شامل ہیں، ختم کرنے کا مشورہ دیاہے کیونکہ یہ بین الاقوامی طور پر غیر متقابل اور معیشت پر بوجھ ہیں۔ اس عجیب منطق کے مطابق پاکستان کی اہم ترین صنعت یعنی ٹیکسٹائل بھی بین الااقوامی طور پر غیر متقابل ہے کیونکہ اسے بھی برآمدات کیلئے سبسڈی حاصل ہے جس میں ڈی ویلیو ایشن یعنی روپے کی قدر میں کمی، ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کیلئے امداد اورڈیوٹی بیکس وغیرہ شامل ہیں۔یہی بات عالمی بینک گروپ کی 2015-2020کی رپورٹ میں بھی دہرائی گئی ہے۔ یہا ں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مندرجہ بالا صنعتوں کو بند کردیا جائے تو سرمایہ کاری ہوگی اور نہ پیداوار اور برآمدات میں اضافہ بلکہ اس سے روزگار کے مواقع ناپیدہوں گے اور غربت کم نہیں ہوگی۔برابری کے مقابلے کے حوالے سے کوئی بحث نہیں تاہم یہ ضروری ہے کہ بنیادی مسائل کو جانا جائے اور انہیں حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ آئی ایم ایف بھی ڈی ویلیو ایشن اور کم سے کم ٹیرف کے حق میں ہے۔ اس سے افراطِ زر اور سود کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ نوے کی دہائی میں ایک عبوری پاکستانی حکومت نے مقامی صنعت کو 45 فیصد تحفظ دیا ہوا تھا۔
2001 ء میں اسے کم کر کے 35فیصد کر دیا گیا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے تحت یہ مزید کم ہوکر 15فیصد ہوگیا۔ درِ حقیقت دنیا میں صنعت نے کہیں بھی مناسب تحفظ کے بغیر ترقی نہیں کی۔ ترقی یافتہ ممالک میں تحفظ کا سلسلہ نہ صرف اب بھی کسی نہ کسی صورت جاری ہے بلکہ چند ترقی پذیر ممالک کو آئی ایف آئیز کے احکامات نہ ماننے کے باوجوداس صف میں شامل کرلیا گیا۔
سیاٹل کے اجلاس کے مظاہروں کے بعد ڈبلیو ٹی او (WTO)نے دوحہ اور دیگر دوردراز مقامات کو اپنے اجلاس منعقد کرنے کیلئے منتخب کیا تاکہ آزادانہ تجارت کے خلاف مظاہروں سے بچ سکیں لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ آزادانہ تجارت ہے کیا اور ہے کہاں ؟ امریکہ میں، یورپ میں، بھارت میں یا کہیں اور؟ اگر واقعی آزادانہ تجارت کہیں ہوتی تو پھر یورپی یونین، نیفٹا یا علاقائی مارکیٹس کا وجود نہ ہوتا۔ درحقیقت یہ وقت اگر قومیت کا نہیں تو علاقائیت اور علاقائی تحفظ کا ضرور ہے۔ اپنے قومی مفاد کے لئے امریکہ ایسے دیگر مما لک نے پاکستانی برآمدات پر محصولات میں کمی کرنے کی اجازت نہیں دی۔ درحقیقت آئی ایف آئیز تمام کمزور معیشتوں کو ایک ہی نسخہ تجویز کرتے ہیں جبکہ اس سے کسی کو بھی فائدہ نہیں ہوتا۔
ڈبلیو ٹی او پر الزام یہ بھی ہے کہ یہ ادارہ دنیا کے امیر ترین اشخاص اور کارپوریشنز کی نمائندگی کرتا ہے جو دنیا کی آبادی کا صرف 0.01فیصد ہیں۔ آئی ایف آئیز کی پالیسیوں کا جھکاؤترقی یافتہ ممالک کے حق میں رہااور اس سے مقامی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ بریٹن وڈسسٹم جدید معیشت کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے بلکہ اس کی خامیاں پوری طرح سے عیاں ہیں، یہ نظام محض کھوکھلادعویٰ ہے۔ دنیا کی تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتوں نے اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں پائی جانے والی بے چینی کی وجہ سے 2003 ء میں کین کم میں ہونے والا وزارتی اجلاس ناکام ہوگیا۔ بھارت اور برازیل نے غیرمناسب شرائط ماننے سے انکار کیا پھر بھی ان کو گفت وشنید میں شامل کیا گیا۔
مالی بحران کے بعد ایک نئے بریٹن وڈسسٹم کے بلند وبانگ دعوؤںسے نظام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ریگیولیٹرز کی صف میں اب ابھرتی ہوئی معیشتیں شامل ہورہی ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیسے قوانین بنائے جاتے ہیں۔آخر بریٹن ووڈ کے انتظامات ناکام ہو گئے اور اہم کرنسیاں ایک دوسرے کے مد ِمقابل آنا شروع ہوگئیں۔
گوکہ امیر ترین ممالک پر مشتمل جی7 کی جگہ جی20 نے لے لی ہے جس میں ابھرتی ہوئی مارکیٹس شامل ہیں مگر ابھی اس کی کوئی پہچان نہیں بنی۔ واشنگٹن میں نومبر 2008ء کے جی 20کی اجلاس میں گلوبل گورننس پر تیزو تند بحث ہو ئی مگر جی 20پر اعتماد اس وقت فوراـ ختم ہوگیا جب اس نے تحفظ کا ساتھ نہ دینے کا اپنا وعدہ محض 36گھنٹوں کے اندر ہی توڑدیا۔ مزید یہ کہ دوحہ کے اجلا س کو مکمل کرنے کا ایک اور وعدہ بھی پورا نہ ہو سکا۔
پس ظاہر ہے کہ سیاسی مسائل کو ٹیکنو کریسی طریقوں سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ محض کسی ردوبدل یا ابھرتی ہوئی معیشتوں کو شامل کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا جب تک کہ امیر ممالک صحیح فیصلے کرنے کیلئے تیار نہ ہوں۔ کسی بحران نے کہیں بھی نئے ورلڈ آرڈر کو جنم نہیں دیا تو پھر نیا ورلڈآرڈر کہاں سے آئے گا۔یہ لمحہ فکر نہیں تو کیا ہے؟