• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی حکومت نے منافرت پھیلانے والے سوشل میڈیا صارفین کے خلاف کارروائی کا جو اعلان اب کیا ،اس کی ضرورت برسوں سے محسوس کی جا رہی تھی ۔سوشل میڈیا کے چلن کے وقت سے ہی جہاں اس میڈیا کی افادیت کے چرچے ہوئے وہاں بالخصوص وطن عزیز میں یہ بات ہر گزرتے دن کے ساتھ محسوس کی گئی کہ سماجی اقدار میں توڑ پھوڑ کا ایجنڈا رکھنے والوں کو بھی اس میڈیا کی صورت میں ایک موثر ہتھیار مل گیا ہے۔ جعلی ناموں سے ویب سائٹس بنا کر بعض عناصر نے چادر اور چار دیواری کے روایتی تقدس کو پامال کیا ۔ سوشل میڈیا کا مشاہدہ کرنے والے تشویش کے ساتھ اندازہ لگا سکتے تھے کہ جہاں بعض عناصر پورے پورے خاندانوں کی بربادی اور انفرادی سطح پر لوگوں کی ذہنی و روحانی اذیتوں میں اضافے کا سبب بنتے رہے وہاں ہمارے سیاسی حلقے اس رجحان کے منفی نتائج کے بارے میں شعور و آگہی پھیلانے میں ناکام رہے۔بعض خاص قسم کے ’’ونگز‘‘ متحرک ہونے کے بعد افواہ طرازی کی ایسی کیفیت پیدا ہوئی کہ اس کی زد میں آنے والے فرد یا خاندان کے دکھ اور کرب کا اندازہ لگانا صرف ایسے ہی لوگوں کے لئے ممکن ہے جنہیں بذات خود اس نوع کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ہو۔بدھ کے روز وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات فواد چوہدری نے اسلام آباد میں ایک تربیتی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے جو کچھ کہا ،اس کا خلاصہ یہ ہےکہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی نگرانی کرنا ،انہیں قانونی عملداری میں موثر طور پر لانا اور قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے صارفین کے خلاف کارروائی کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس باب میں کچھ گرفتاریاں ہو بھی چکی ہیں اور بڑی کارروائی آئندہ ہفتے ہو گی۔اس ضمن میں انہوں نے جس نئے ادارے کے قیام کا عندیہ دیا اس کے نام ’’پاکستانی میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی‘‘ سے ظاہر ہوتا ہےکہ اخبارات،ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا سب ایک ہی نگران ادارے کے ماتحت آ جائیں گے۔اس میں کئی قباحتیں ہیں جن کا پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے لوگوں کے ساتھ مل کر تجزیہ کیا جانا چاہئے۔ سوشل میڈیا کے لئے علیحدہ اتھارٹی کے قیام کی ضرورت ہو تو بھی ریگولر میڈیا پر ایسی قدغن نہیں لگائی جانی چاہئے جس سے رسمی میڈیا کے ذمہ دارانہ کردار اور ریاست سے وفاداری پر شکوک کا تاثر ابھرتا ہو۔سوشل میڈیا کے خلاف کریک ڈائون کی جو وجوہ وفاقی وزیر اطلاعات نے بیان کیں ان میں انتہا پسندی کا پرچار ،دھمکیاں، نفرت انگیز باتوں اور فتووں کا پھیلائو وغیرہ شامل ہیں۔ جیسا کہ وزیر اطلاعات نے کہا ،افغان تنازع میں پھنسنے کے بعد پیدا ہونے والی دہشت گردی کی لہر سے نکلنے کے لئے وطن عزیز نے بہت قربانیاں دی ہیں،اب ہم معاشرے میں نفرت اور انتہا پسندی کا زہر پھیلانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔چنانچہ ایک نظام بنایا گیا جس کے تحت سوشل میڈیا پر نفرت کا پرچار روکا جا سکے گا۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ لوگوں کو اپنی رائے کے اظہار کا مکمل حق حاصل ہے مگر ہر حق اور آزادی کی حد ہوتی ہے، اس آزادی کو دوسرے کی آزادی سلب کرنے یا دوسرے پر اپنی رائے بزور طاقت مسلط کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوانین کے نفاذ اور عملداری کو یقینی بنائے۔ اس کے ساتھ ہی دلیل، مکالمے اور مباحثے کی اس روایت کو فروغ دے جو لوگوں کو غصے کی کیفیت اور طاقت استعمال کرنے کے رجحان سے بچاتی ہے۔ لہٰذا اس باب میں سنجیدہ اقدامات کئے جانے چاہئیں۔کیا ہی اچھا ہو کہ عشروں سے تعلیمی اداروں میں یونین بنانے اور صحت مندانہ سرگرمیوں کیلئے سوسائٹیاں تشکیل دینے پر جو پابندی عائد ہے اس کے خاتمے کا اعلان جلد سامنے آئے۔ مباحثوں اور مکالموں کا کلچر عام کرنے اور دلیل و منطق سے تعلق رکھنے والے ان مشرقی علوم کو دوبارہ نصاب کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے جو مغربی یونیورسٹیوں میں آج بھی رائج ہیں۔

تازہ ترین