اسلام آباد(نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ نےجعلی بنک اکائونٹس کیس میں سابق صدر آصف زرداری، فریال تالپور اور اومنی گروپ کے سربراہ خواجہ انور مجید اور انکے خاندان کے افراد کی جانب سے دائر کی گئی نظر ثانی کی درخواستوں کی سماعت مکمل ہونے کے بعد اپنے مختصر فیصلہ میںتمام درخواستیں مسترد کر دی ہیں جبکہ بلاول بھٹو، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور دیگر 2 درخواست گزاروں کی فریق بننے سے متعلق متفرق درخواستوں کو نظر ثانی کی درخوا ستوں میں تبدیل کرتے ہوئے انہیں بھی خار ج کردیا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس کیس میں سب کہ رہے ہیں کہ پیسہ انکا نہیں اگر پیسہ انکا نہیں تو واویلا کیوں مچا رہے ہیں، آج کے دلائل مفروضوں پرمبنی ہیں، عدالت مفروضو ں پرکام نہیں کرسکتی،اربوں روپے کی برآمدگی نظراندازنہیں کرسکتے، نیب کو مقدمہ کہیں بھی چلانے کا اختیار ہے، ریفرنس بنتا ہے تو بنائیں نہیں بنتا تو نہ بنائیں، نواز شریف کیس میں جے آئی ٹی کا قانون بن چکا، انتظامی ادار ے کام نہ کر رہے ہوں تو عدالت بے اختیار نہیں ہو جاتی، وقت آنے پر سوموٹو اختیار کا بھی فیصلہ کرینگے،بلاوجہ نظرثانی کی اپیلیں دائر کرنے پر جرمانہ بھی عائد کیا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی توچیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے آبزرو یشن دی ہے کہ عدالت اس معاملے کی تحقیقات کیلئے بنائی گئی جے آئی ٹی کو حکم نہیں دے سکتی کہ وہ مذکورہ درخواست گزاروں کیخلاف کارروائی نہ کرے، اتنے اہم معاملے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ، آئین کا تحفظ کریں گے،کوئی فریق بھی پریشان نہ ہو قانون اپنا راستہ بنائے گا، اتنی بڑی رقم بیرون ممالک منتقل ہونے پر آصف زرداری کی بجائے قلفی اور فالودہ بیچنے والے ان افراد کو عدالت میں آنا چاہیے جنکے نام ان اکائونٹس میں استعمال ہوئے ہیں، اگر بیرونی ممالک میں بھیجی گئی رقوم درخواست گزار آصف زرد اری یا فریال تالپور کی نہیں پھر تو انھیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت ہی نہیں، درخواست گزار آصف زرداری کی جانب سے لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ انکے موکل نے آئین کے آرٹیکل 184(3)کے حوالے سے نئی متفرق درخواست دائر کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے از خود نوٹس لینے کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا ہے ، فاضل عدالت نے اپنے فیصلہ میں جے آئی ٹی کی تشکیل کرتے ہوئے اسکے اراکین میں آئی ایس آئی کے ایک افسر کو بھی شامل کرکے اختیارات سے تجاوز کیا ہے، صرف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج ہونیوالے مقدمات میں اس طرح کے خفیہ اداروں کے ا فسران کو شامل کیا جاسکتا ہے، سپریم کورٹ کا جے آئی ٹی کی تشکیل کا حکم دینا سمجھ سے بالاتر ہے، سپریم کورٹ ایسا کوئی حکم جاری نہیں کر سکتی جو قانون سے مطابقت نہ رکھتا ہو، جس پر جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا کہ ڈی جی ، ایف آئی اے نے عدالت میں درخواست دی تھی کہ انکے پاس اس نوعیت کے وائٹ کالر کرائمز کاسراغ لگانے کی کوئی اہلیت نہیں۔ چیف جسٹس نے فاضل وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل190 کے تحت سپریم کورٹ کسی بھی ادارے کو تحقیقات کرنے کا حکم جاری کرسکتی ہے ، ابھی تو آپکے موکل اس مقدمہ میں ملزم بھی نامزد نہیں ہوئے تو پھر انھیں اتنی پریشانی کیوں لاحق ہوگئی ہے؟ جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ فاضل عدالت نے کیس کی سماعت کے دوران بلاول بھٹو اور وزیر اعلیٰ سندھ ،مراد علی شاہ کے نام ای سی ایل سے نکالنے کا زبانی حکم دیا تھا ،لیکن جب تحریری فیصلہ آیا تو ایسا کچھ بھی نہیں تھا، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا جو شواہد عدالت میں پیش کیے گئے تھے انکو سامنے رکھتے ہوئے ہی تحریری حکم نامہ جاری کیا گیا تھا۔