لندن (مرتضیٰ علی شاہ) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بھٹوز نے ہمیشہ راولپنڈی میں کربلا کا سامنا کیا ہے اور جعلی اکائونٹس کیس کی سندھ سے راولپنڈی منتقلی اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کی گرفتاری کے بعد یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جعلی اکائونٹس کیس، جس میں ان کے والد اور پھوپھی کو ملوث کیا گیا، کو سندھ سے راولپنڈی منتقل نہیں کیا جانا چاہئے تھا۔ مبینہ کرائم سین سندھ میں ہے، اس لئے اس کی سماعت بھی سندھ میں ہی ہونی چاہئے لیکن سپریم کورٹ نے ان کی درخواست مسترد کر دی کہ نیب جڑواں شہروں میں اس کی انکوائری روکے۔ انہوں نے کہا کہ پی پی پی کے ورکرز یہ کہہ رہے ہیں کہ بھٹوز کو راولپنڈی نے کبھی انصاف نہیں دیا۔ ان کی والدہ بینظیر بھٹو راولپنڈی میں بم دھماکے میں شہید کر دی گئی تھیں اور اب جعلی اکائونٹس کیس کی سماعت وہاں ہورہی ہے۔ ہر وقت پیپلز پارٹی کیلئے پنڈی میں کربلا برپا کی گئی، جس کی ایک تاریخ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پنڈی سے خوف زدہ نہیں ہیں۔ میں پنڈی میں ٹرائل کا سامنا کرنے کو تیار ہوں۔ پاکستان میں دو قانون نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا کہ اگر میرے خلاف مقدمہ راولپنڈی میں چل سکتا ہے تو پھر دوسروں کے مقدمات بھی سندھ میں چلنے چاہئیں۔ بلاول نے الزام لگایا کہ پاکستان میں انصاف کا دہرا معیار کھل کر سامنے آگیا ہے، ان کی فیملی کو انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ عمران خان اور ان کی بہن علیمہ خان اور پی ٹی آئی کے دیگر لیڈرز جہانگیر ترین اور ان کے اتحادی قانون اور احتساب کے دائرے سے باہر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جعلی اکائونٹس کیس کی سندھ سے پنڈی منتقلی بحیثیت پاکستانی شہری ان کے حقوق کے منافی ہے۔ انہوں نے نیب کے ہاتھوں اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی گرفتاری کی شدید مذمت کی اور کہا کہ اسپیکر پر یہ حملہ ناقابل قبول ہے اور یہ سندھ حکومت کو گرانے کیلئے ایک غیر جمہوری کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ انڈی پینڈنٹ اداروں کو سیاسی انجینئرنگ کا حصہ نہیں بننا چاہئے لیکن بدقسمتی سے انتقام کی ایک مہم جاری ہے اور نیب اور انسٹی ٹیوشنز کو سیاسی انجینئرنگ کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں18 ویں ترمیم، این ایف سی ایوارڈ اور بنیادی حقوق حملے کی زد میں ہیں۔ اسلام آباد میں نیب کے ہاتھوں آغا سراج درانی کی گرفتاری سے سندھ میں غلط پیغام گیا ہے۔ پاکستان میں عمران خان اور ان کے لوگوں کیلئے ایک قانون ہے جبکہ باقی ملک کیلئے دوسرا قانون ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے اثاثے اربوں میں ہیں اور انہوں نے 1992 کے بعد کوئی کام نہیں کیا۔1992 کے بعد سے ان کا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں ہے، پھر ان کے پاس یہ پیسہ کہاں سے آیا، ان کا ذریعہ آمدنی کیا ہے۔ ان کی بہن علیمہ خان کے پاس لاکھوں ہیں اور دبئی، نیو جرسی اور نیو یارک میں ان کی پراپرٹیز ہیں۔ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ ان کے پاس ایک سلائی مشین تھی، جس نے ان کو ملینیئر بنانے میں مدد دی۔ جہانگیر ترین کی آف شور کمپنی اور سوئس فارن اکائونٹس ہیں لیکن عمران خان، علیمہ خان یا ترین کے ذرائع آمدن کی تحقیقات کیلئے کوئی جے آئی ٹی نہیں بنائی گئی۔ صرف ہم ہی اس نام نہاد احتساب کا ٹارگٹ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علیمہ خان ہمیں یہ سکھائیں کہ انہوں نے سلائی مشین سے پیسہ کیسے بنایا۔ نیویارک، نیو جرسی اور دبئی میں فلیٹس کیسے بنائے۔ ہم اس سیکرٹ کو جاننے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ بلاول نے کہا کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری کو خود عمران خان نے پاکستان سے نکال دیا تھا جبکہ ان کا نام ای سی ایل میں شامل تھا۔ عمران خان کے دوست کیلئے تمام قوانین کو بالائے طاق رکھ دیا گیا تھا۔ یہ ہیپو کریسی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صرف پاکستان میں بے نامی پرائم منسٹر ملک کے آئین کے ساتھ کھلواڑ کر سکتا ہے۔ انہوں نے پاکستان کے شہریوں کے حقوق انسانی پامال کرنے پر پی ٹی آئی حکومت کی مذمت کی اور کہا کہ ہماری جمہوری اقدار، حقوق انسانی اور جمہوری فضا نشانے پر ہے۔ کسی بھی جمہوریت کیلئے آزادی اظہار انتہائی ضروری اور لازمی ہے۔ یہ سوسائٹی کا اہم ستون ہے۔ بدقسمتی سے یہ سب پاکستان میں حملے کی زد میں ہیں۔ میڈیا کو پلان کے تحت نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بلاول نے کہا کہ پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کے ٹرائل کی میں نے مخالفت کی تھی اور مسلم لیگ (ن) سے کہا تھا کہ اس معاملے کو پارلیمنٹ پر چھوڑ دیں۔ یہ میرا نقطہ نظر تھا کہ اس معاملے کو پارلیمنٹ ڈیل کرے۔ صرف پارلیمنٹ میں ہی سیاست دانوں کا احتساب ہونا چاہئے نہ کہ باہر کے ادارے ایسا کریں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پی ایم ایل این نے میری بات نہیں سنی اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ نیب کےقوانین خوفناک نوعیت کے ہیں اور ان کے قوانین کو سیاسی انجینئرنگ کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جب کسی کے خلاف کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں ملتا تو سیاسی انتقام کے لئے نیب کے خوفناک قوانین ان کےخلاف استعمال کئے جاتے ہیں۔ نیب ایک آزاد اور منصفانہ ادارہ نہیں ہے۔ اس ادارے کو سیاسی انجینئرنگ کیلئے مشرف نے قائم کیا تھا اور پی پی پی اس کا پہلا نشانہ بنی تھی اور اس کے ذریعے کنگز پارٹی بنائی گئی تھی۔ انہوں نے سوال کیا کہ پرویزالہیٰ کیوں آزاد ہے۔ پرویز خٹک کیوں آزاد ہے، زلفی بخاری کیوں آزاد ہے۔ اسد قیصر کیوں آزاد ہے، علیمہ خان اور دیگر پی ٹی آئی لیڈرز کیوں آزاد ہیں۔ صرف سراج درانی کو نیب نے الزامات کی بنیاد پر کیوں گرفتار کیا۔ انہوں نے سوال کیا کہ پرویز مشرف دبئی میں کیوں بیٹھے ہیں اور پاکستان کے آئین کو تباہ کرنے کے بعد آزاد زندگی گزار رہے ہیں۔ صرف ہمارے خلاف جے آئی ٹی کیوں بنائی گئی کہ ہمارے ناشتوں اور کھانوں کی تحقیقات کی جائے جبکہ اسے منجمد اکائونٹس استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ آخر یہ تفریق کیوں، کیا میرا خون ان کے خون سے مختلف ہے یا ہم ان سے کم تر ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے پیش کش کی کہ میں نیب قوانین میں تبدیلی لانے کیلئے عمران خان کے ساتھ ہاتھ ملانے کو تیار ہوں لیکن انہوں نے کہا کہ عمران خان میری یہ پیش کش قبول نہیں کریں گے کیونکہ نیب کے ذریعے پراسیکیوشن اور پولیٹیکل فکسنگ انہیں موزوں لگتی ہے۔ بلاول نے مطالبہ کیا کہ نیب کو ختم کیا جائے۔ شفاف اور منصفانہ بلاتقریق احتساب کیلئے ایک نیا منصفانہ اور آزاد ادارہ تشکیل دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ نیب خطرناک مثالیں قائم کر رہا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے خود یہ حکم جاری کیا کہ میرا نام جعلی اکائونٹس رپورٹ سے حذف اور ای سی ایل سے ریموو کر دیا جائے مگر مجھے ملوث کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں ایسا کہاں ہوتا ہے۔ ایسا دہرا معیار کہاں ہوتا ہے۔ تحریری اور زبانی احکامات میں فرق حیرت انگیز ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری فیملی کئی مہینوں سے میڈیا ٹرائل کا سامنا کررہی ہے لیکن انہیں کورٹ میں اپنے دفاع کا حق نہیں دیا گیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں بے رحمانہ انداز میں بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ مجھے فیئر ٹرائل کا حق نہیں دیا جا رہا۔ میرے ساتھی کہتے ہیں کہ بھٹوز کو عدالتوں سے انصاف نہیں ملے گا۔ ایسے ہزاروں کیسز ہیں، جن کی سماعت عدالتوں کو کرنی چاہئے مگر وہ ایسا نہیں کرتی ہیں اور صرف ہم فوکس ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جعلی اکائونٹس کیس عام انتخابات کے دوران نتائج کو تبدیل کرنے کیلئے بنائے گئے تھے۔ سپریم کورٹ نے کوئی سوموٹو ایکش نہیں لیا۔ بلاول بھٹو نے میڈیا ورکرز سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ نئے پاکستان میں میڈیا کی آزادی اور پریس کی آزادی نہیں ہے، ہم پاکستان میں پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے آزادیوں پر حملوں کی مذمت کرتے ہیں، صحافیوں پر حملے ناقابل قبول ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جو آزادیاں تھیں وہ اب خواب ہو چکی ہیں۔