کراچی کے اسکول ٹیچر احمد سایا نے بہترین استاد کا ایوارڈ اپنےنام کرلیا ۔یہ پورے پاکستان کے لیے بڑا اعزاز ہے ۔ایوارڈ کا اعلان ہونے کے بعد ہم نے احمد سایا سے رابطہ کیا۔گرچہ اپنی مصروفیات میں سے انہوں نے ہمیں انٹر ویو دینے کے لیے وقت نکالا لیکن یہ مختصر انٹر ویو ایک دو نہیں کئی ٹیلی فونگ رابطوں میں ہوا ۔کلاس میں جب دس منٹ کا وقفہ ہوتا تو ہم سے رابطہ کرکے ایک دوسوال کے جواب دینے کے بعد رابطہ منقطع ہوجاتا ۔یہ اس بات کا پتا دیتی کہ کلاس کا وقت شروع ہوگیا ہے ،جس کی وضاحت احمد سایا نے ہمیں انٹر ویو دینے سے قبل کردی تھی ۔یعنی وقفے کے دوران آپ سے بات چیت کروں گا ،جیسے ہی کلاس کا وقت شروع ہوگا ،فون کاٹ دوں گا ۔اس دوران ہمیں اس بات کا بہ خوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ اپنے فرائض و ذمے داریوں کو احسن طر یقے سے پورے کررہے ہیں ۔احمد سایا نے ہمارے سوالوں کے جواب میں جو کچھ بتایا ،وہ دیگر اساتذہ ہی نہیں طلباء کے لیے بھی سبق آموز ہے ۔واقعی اس میں کو ئی شک نہیں کہ بچوں کو ان کی منزل تک پہچانے میں والدین کے بعد اگر کو ئی اہم کردار ادا کرتا ہے تو وہ اساتذہ کا ہوتا ہے ۔ ان کی راہ نمائی کی وجہ سے طلبا اس قابل ہوجاتے ہیں کہ راہ میں آنے والی رکاوٹوں کا سامنا بہادری سے کرسکیں ۔اساتذہ کی شخصیت طلباءکے لیے یوں بھی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے کہ وہ ان کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں ۔طلبا ءکی کوشش ہوتی ہے کہ جو کچھ اساتذہ انہیں سکھاتے ہیں وہ ان پر عمل کرکے اپنے اساتذہ کا نام پوری دنیا میں روشن کریں ۔ہمارے ملک میں بھی بہت سے ایسے اساتذہ ہیں جو اپنی ذمے داریاں نبھانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑتے۔ ان ہی اساتذہ میں احمد سا یا کابھی شمار ہوتاہے جو کرا چی میں قائم اے لیول اسکول میں پڑھا تے ہیں ۔گذشتہ دنوں کیمرج یونیورسٹی پریس ایجوکیشن کی جانب سے انہیں’’ ڈیڈیکیٹڈ ٹیچرز ایوارڈ ‘‘ سے نوازا گیا ۔یہ ایسی خبر تھی کہ ان کے بارے میں جاننے کا تجسس ہوا ،سومیں ہم نے ان سے گفتگو کی جو نذ ز قارئین ہے ۔
س:اپنےتعلیمی پس منظر کے بارے میں بتا ئیں ؟
ج:میں نے کراچی میں قائم ایک اسکول سے اولیولز اور اے لیولز کیا،پھر اے سی سی اے( ACCA )اور ایک نجی یونیورسٹی سےایم بی اے MBA ) )کیا ۔بعدازاں آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی سے اپلائیڈ اکائونٹنگ میں بی ایس سی( (honours کیا اب پی ایچ ڈی کرنے کا ارادہ ہے ۔ یہ بتا دوںمیں نےاپنی تما م ڈگر یاںتدریسی ذمے داریوں کے دوران ہی مکمل کی ہیں ۔
س:تدریس کا شعبہ کیوں اپنایا ،کوئی خاص وجہ ،یا شوق تھا ؟
ج: پہلے تو میں نے اپنی پڑھائی کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے پڑھا نا شروع کیا ،پھر آہستہ آہستہ اس میں میری دل چسپی بڑھتی چلی گئی ۔بعدازاں میں نے اس شعبے کو آگے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ۔اور اپنی انتھک محنت کی وجہ سے آج اس شعبے میں کافی حد تک کام یاب ہوں ۔ اُمید ہے کہ مستقبل میں اسی شعبے میں مزید کچھ کروںگا ۔جب میں نویں جماعت میں تھا جب سے پڑھا رہا ہوں اور اب تک مجھے تقریباً 18 سال ہو چکے ہیں ۔مجھے شروع سے ہی اس فیلڈمیں آنے کا شوق تھا۔لہٰذا میں نےاسی پیشے میں اپنا کیرئیر بنانے کا فیصلہ کیا ۔ علاوہ ازیں اس پیشے کواپنانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایک تعلیم ہی ایسا ہتھیار ہے ،جس کے ذریعے ہم معاشرے میں امیری اور غریبی کے مابین فرق کو مٹا سکتے ہیں ۔ اس ضمن میں ،میں نے غریب بچوں کے لیے ایک اسکول اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کھولا ۔اس کانام ’’The Bridge School‘‘ رکھا،یہ نام اس لیے رکھا کہ امیر اور غریب بچوں کے درمیان حائل دیوار گر جائے اور معاشرے میں موجود غریب بچے بھی تعلیم حاصل کرسکیں ،جس میں 213 طلباء و طالبات زیر تعلیم ہیں ۔فی الحال یہ اسکول نرسری سے چھٹی جماعت تک ہے۔ اگر اس تعداد کا پوری دنیا کی شر ح خواندگی سے مقابلہ کیا جائے تو یہ بہت ہی کم ہے، کیوں کہ ہمارے معاشرے میں 25 ملین بچے ایسے ہیں جو معاشی بحران کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کررہے ہیں ۔ماہرین تعلیم سے میری درخواست ہے کہ وہ غریب اور پسماندہ علاقوں میں غریب بچوں کے لیے ایک اسکول ضرور کھولیں۔،کیوں کہ ہمیں روشن مستقبل کے لیے اپنے نوجوانوں کو لازمی بہتر تعلیم فراہم کرنی ہوگی اور میں چاہتا ہوں کہ تعلیم سب کے لیے مکمل طور پر مفت ہو، تا کہ امیر اور غریب طبقے کے بچے بر ابر کی تعلیم حاصل کر سکیں۔
س: آپ اتنے سالوں سے تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں ،آپ کو اس شعبےمیں پہلے کے مقابلے میں کوئی فرق نظر آتا ہے ؟
ج: سب سے بڑا فرق تو مجھے طالب علموں میں نظرآتا ہے ۔ پہلے کے طالب علم بہت زیادہ محنتی ہوا کرتے تھے لیکن آج کل کے طالب علم زیادہ محنت نہیں کرتے ۔اس کی سب سے اہم وجہ ان کو میسر تیکنیکی سہولتیں ہیں ۔اسی لیے اب ان میں مطالعے کا رجحان بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔ پہلے کے طلبا ءوطا لبات ایک سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے کئی کئی اورپوری پوری کتابیں پڑھتے تھے تب کہی جا کے ان کو جواب ملتا تھا ،مگر اب مطالعے کی عادت کو انٹر نیٹ نےختم ہی کردیا ہے ۔
س:آپ کون سےمضامین پڑھاتے ہیں ؟
ج: میتھس اور اکائونٹنگ کے علا وہ کوئی اور مضامین نہیں پڑھاتا۔مجھے ہمیشہ سے ہی ان مضامین میں زیادہ دل چسپی رہی ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہی دو مضامین میری پہچان بنےہیں اور پچھلے 18 سالوں سےیہی پڑھا رہا ہوں ۔
س:آپ اولیولزاور اے لیولز کے علاوہ میٹرک سسٹم کوبھی پڑھاتے ہیں ؟
ج: جی نہیں میں شروع سے ہی اولیولز اور اے لیولز کو پڑھتا ہوں ۔میٹر ک سسٹم کو کبھی بھی پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا،یہاں تک کہ کبھی میٹر ک سسٹم کو ٹیوشن بھی نہیں دی ۔
س:آپ نے اولیولز اور اے لیولز کی میتھس اور اکائونٹنگ کی دو کتابیں بھی لکھی ہیں اور تیسری لکھنے کے مراحلے میں ہے ؟اس بارے میں کچھ بتائیں ؟
ج: جی میں نے دو کتابیں لکھی ہیں اور تیسری لکھ رہا ہوں جو بہت جلد مارکیٹ میں آ جائے گی ۔
س:حال ہی میںآپ کو’’ بہترین استاد‘‘ کا جوایوارڈملا ہے،کیا اس کے لیے آپ نے اپلائی کیا تھا ؟
ج: میں نے تواپلائی نہیں کیا تھا ،البتہ میرے طلباء نے مجھے نامزد کیا تھا ۔ اس سال کیمرج یونیورسٹی پریس ایجوکیشن کی جانب سے پہلی مر تبہ ’’ ڈیڈیکیٹڈ ٹیچرز ایوارڈ‘‘ کا انعقادکیا گیا ہے ۔اس سلسلے میں ان کی طر ف سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ پوری دنیا کے طالب علم اپنے ڈیڈیکیٹڈ ٹیچرز کو ووٹ کریں ۔اس طرح 140 ممالک سے 4 ہزار ٹیچرز کو نامزد کیا گیا ،اس میں ایک ٹیچر کئی مرتبہ نامزد ہوئے تھے تو کیمرج یونیورسٹی نے ان میں سےپہلے تو 50 کا انتخاب کیا ،پھر ان 50 میں سے 6 کا انتخاب ہو۔ان 6 میں سے ایک کو جیتنا تھا۔ میرے علاوہ باقی 5 کا تعلق انڈیا ،سری لنکا ، ملیشیاء، آسٹریلیا اور فلپائن سے تھا۔ ایوارڈ جتنے کی خبر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر کیمرج یونیورسٹی پریس ایجوکیشن کی طرف سے دی گئی اور مجھے اس کی اطلاع بھی میرے طلباءنے دی کہ یہ ایوارڈ مجھے دیا گیا ہے۔ ایوارڈ کا فیصلہ ووٹنگ کی بنیاد پر کیا گیا ہے ۔
س:اتنا بڑا اعزاز حاصل کرنے کے بعد کیسا محسوس کررہے ہیں ؟
ج: بہت خوش ہوں ،اور اس سے بھی کہیں زیادہ میرے لیے باعث ِفخر بات یہ ہے کہ میں نے اپنے ملک کی نمائندگی بین الا قوامی سطح پر کی ہے ،مگر اس کے ساتھ ساتھ میری ایک اور ذمہ داری بڑھ گئی ہے وہ یہ کہ اب اس اعزاز کا مان رکھنا ہے ،ایک استاد کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو مزید بہترین طریقے سے نبھانا ہے۔میری نظر میں یہ اعزاز اپنے نام کرنا کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہے ،خاص طور پر پاکستان میں ،کیوں کہ یہاں لوگوں کا مائنڈ سیٹ ہے کہ ہمارےاساتذہ اپنے طلباء پر بھر پور توجہ نہیں دیتے ۔جب کہ ایسا نہیں ہے ۔میں اس حوالے سے مکمل طور مطمئن ہوں کہ میں اپنی ذمہ داریاں احسن طر یقے سے نبھا رہا ہوں ۔میری ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ اپنا کام پوری محنت ،لگن اور ایمان داری سے سر انجام دوں۔ہمارے معاشرے میں ایک عام تاثر ہے کہ اساتذہ کا کام صرف نصاب مکمل کروانا ہے ،حالاں کہ ایسا نہیں ہے طالب علموں کی کردار سازی کرنا اور ان کو اخلاقیات کا درس دینا بھی اساتذہ کی ذمہ داریوںمیںشامل ہے ،کیوں کہ اساتذہ اپنے طلباء کے لیے ایک رول ماڈل ہوتے ہیں۔
س: آج جن اسکولز میں پڑھارہے ہیں ،اس سے قبل مزید کتنے اسکولوں میں پڑھایاہے ؟
ج: کئی نجی اسکولز میں پڑھا چکا ہوں ۔لیکن ہمیشہ اولیولز اسکولوں میں پڑھا یا ہے ۔
س:آپ کا شیڈول کیا ہے ،اپنے لیے کتنا وقت نکالیتے ہیں؟
ج: میری روزانہ کی روٹین بہت زیادہ سخت ہے ۔میں صبح 7:30 بجے پہلی کلاس شروع کرتا ہوں اور رات 10:30 بجے آخری کلاس لیتا ہوں۔گرچہ لگاتار کلا سیس لینا خاصاً مشکل کام ہے ،مگر اب میں اس کا عادی ہو چکا ہوں ،اس لیے مجھے مشکل نہیں لگتا ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر آپ میں کو ئی کام کرنے کی لگن ہے تو وہ کام جتنا بھی مشکل ہو بآسانی کرلیتے ہیں ۔لیکن ان سارے کاموں میں مجھے میری فیملی کی سپورٹ بہت زیادہ ہے اگر وہ میرا ساتھ نہ دیتے تو میں یہ کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا ۔اپنے لیے وقت تو مشکل ہی سے ملتا ہے ۔اس مصروف ترین روٹین کی عادت سی ہوگئی ہے ۔میں یہ ضرور کہوں گا کہ میں آج جو کچھ بھی ہوں اپنی فیملی کی سپورٹ اور ان کی دعائوں کی بدولت ہی ہوں ۔
س:اتنی زیادہ مصروفیات میںاپنی فیملی کے لیے کیسے وقت نکالتے ہیں ؟
ج: فیملی کے لیے وقت نکالنا تھوڑا مشکل تو ہوتا ہے ،مگر کوشش کرکے وقت نکال ہی لیتا ہوں ۔میری فیملی کو بھی میری مصروفیات کا اندازہ ہے ،اسی لیے وہ کسی بھی کام کے لیے مجھ پر زیادہ دبائو نہیں ڈالتے۔
س: جو نوجوان اس شعبے میں اپنا کیرئیر بنانا چاہتے ہیں ،ان کو کیا پیغام دینا چاہیں گے ؟
ج: اُنہیں میرا مشورہ ہے کہ وہ آگے بڑھنے کے لیے محنت ضرور کریں۔ پوری لگن اور دل چسپی کے ساتھ اپنے کام کوسر انجام دیں ، یہ سوچےبغیر کہ اس سے ہمارے ذات کو کیا فائدہ ہو گا ۔درس وتدریس ایک ایسا پیشہ ہے ،جس میں پڑھانے والے کو بھی اتنا ہی فائدہ ہوتا ہے جتنا کہ پڑھنے والے کو ۔اس میں مستقل نئی نئی چیزیں سیکھنے کا عمل جاری رہتا ہے ۔