• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویرزمان خان،لندن
رواں ہفتے مادری زبان یا ماں بولی کی اہمیت اور ضرورت کو اجاگر کو کرنے کا ہے۔ میری چونکہ مادری زبان پنچابی ہے اس لئے میں زیادہ بات تو اس حوالے سے کروں گا۔ لیکن میری بات ماں بولی پر اس طرح لاگو ہوتی ہے جس طرح پنجابی پر، آج جدید تحقیق کے مطابق دنیا میں 7100زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں دو ہزار زبانیں تو ایسی ہیں جنہیں ایک ہزار سے کم لوگ بولتے ہیں۔ دنیا میں چینی زبان سوا ارب لوگ بولتے ہیں جو کہ سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے جبکہ پنجابی دنیا کی گیارہویں نمبر پر بولی جانے والی زبان ہے جسے 15کروڑ انسان بولتے ہیں۔ یونیسکو کی ایک دلچسپ رپورٹ کے مطابق دنیا میں سات ہزار سے زائد بولی جانے والی زبانوں میں سے نصف اسی صدی کے آخر تک بالکل ختم ہوجائیں گی۔ عام طور پر جس زبان کو ریاست کی جانب سے احترام اور قبولیت نہ ملتی ہو وہ زبان کمزور اور بیمار رہتی ہے اور اپنی صحت کیلئے واویلا کرتی رہتی ہے،جیسے پنجابی، یوں تو پاکستان کی ساری قومی زبانوں کو سوتیلی زبانیں ہی سمجھا جاتا ہے۔ رابطے کی زبان کو قومی زبان کہا جاتا ہے، حالانکہ قبولیت اور توجہ دی جائے تو سب لوگ ایک دوسرے کی زبانیں بھی سیکھ سکتے ہیں۔ عام خیال ہے کہ بچہ کم از کم پانچ زبانیں بآسانی سیکھ سکتا ہے جسے وہ لکھ، بول، پڑھ اور سمجھ سکتا ہے۔ آپ کہیں گے کہ بات پنجابی زبان کی کر رہا ہوں لیکن اردو میں۔ تو ایک اردو اخبار میں اردو ہی لکھا جاسکتا ہے لیکن یہ بات اس پہلو کو آشکار کرنے کیلئے کافی ہے کہ زبانوں کی ٹوٹ پھوٹ حکمرانوں کے مفادات کے حوالے سے ہوتی چلی آرہی ہے برصغیر نے ایسے کئی حملے اپنی زبانوں پر جھیلے ہیں۔ مقامی زبانوں کو سب سے زیادہ متاثر کرنے والی بدیسی زبانوں میں عربی، فارسی اور اب انگریزی ہیں۔ اسی طرح اردو نے بھی حکمران طبقات کے مفادات کی خاطر مقامی زبانوں کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ پنجابی آج اس لئے مضبوط اور قائم دائم ہے کیونکہ اس کے تحفظ کیلئے واویلا اور تحریک موجود ہے۔ یوں تو کوئی بھی زبان اس وقت تک پڑھی لکھی بولی سمجھی نہیں جاسکتی جب تک کہ اسے صرف یونیورسٹیوں میں نہیں بلکہ بچوں کو سکولوں میں  لازمی مضمون کے طور پر نہ پڑھایا جائےکیونکہ بچوں میں زبان کا محاورہ اس عمر میں رچتا بستا اور پروان چڑھتا ہے پنجابی کے ساتھ اچھوتوں والا سلوک ہوتا ہے۔ آج پنجاب کے کئی بڑے انگلش میڈیم سکولوں میں بچوں کے پنجابی بولنے پر پرنسپل کی جانب سے نوٹس ایشو ہو جاتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی بچہ اپنی مادری زبان بولے تو وہ جرم کے زمرے میں آئے گی۔ اس طرح حکمران طبقات نے اپنی نفرت سے پنجابی کو سماجی اور اقتصادی عمل سے علیحدہ کردیا ہے۔ پنجاب کی نہ تو عدالتوں میں پنجابی بولنے کی اجازت ہے نہ دفاتر میں۔ حتیٰ کہ پنجاب اسمبلی میں بھی جہاں پہنچنے والے ممبران اپنی زبان بولنے والوں سے ووٹ لے کر وہاں تک پہنچے ہیں۔ وہ بھی اپنا اظہار خیال اور عوام کے مسائل اور جذبات کی عکاسی اپنی مادری زبان میں نہیں کرسکتے۔ کیونکہ کچھ مخصوس طبقہ کو گنواروں کی زبان سمجھتی ہے۔ اس احساس کمتری نے پنجاب کے اندر پنجابی بولنے والوں میں جو شاعر اورادیب پیدا کئے ان کی اکثریت نے پنجابی کی بجائے اردو کو اپنا ذریعہ اظہار بنایا۔ اس لئے آج اردو کے بڑے بڑے شعرا اور اُدبا کی مادری زبان تو اردو ہے ۔ اس لئے آج یہ زبان روزگار کی زبان نہیں بنی۔ پنجابی بولنے والے ماں باپ اپنے بچوں سے اردو بولتے ہیں حتیٰ کہ اب خوانچہ فروش بھی اردو میں آوازیں لگاتے ہیں اس کا اثر محض پاکستان کے پنجاب میں ہی نہیں ہوا بلکہ ہندوستانی پنجاب بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ پاکستانی پنجاب میں تقسیم کے بعد فلم ،ڈرامہ اور تھیٹر میں پنجابی کی روایت خاصی مضبوط نظر آتی ہے۔ پنجابی فلم نے نہ صرف بڑی مارکیٹ بنائی بلکہ مشرقی پنجاب کے سینما کو بھی اپنے اسلوب سے گہرا متاثر کیا۔ ٹی وی پر بھی روزانہ کوئی نہ کوئی پنجابی ڈرامہ پرائم ٹائم میں ٹیلی کاسٹ ہوتا تھا۔ ریڈیو پر جتنے مشہور پروگرام ہوتے وہ پنجابی میں ہی ہوا کرتے تھے۔ اب تو خیر پنجابی ڈرامہ پرائم ٹائم تو دور کی بات بلکہ ٹی وی سے پنجابی ڈرامہ چیزیں وغیرہ بالکل ہی غائب ہوچکی ہیں۔ البتہ تھیٹر اور سٹیج پر پنجابی میں کام تو موجود ہے لیکن محض مزاح کی حد تک موجود ہے۔ ادبی تنظیموں میں 70کی دہائی میں پنجابی سنگت جس میں شفقت تنویر مرزا، راجہ رسالو، اکبر لاہوری ، نجم حسین سید وغیرہ موجود تھے۔ آج منظور اعجاز اور عامر ریاض کی آن لائن و چار، پنجم، پلیکھا وغیرہ جیسی کاوشیں قابل قدر ہیں۔ دوبارہ شروع ہونے والا پنجابی، اخبار سجن اور نیا آنے والے بارہ ماہ پنجابی زبان کی روح کو جسم سے جوڑے رکھے ہوئے ہیں۔ کچھ نام جو مجھے یاد ہیں اس میں استاد دامن، احمد راہی، علی عباسی جلالپوری، احمد سلیم، مظہر ترمذی، فخرزمان، مسعود ثاقب، بابا نجمی، آصف خان، ڈاکٹر سعید بھٹہ ایسے نام ہیں جو پنجابی زبان کی آبیاری کررہے ہیں، امرتا پریتم کے بغیر یہ ذکر ادھورا ہے۔ نئے ابھرتے ناموں میں افضل ساحراور نذہت عباس کا نام آتا ہے اس لئے اپنی ماں بولی کو بھولنا خود کو ہی کو کھاجانے کے مترادف ہے۔ ہماری شناخت اپنی زبانوں کے بولنے، لکھنے اور پڑھنے میں ہے یہی ہماری کلچری کی جڑیں ہیں۔
تازہ ترین