• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوام متحد ہ نے ایشیا اور پیسیفک ممالک سے متعلق ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ ممالک 2018ء تک صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ سے متعلق بہت کم بجٹ مختص کرتے رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ممالک زیادہ تر علاقائی لڑائیوں اور قدرتی آفات کا شکار رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی بنیادی ضرورتوں کے مسائل نظر انداز ہو رہے ہیں البتہ ایک خوش آئند بات اس رپورٹ میں یہ ہے کہ ان ممالک میں پرائمری اسکولوں میں بچوں کے داخلوں کی تعداد نوے فیصد تک بڑھ گئی ہے۔ البتہ پاکستان اور کمبوڈیا میں اسکول جانے والے بچوں کی تعداد اب بھی پینتالیس فیصد سے کم ہے۔ دنیا میں تعلیم ،صحت اور سماجی تحفظ پر اوسطاً جی ڈی پی کا 11.2فیصد مختص کیا جاتا ہے جس کے مقابلے میں ایشیا پیسیفک کے ترقی پذیر ممالک اپنے بجٹ کا صرف 3.7فیصد مختص کرتے ہیں اور اگر کوئی غریب آدمی معذور یا بے روزگار ہو جائے تو ریاست 60فیصد عوام کو کسی قسم کا تحفظ فراہم نہیں کرتی۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ یہ ممالک اپنے بجٹ کا دو تہائی حصہ ان مدات میں مختص کریں اور کہا گیا ہے کہ ان ممالک کے 1.2ارب افراد کی روزانہ کی کمائی فی کس صرف 3.2ڈالر سے بھی کم ہے جبکہ چار سو ملین افراد شدید غربت کا شکار ہیں جو روزانہ 1.9ڈالر سے بھی کم کماتے ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ان افراد میں سے دو تہائی افراد بھارت اور پاکستان کے شہری ہیں۔ رپورٹ میں ریاست اور شہریوں کے درمیان اس بنیادی رشتے کے نہ ہونے کی اصل وجہ حکمرانوں کے درمیان سیاسی ہم آہنگی کے فقدان کو قرار دیا گیا ہے۔ یقیناً جمہوریت کوئی ایسا عمل نہیں ہے جس کو سماج سے الگ کرکے دیکھا جا سکے لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک میں سماجی تبدیلی کا سب سے بڑا محرک سیاسی عمل ہی ہوتا ہے بشرطیکہ تمام ادارے آئین اور جمہوری عمل کی پاسداری کریں تاکہ سیاست ارتقا پذیر ہو کر صرف اور صرف سماجی مسائل کا حل تلاش کر سکے۔

الیکشن سے پہلے عمران خان نے بار بار پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کادعویٰ کیا تھا جس سے خیال کیا جا رہا تھا کہ ریاست عوام کو تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ اور رہائش کی سہولتیں فراہم کرنے میں معاون ثابت ہوگی اور ان سہولتوں کو مہیا کرنے کے لئے ضروری قانون سازی کرے گی۔ پارلیمنٹ میں ایسا ماحول بنایا جائے گا جس سے حکومت اور حزب اختلاف ایک ہی صفحے پر نظر آئیں۔ اب تک تحریک انصاف کی حکومت نے ان وعدوں کی طرف توجہ دینے کے بجائے مفلسی اور بدحالی میں ہوشربا اضافہ کیا ہے۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی کا کوئی ماحول نہیں ہے، اس کی کارروائی مسلسل بدنظمی، انتشار اور افراتفری کا شکار ہے۔ دونوں طرف سے ممبران ناشائستہ اور تحقیر آمیز زبان استعمال کرتے ہیں۔ وزرا اور وزیراعظم کا مسلسل پارلیمنٹ نہ آنا کوئی اچھی نوید نہیں سناتا۔ شہباز شریف کو پی اے سی کا چیئرمین بنا کر ایک مثبت پارلیمانی روایت کو آگے بڑھایا گیا تھا، ضرورت تو یہ تھی کہ ایوان کی ان کارروائیوں اور فیصلوں کو دیگر فورمز اور عدالتوں میں لے جاکر ان اداروں کی تضحیک کو روکا جاتا۔ اس صورتحال میں سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی نے جو گیارہ نکاتی تجاویز پیش کی تھیں، وہ جمہوری پارلیمانی تقاضوں کی پاسداری کرتی ہیں۔ ان تجاویز کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ نہ صرف آئین اور قوانین کے مطابق کام کرے بلکہ داخلی اور خارجی پالیسیوں کا مکمل امین بھی یہی ادارہ ہو اسلئےکہ اس کو بہرحال اکیس کروڑ عوام نے اپنے ووٹوں سے منتخب کیا ہے۔ رضا ربانی نے اپنی تجاویز میں اپوزیشن کو بھی تنبیہ کی ہے کہ وہ حکومت کی سیاسی نگرانی کرے اور احتساب کے حق کو قواعد و ضوابط اور جمہوری روایتوں کا مرہونِ منت بنائے تاکہ پارلیمنٹ کی کارروائی کسی تاخیر کا شکار نہ ہو۔ امید کی جاتی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت سینیٹر رضا ربانی کی ان تجاویز پر سنجیدگی سے عمل پیرا ہونے کی کوشش کرے گی تاکہ عوام سے کئے گئے فلاحی ریاست کے وعدے کی تکمیل ہو سکے۔

آج پاکستان ایک سنگین اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے۔ روز مرہ کے انتظامی اخراجات پورے کرنے کی خاطر ترقیاتی اخراجات میں کمی کی جا رہی ہے حتیٰ کہ سوئی گیس اور بجلی کے بلوں میں اچانک کئی گنا اضافہ کرکے عوام کو مزید مہنگائی کی دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے، بیرونی قرضوں میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ تجارت کا توازن حد سے زیادہ خراب ہو گیا ہے۔ نجی بچت اور نجی سرمایہ کاری ماند پڑ گئی ہے۔ پراپرٹی اور تعمیرات کے شعبوں میں غیر متناسب توسیع اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ ہماری معیشت مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ زراعت اور صنعت دونوں انتہائی پسماندہ حالت میں ہیں اکیس کروڑ آبادی میں سے صرف 17لاکھ لوگ ٹیکس ریٹرن جمع کراتے ہیں۔ اس انتشار زدہ سیاسی و معاشی ماحول میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگی ماحول کا پیدا ہو جانا برصغیر کے غریب عوام کیلئے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ ان حالات میں یہی بہتر ہو گا کہ جنگ کا یہ ماحول ہر صورت ختم ہو وگرنہ اقوام متحدہ کی2019ء کی رپورٹ 2018ء سے بھی بدتر ہو گی۔ اسلئے ضروری ہے کہ آج کے دانشور، محقق اور ادیب آنیوالی نسلوں کو جنگی جنون کے حصار سے نکالیں اور ساحر لدھیانوی کا یہ پیغام برصغیر کے کونے کونے میں پھیلا دیں کہ!

خون اپنا ہو یا پرایا ہو

نسلِ آدم کا خون ہے آخر

جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں

امنِ عالم کا خون ہے آخر

بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر

روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے

کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے

زیست فاقوں سے تلملاتی ہے

ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں

کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے

فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ

زندگی میتوں پہ روتی ہے

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

جنگ مسئلوں کا حل کیا دے گی

تازہ ترین