• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قبروں پر کتبے نصب کرنے کا مقصد اُن کی نشان دہی کے علاوہ وہاں ابدی نیند سونے والوں سے عقیدت و محبت کا اظہار بھی ہے۔ آج بھی عام قبرستانوں تک میں جا بہ جا مختلف قبروں کو سجانے، سنگِ مرمر سے مزیّن کرکے رنگ و روغن کرنے کا رواج عام ہے۔ صدیوں پہلے اسی جذبے کے تحت مغل شہنشاہ، شاہ جہاں نے اپنی محبوب ملکہ، ممتاز محل کے لیے منقّش درودیوار، محراب اور تاج سے مزیّن ایک شان دار محل ’’تاج محل‘‘ تعمیر کروایا، جو کئی صدیاں گزرجانے کے باوجود آج بھی دنیا بھر میں محبت کا استعارہ ہے۔

پاکستان کے مختلف شہروں، قصبات میں متعدد قدیم، تاریخی قبرستان اور قبریں موجود ہیں، لیکن کراچی اور بلوچستان کے علاقوں میں صدیوں پرانے ’’چوکنڈی قبرستان‘‘ اپنی تعمیر اور تزئین و آرائش کے سبب منفرد و جداگانہ اہمیت کے حامل ہیں۔ کراچی میں رزاق آباد پولیس ٹریننگ سینٹر، لانڈھی کے عقب میں واقع ’’چوکنڈی قبرستان‘‘ کے پُرسکون ماحول اور مخصوص فنِ تعمیر کو دیکھ کر دنیا کی بے ثباتی کا احساس شدید تر ہوجاتا ہے۔چوکنڈی کے معنی چار کونوں کے ہیں اور یہ نام بھی شاید اسی لیے استعمال کیا گیا ہے۔ قبروں کی تعمیر میں زرد رنگ کا پتھر استعمال ہوا ہے، جو ٹھٹّھہ کے قریب جنگ شاہی میں پایا جاتا ہے۔ مستطیل نما منزل بہ منزل قبریں تقریباً اڑھائی فٹ چوڑی، 5 فٹ تک لمبی اور 4 سے 14 فٹ تک اونچی ہیں۔ قبر کے چاروں طرف استعمال کیے گئے پتھر پر انتہائی خوب صورت نقش نگاری کی گئی ہے۔ اِس قبرستان کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں مَردوں اور خواتین کی قبروں کو الگ الگ رکھا گیا ہے۔ مردوں کی قبروں پر خوب صورت کلاہ نما ڈیزائن یا نیزہ بازی، گھڑسواری اور خنجر وغیرہ کے نقش بنائے گئے ہیں، جب کہ خواتین کی قبروں پر خوب صورت زیورات کندہ ہیں۔ ان نقوش سے مرد و زن کی قبروں کی بآسانی شناخت کی جاسکتی ہے۔

لفظ ’’چوکنڈی کے حوالے سے بہت سی باتیں مشہور ہیں، تاہم اس حوالے سے تاریخ داں، این اے بلوچ کے مطابق ’’سندھ کی ثقافتی روایات کے مطابق معزز شخص کی قبر کے گرد جو چار دیواری یا احاطہ قائم کیا جاتا ہے، اسے ’’چوکنڈی‘‘ کہا جاتا ہے، ان معززین میں صوفی بزرگ، مذہبی اسکالرز، شہید یا بہادر افراد شامل ہیں۔ اس طرز کی تعمیر شدہ قبریں، سندھ اور بلوچستان میں عمومی طورپر تین ناموں سے پکاری جاتی ہیں (1) کلمتی بلوچ (2) گھڑیوں (تراشیدہ) اور (3) رومیوں۔ اوّل کا تعلق نسلی نسبت سے، جب کہ باقی دو کا طرزِ تعمیر سے ہے۔‘‘ گوادر اور پسنی کے درمیان ساحلی قصبے میں رہنے والوں کو ’’کلمتی‘‘ کہا جاتا ہے۔ سندھی میں گھڑیوں (واحد صیغے میں گھڑی) کا مطلب ہے، تراشیدہ۔ خیال کیا جاتا ہے کہ پتھروں کی تراش خراش اور نقش و نگار کو دیکھتے ہوئے انہیں اس نام سے منسوب کیا گیا ہوگا، جب کہ ’’رومیوں‘‘ اگرچہ زیادہ مستعمل نہیں، لیکن یہ نام ان مقبروں کے لیے استعمال ہوتا ہے، جن کی ساخت رُمی (رمبی، فصلوں میں گوڈی کرنے کا آلہ) جیسی ہے۔ یعنی یہ مقابر بھی رُمی کی ساخت کی طرح نیچے سے چوڑی اور اوپر سے پتلی ہیں۔ ان مقابر کی سمت شمالاً جنوباً ہے۔ چوں کہ ان علاقوں میں مکّہ مکرمہ کی سمت جنوب مغرب میں ہے، اس لیے آج بھی مسلمان قبریں اسی سمت میں ترتیب دیتے ہیں تاکہ مُردے کا چہرہ کعبۃ اللہ کی جانب رہے۔ کراچی کے چوکنڈی قبرستان کے علاوہ اس طرح کے مقابر، بلوچستان کے ساحلی علاقے اورماڑہ، کلمت، پسنی، ہنگول ندی، لسبیلہ، ہنی دان، حب اور گڈانی کے قریب بھی موجود ہیں۔ واضح رہے کہ سندھ اور بلوچستان کے باشندے صدیوں سے آمد و رفت کے لیے یہی راستے استعمال کرتے آرہے ہیں۔ ڈاکٹر این اے بلوچ کے بقول ’’سندھ اور بلوچستان میں ان مقابر کو ’’کلمتی بلوچ مقابر‘‘ کہاجاتا ہے۔ کلمتی، بلوچوں کا ایک ذیلی قبیلہ ہے، جس کا تعلق بلوچستان کے ساحلی علاقوں سے ہے، جہاں پسنی اور اورماڑہ کی بندرگاہیں واقع ہیں۔ برفت اور کلمتیوں کی جائے سکونت یہی ساحلی علاقہ ہے۔ کلمت سے کراچی تک اپنے منفرد تعمیراتی ڈیزائن اور خوب صورت حجری کندہ کاری اور نقوش کی وجہ سے ’’چوکنڈی مقابر‘‘ انسانی دل چسپی کے مختلف پہلو لیے آج بھی موجود ہیں۔

کراچی میں لانڈھی کے مقام پرموجود ’’چوکنڈی قبرستان‘‘ عمومی طور پر جوکھیو قبیلے کا قبرستان سمجھا جاتا ہے، جہاں بلوچوں کے بعض مقابر بھی موجود ہیں۔ اُسے پندرہویں سے اٹھارہویں صدی کے درمیان تعمیر کیا گیا۔ اس قسم کے مقابر بلوچستان کے ساحل اور دیگر علاقوں میں جابہ جا ہیں، جنہیں ’’کلمتی بلوچ مقابر‘‘ کہا جاتا ہے۔ زرد پتھروں سے تہہ در تہہ تعمیر کیے گئے ان مقابر پر دل کش کندہ کاری کے بے مثال نمونے انسانی ہنرمندی کی لازوال مثال ہیں۔ یہاں موجود الگ الگ قبروں کے علاوہ بعض قبریں ایک ساتھ ایک ہی پلیٹ فارم کے نیچے موجود ہیں۔ جن کی زیادہ سے زیادہ تعداد آٹھ ہے۔ اہرامِ مصر جیسی مخروطی طرز پر تعمیر شدہ ہر قبرکی بالائی سطح کو چار یا پانچ اُفقی سلیب سے ڈھانپ کر اس طرح جوڑا گیا ہے کہ اس کا شمالی حصّہ تاج یا دستار کی شکل میں نظر آتا ہے۔ ان مقابر پر نصب پتھروں پر جیومیٹریکل ڈیزائنز، مختلف شبیہیں، گُھڑ سواری یا شکار کرتے لوگ، اسلحے اور زیورات کی تصویریں تراشی گئی ہیں۔ حجری کندہ کاری سے مزّین ان مقابر پر، جو رومی مقبرے کے نام سے گڈانی قبرستان (لسبیلہ) بلوچستان اور لانڈھی، کراچی میں پائے جاتے ہیں، 19ویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں توجّہ مرکوز ہوئی۔ لانڈھی کے قریب چوکنڈی قبرستان کو 1904ء میں Ancient Monument Preservation Actکے تحت باقاعدہ حکومتی تحویل میں لیا گیا، جب کہ بیسویں صدی میں بلوچستان کے علاقے ہنی دان میں پولیٹیکل ایجنٹ، میجر ایم اے ٹیگ(Tighe) نے اسی طرح کے مقابر دریافت کیے۔ جے پی ووگل نے پہلی بار اس قبرستان اور اس کے آس پاس دیگر مقابر کے بارے میں تحقیق کی، جن میں کرپسن (ہنی دان کے جنوب میں ایک سطح مرتفع) گُندر (ہنی دان کے جنوب میں ڈنگا کے قریب گائوں) اور منگھوپیر میں واقع قدیم قبریں شامل تھیں۔ انہوں نے پولیٹیکل ایجنٹ قلاّت کیپٹن شاورز کی جانب سے دریافت شدہ قبرستان کی نشان دہی کی، جو حب ندی اور سونمیانی کے درمیان واقع ہے۔ یہ مقابر اسلامی دَور سے متعلق ہیں، کیوں کہ ان پر عربی میں تحریریں کندہ ہیں اور ان کی الائنمنٹ اسلامی طرز کی ہے۔ اسلامی طرزِ تدفین میں مُردے کا سر شمال کی جانب ہوتا ہے۔ کراچی کے چوکنڈی قبرستان میں پائی جانے والی قبریں زیادہ تر جوکھیو خاندان سے منسوب ہیں، جب کہ بعض مقابر ایسے ہیں، جو کلمتی بلوچوں کے ہیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ اس دَور میں بلوچستان کے ساحلی علاقوں کے لوگوں کی سندھ کی طرف تجارت اور دیگر حوالوں سے آمد و رفت رہتی تھی، جن میں سے بعض لوگ مستقلاً سندھ میں رہائش پزیر ہوچکے تھے۔1910ء میں معروف محقق، سر تھامس ہالڈِچ نے ملیر کے قریب دیگر کئی قبرستانوں کا ذکر کیا ہے، جو چوکنڈی طرز کے تھے۔ اسی طرح 1917ء میں ایک اور محقّق، باسکرویل نے بھی چوکنڈی کے قریب ایک نیا قبرستان دریافت کیا، جس کے کئی مقابر پر مدفون اسلامی نام کے ساتھ قرآنی آیات بھی کندہ ہیں۔1925ء میں معروف محقّق، ہنری کزنز نے اپنی کتاب کا ایک باب’’ سندھ کے آثار اور بلوچ مقابر‘‘کے لیے مخصوص کیا۔ اس نے جھرک، سونڈ اور کھر کھارو مقابر کے بارے میں تحقیق کی، جو چوکنڈی مقابر کے طرز کے تھے۔ اُس نے ان مقابر کے حوالے سے ان تصوّرات کو غلط ثابت کیا کہ یہ زمین کے اوپر مدفون ہیں۔کزنز نے ان مقابر کا سندھ کے دیگر مقابر کے ساتھ تقابلی جائزہ بھی لیا ہے۔ وہ سونڈ کے مقبرے اور حیدر آباد میں میاں غلام شاہ کلہوڑو (شاہ وردی خان،1772ء) اور جام نظام الدین (1461-1509ء) کے مقبروں میں مماثلت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ’’دونوں مقامات پر ان ہی پتھروں اور طرز پر مقبرےتعمیر کرکے کندہ کاری کی گئی ہے۔مکلی کے قبرستان میں مدفون، عیسٰی خان ترکھان عیسوی (1644ء) کا مقبرہ بھی اسی طرزِ تعمیرات میں شمارہوتا ہے، جو ایک قسم کے زردی مائل بُھربُھرے پتھر سے بنائے گئے ہیں اور ان کے اوپر چھتری نما گُنبد بھی موجود ہیں۔ اس قسم کی گُنبد نُما قبریں مکلی میں متعدد مقامات پر موجود ہیں، سکھر میں میر معصوم شاہ کا مزار بھی اسی طرز کا ہے۔ یہ سب تعمیرات میاں غلام شاہ کلہوڑو کے دَور کی ہیں۔ جب کہ کاٹھیاواڑ اور کچَھ میں جن مقابر پر گُھڑ سوار کندہ کیا گیا ہے وہ ’’ستی‘‘ (بِن بیاہی عورت) سے منسوب ہے۔‘‘ لسبیلہ (ریاست) سے جنوب مغرب میں باغبانہ گائوں کے قریب ایسے ہی مقبرے کا ذکر Sir Aural Steinکی اُس تحریر میں موجود ہے، جو 1931ء میں شایع ہوئی۔ مقامی روایت کے مطابق یہ مقبرہ مائی معصورہ کا ہے، جو ایک اللہ والی عورت تھی۔ معروف تحقیق دان ، نانی گوپال مجندر 1934ء میں شایع ہونے والی اپنی کتاب ’’سندھ کی قدیم تعمیرات‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’گُجو کے قریب ٹھارو ہِل کے یہ مقابر چودہویں صدی عیسوی سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘ ذوالفقار علی کلہوڑو کی تحقیق کے مطابق، ’’چوکنڈی طرز کے اور دیگر کئی مقبرے بلوچستان کے ضلع لسبیلہ اور جھل مگسی میں بھی ملتے ہیں۔ ضلع جھل مگسی تاریخی طور پر ایک زمانے میں سندھ کے کلہوڑوں کے زیرِ تسلّط رہا ہے۔ یہ علاقہ 1700ء سے 1739ء تک کلہوڑا راج کا حصّہ رہا ۔اس کے بعد ایران کے نادر شاہ نے اسے خان آف قلات کے حوالے کیا۔اس علاقے میں کلہوڑا دور کے کئی مقابر ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ مگسی قوم کی بھی بعض قبریں یہاں موجود ہیں۔ خان آف قلّات کے دَور میں جھل مگسی، مگسی قبیلے کے زیرِاثر رہا۔ کلہوڑا دور کے مقابر خان پور، فتح پور اور گندھاوا میں موجود ہیں۔ خان پور میں میاں نور محمد کلہوڑو (1719-1753ء) کے دَور میں کلہوڑوں اور میر عبداللہ کے لشکر کے مابین ہونے والی جنگ میں میر عبداللہ جاں بحق ہوئے اور کلہوڑوں کو بھی بہت جانی نقصان پہنچا۔ اسی مقام پرجنگ میں مارے جانے والے لشکریوں کے مقابر تعمیر کیے گئے۔دیگر کلہوڑا مقابر گندھاوا میں ہیں، جو شاہ بوہر اور مراد کلیری سے منسوب ہیں۔ کلہوڑا دَور کے مقابر کے علاوہ کچھ مقابر مگسی قبیلے کے ہیں، جو جھل مگسی شہر کے اندر ہیں۔یہ موتی گوھر ام کا قبرستان کہلاتا ہے، جہاں احمد خان بورو کا مقبرہ بھی ہے۔اپنی طرز تعمیر کی وجہ سے یہ مقابر پورے بلوچستان میں ثانی نہیں رکھتے۔ حتیٰ کہ مٹھڑی اور سبّی میں رئیسانیوں کے مقابر، جن کے زیرِ اثر موتی گوھرام کے مقابر تعمیر کیے گئے اور ضلع خاران میں نوشیروانیوں کے مقابر ان کے مقابلے میں زیادہ جاذبِ نظر نہیں ہیں۔کلہوڑا سپاہیوں کے علاوہ گندھاوا میں فتح پور کے سیّدوں کے مزارات، مگسی قبیلےاور خان قلّات سے وابستہ کئی زعماء کے مقابر بھی موجود ہیں۔ضلع لسبیلہ میں جا بجا تاریخی مقابر موجود ہیں، جن میںمکران کے عرب گورنر، محمد بن ہارون کے علاوہ لسبیلہ کے حاکم، کوریجا جام خاندان کے حکمرانوں کے مقابر بھی موجود ہیں، جو چوکنڈی طرز کی ہیں۔

بہرحال، کراچی سے تیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع شہرخموشاں ’’چوکنڈی‘‘ کا تاریخی قبرستان ہویا بلوچستان کے مختلف شہروں میں منفرد فن تعمیر کے حامل تاریخی اہمیت کے حامل قدیم چوکنڈی قبرستان، ان قدیم آثار کی دیکھ بھال اور خصوصی صفائی و مرمت صوبائی حکومتوں کی ذمّے داری ہے۔ سندھ کا محکمہ کلچر نسبتاً زیادہ فعال اور وسائل رکھنے والا ہے، لیکن بلوچستان میں موجود ان آثار کی حالت انتہائی دگرگوں ہے۔ کہیں ان کی طرف جانے والے راستے پر لینڈ مافیا نے قبضہ کررکھا ہے، تو کہیں اینٹیک مافیا اور خزانوں کی تلاش میں منظّم گروہ ان نشانیوں کو تہس نہس کرنے کے درپے ہے، لہٰذا یہ حکومت کی اوّلین ذمّے داری ہے کہ اس ثقافتی اور تاریخی وَرثے کی حفاظت کے لیے خصوصی اور موثر اقدامات کرے، تاکہ یہ اَن مول خزانہ آنے والے وقت میں تحقیق سے دل چسپی رکھنے والے اسکالرز کی رہنمائی کرتا رہے۔

تازہ ترین