• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اِک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں... ’’ہر سُکھ اسکول‘‘

عکّاسی:شبیر قادری

’’ہرسُکھ اسکول‘‘، اپنے نام کی طرح ایک ایسا منفرد اور اچھوتا اسکول ہے، جو نواحی دیہات کے غریب اور متوسّط طبقے سے تعلق رکھنے والے بچّوں کو رنگ ونسل اور ذات پات سے بالاتر ہوکر روشن مستقبل سے ہم کنار کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان، مسٹر جسٹس جوّاد ایس خواجہ نے مئی 2016ء میں ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد بیدیاں روڈ، لاہور کے قریب، ٹھیٹر گاؤں میں موجود اپنی حویلی میں اس اسکول کا آغاز کیا۔ملازمین کے پانچ بچّوں سے شروع ہونے والا اسکول، آج ساتویں جماعت تک کے طلباء و طالبات کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر رہا ہے، جب کہ بچّوں کی تعداد 5 سے بڑھ کر 125 ہو چُکی ہے۔گزشتہ دنوں اس اسکول کے حوالے سے کئی خوش کُن باتیں سُننے کو ملیں، تو ہم نے سوچا کہ اس بے مثال اور قابلِ تقلید ادارے کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہیے، سو، ڈیوس روڈ، لاہور پر واقع اپنے دفتر سے رِنگ روڈ پہنچے۔

بیدیاں روڈ انٹر چینج سے نیچے اُترے، تو پولیس کے ایلیٹ ٹریننگ اسکول کے بعد ٹھیٹر گاؤں آگیا، جہاں سابق چیف جسٹس، مسٹر جسٹس جوّاد ایس خواجہ کی یہ شان دار، بڑی سی حویلی موجود ہے۔ وہ اپنی تینوں بیٹیوں اور ایک بیٹے کے ساتھ یہیں رہائش پزیر ہیں۔ جوّاد ایس خواجہ نے حویلی کی اراضی31 برس قبل خریدی تھی اور اسی حویلی میں’’ ہرسُکھ اسکول‘‘ قائم کیا گیا ہے۔ حویلی اور اسکول کا طرزِ تعمیر لاہور کے قدیم ثقافتی وَرثے اور جدید تقاضوں کا ایک حسین امتزاج ہے۔ اسے مُلک کے ممتاز آرکیٹیکٹ، کامل خان ممتاز کی نگرانی میں تعمیر کیا گیا۔

اِک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں... ’’ہر سُکھ اسکول‘‘
بیگم بینا جوّاد ، تربیت دیتے ہوئے

حویلی میں داخل ہوئے، تو اسکول کی گھنٹی بج رہی تھی اور بچّے اسمبلی کے لیے صحن میں اکٹھے ہو رہے تھے۔ قومی ترانے اور علّامہ اقبال کی دُعائیہ نظم کے بعد بچّے قطار بنا کر کلاسز کی طرف بڑھنے لگے، تو اُنہیں سابق چیف جسٹس، جوّاد ایس خواجہ دِکھائی دیئے، جو اُن ہی کی طرف آ رہے تھے۔بس پھر کیا تھا، بچّے’’ سائیں، سائیں‘‘ کہتے اُن کی طرف دَوڑے اور بعض بچّے تو جا کر اُن سے لپٹ گئے۔ بچّوں کے اس بے لَوث پیار پر جسٹس جوّاد ایس خواجہ کی آنکھیں بَھر آئیں۔ اُنھوں نے بچّوں کو دُعا دیتے ہوئے اپنی اپنی کلاسز میں جانے کو کہا اور وہ کلاسز کی طرف بڑھ گئے۔’’ ہرسُکھ اسکول‘‘ کم ہی عرصے میں جدید تعلیم وتربیت، علم وفن اور تہذیب کا ایک مثالی مرکز بن چُکا ہے۔ اس اسکول کی بہت سے خُوبیوں میں سے ایک نمایاں خُوبی یہ بھی ہے کہ اس عظیم درس گاہ میں نہ صرف سابق چیف جسٹس، جوّاد ایس خواجہ خود بچّوں کو انگریزی پڑھاتے ہیں، بلکہ اُنہوں نے اپنے پانچ نواسے، نواسیوں کو بھی شہر کے بڑے اور مہنگے اسکولز سے اُٹھا کر’’ ہرسُکھ اسکول‘‘ میں داخل کروا دیا ہے۔ نیز، سابق چیف جسٹس کی اہلیہ، بیگم بینا جوّاد بھی باقاعدگی سے میوزک کلاسز لیتی ہیں۔ وہ بچّوں کو کلاسیکل اور مغربی موسیقی دونوں کی تعلیم دے رہی ہیں۔ یہاں سائنس اور مروّجہ علوم کے ساتھ طلبہ کو دینی تعلیم، کمپیوٹر، پینٹنگ، اداکاری، کرّاٹے، جمناسٹک اور یوگا سے بھی رُوشناس کروایا جاتا ہے۔ 

علاوہ ازیں، ان کی کردار سازی پر بھی خصوصی توجّہ دی جاتی ہے۔ اسکول کے پرنسپل، آفتاب احمد شیخ نے ہمارے ایک سوال پر بتایا کہ’’ اسکول میں سابق چیف جسٹس، جوّاد ایس خواجہ، اُن کی اہلیہ، بینا جوّاد اور چار غیر مُلکی اساتذہ سمیت26 اساتذہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔یہاں پِلے گروپ سے ساتویں جماعت تک تعلیم دی جاتی ہے۔ نیز، سائنس لیبارٹری سے متعلق ضروریات پوری کرنے کے لیے طلبہ کو لمز کے مطالعاتی دَورے کروائے جاتے ہیں اور وہاں کے اساتذہ بھی بچّوں کو خصوصی لیکچرز دینے کے لیے’’ ہرسُکھ اسکول‘‘ آتے رہتے ہیں۔‘‘ اسکول فیس سے متعلق ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ’’ بنیادی طور پر یہ اسکول مقامی گاؤں کے بچّوں کی تعلیم وتربیت کے لیے وقف ہے، جن کے لیے ہم نے ماہانہ فیس ایک ہزار روپے مقرّر کی ہے، لیکن اگر والدین کم فیس دینا چاہیں، تو وہ بھی لے لی جاتی ہے۔ اسی طرح، اگر کوئی سِرے سے فیس ادا کرنے کی پوزیشن ہی میں نہ ہو، تو اُس سے فیس نہیں لی جاتی۔ اس کے علاوہ، بچّوں کو یونی فارمز اور کُتب مفت دی جاتی ہیں۔نیز، اُنھیں ہفتے میں ایک روز (جمعرات کو ) مفت کھانا بھی کِھلایا جاتا ہے۔‘‘

اِک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں... ’’ہر سُکھ اسکول‘‘
سابق چیف جسٹس جوّاد ایس خواجہ، اہلیہ اور اساتذہ کے ساتھ

پریپ کلاس کے ننّھے مُنّے بچّوں کو پڑھانے کے لیے دو ماہر خواتین اساتذہ کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، جب کہ بچّوں کو قرآنِ پاک ترجمے کے ساتھ پڑھانے کا بھی خصوصی طور پر انتظام کیا گیا ہے۔ سابق چیف جسٹس، جوّاد ایس خواجہ پانچویں سے ساتویں جماعت تک کے طلباء و طالبات کو انگریزی پڑھاتے ہیں۔ اُن سے موجودہ نظامِ تعلیم پر بات ہوئی، تو اُنھوں نے سَرد آہ بھرتے ہوئے کہا’’ اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ موجودہ نظامِ تعلیم معاشرے میں تفریق پیدا کرتا ہے اور یہ قومی یک جہتی کے لیے زہر ہے۔‘‘ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ’’ معیاری تعلیم مہیا کرنا سرکار کی ذمّے داری ہے، جو وہ نہیں کر رہی۔ پھر یہ کہ ہمارے ہاں بڑی تعداد میں ایسے نجی اسکولز بھی ہیں، جو50 سے 60 ہزار روپے ماہانہ فیس لیتے ہیں، لیکن اُن کی مجموعی کارکردگی کسی صورت تسلّی بخش قرار نہیں دی جا سکتی۔ میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ ایسی قوم کبھی ترقّی نہیں کر سکتی، جو تفریق کا شکار ہو۔‘‘ انگریزی طریقۂ تدریس سے متعلق اُنہوں نے کہا’’ دیکھیں جی! انگریزی ایک بہت اچھی اور اہم زبان ہے، اسے ضرور سیکھنا چاہیے، لیکن انگریزی پڑھنا اور انگریزی میں پڑھنا دو مختلف باتیں ہیں۔ اگر طلبہ کو اُن کی زبان میں تعلیم دی جائے، تو وہ آسانی سے سمجھ لیتے ہیں۔‘‘ اُنھوں نے’’ ہرسُکھ اسکول‘‘ کے آغاز کے حوالے سے بتاتے ہوئے کہا کہ’’ ہم نے ابتدائی طور پر اپنے گھر کے ملازمین کے پانچ بچّوں کو پڑھانے کے لیے حویلی کا ایک کمرا مختص کرکے ٹیچر کا انتظام کیا، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اردگرد کے گاؤں کے بچّے بھی آنا شروع ہوگئے اور کچھ ہی دنوں میں بچّوں کی تعداد پانچ سے بڑھ کر30 اور پھر 40 ہوگئی۔

لہٰذا ،ہم نے حویلی کے مزید کمرے اسکول کے لیے مختص کر دیے۔ آج اس اسکول میں میرے پانچ نواسے، نواسیوں سمیت 125 طلباء وطالبات زیرِ تعلیم ہیں۔ نیز، مستقبل میں اسکول کی بڑھتی ہوئی ضرویات کے پیشِ نظر حویلی کے قریب ہی پانچ کینال اراضی بھی حاصل کی جارہی ہے۔‘‘ اُنہوں نے مزید کہا کہ’’ جس دِل میں انسانی ہم دَردی نہ ہو، وہ غریب ہے۔ مَیں نے بہت سے ارب پتی غریب دیکھے ہیں، لیکن یہ بچّے غریب نہیں ہیں۔ یہ ارب پتیوں سے زیادہ امیر ہیں۔ میرے نزدیک دیگر بچّے بھی میرے نواسے، نواسیوں ہی جیسے ہیں، ان میں کوئی امیر اور غریب نہیں۔‘‘وہ اسکول میں زیرِ تعلیم بچّوں کے مستقبل کے حوالے سے بہت پُراُمید دِکھائی دیئے۔ اُن کا کہنا تھا کہ’’ یہ بچّے مُلک وقوم کا مایہ ناز سرمایہ بن کر اُبھریں گے۔‘‘

بیگم جوّاد ایس خواجہ’’ ہرسُکھ اسکول‘‘ کی مقبول اور ہر دِل عزیز ٹیچر ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ’’ ہم طلبہ کو نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں تربیت دیتے ہیں،جسے بدقسمتی سے ہم میں سے بہت سے لوگ بھول چُکے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ بچّے پیارومحبّت کے ساتھ رہیں، اچھے انسان بنیں، اپنی خُوبیوں کو تلاش کریں، جب وہ ایسا کریں گے، تو اُنھیں خوشیاں ملیں گی اور ہم اُنہیں خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘ جب ہم نے اُن سے میوزک اور یوگا کلاسز کے بارے میں جاننا چاہا، تو اُنھوں نے کہا’’ کائنات کی ہر چیز میں رِدھم ہے۔ چاند ستارے رِدھم میں چلتے ہیں، ہمارا دِل بھی مخصوص رِدھم میں دَھڑکتا ہے، تو رِدھم کے بغیر زندگی بیلنس نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا ،مَیں سمجھتی ہوں کہ اگر بچّے رِدھم میں آجائیں، تو اُن کے ذہن پُرسکون ہو جائیں گے۔‘‘اُنہوں نے مزید کہا کہ’’ گاؤں کے بچّے اسکول میں جس دِل چسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں، اُسے دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ یہ معصوم فرشتے، ایک روز مختلف شعبوں میں، دنیا بھر میں پاکستان کا نام اور پرچم ضرور سربلند کریں گے۔‘‘

جوّاد ایس خواجہ کے نواسے اور نواسیوں سے بات ہوئی، تو وہ بھی یہاں بے حد خوش تھے۔ یوں بھی بچّے تو مَن کے سچّے ہوتے ہیں، یہ بڑوں کی طرح جھوٹ بولتے ہیں، نہ ڈینگیں مارتے ہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ’’ وہ گاؤں کے بچّوں کے ساتھ بڑے ذوق و شوق سے پڑھ رہے ہیں، اسکول کے اساتذہ بہت اچھے ہیں اور اسکول میں ہم سب برابر ہیں۔ہمیں گاؤں کے بچّوں کے ساتھ پڑھنا بہت اچھا لگتا ہے۔‘‘ یہاں کی ایک ٹیچر کو بچّے پیار سے’’ دادی امّاں‘‘ کہتے ہیں، جو اُنہیں علّامہ اقبال، فیض احمد فیض، غالب اور بابا بلّھے شاہ کا کلام سُنانے کے ساتھ، مزے مزے کی کہانیاں بھی سُناتی ہیں۔’’ ہرسُکھ اسکول‘‘ میں زیرِ تعلیم گاؤں کے مختلف بچّوں سے بات ہوئی، تو اُن کا کہنا تھا کہ’’ سائیں ہمیں بہت پیار کرتے ہیں، بالکل ویسا پیار، جیسا وہ اپنے نواسے، نواسیوں سے کرتے ہیں، وہ ہمیں اُن کے برابر ہی سمجھتے ہیں۔‘‘ 

ان بچّوں نے مزید کہا کہ’’ اسکول بہت اچھا ہے، وہ پڑھایا جاتا ہے، جو بچّے پڑھنا چاہتے ہیں، زبردستی نہیں کی جاتی۔ اسکول میں کتابوں کے ساتھ ساتھ میوزک اور آرٹ بھی پڑھایا جاتا ہے۔ اساتذہ چاہتے ہیں کہ ہم اچھے انسان بنیں اور کام یاب زندگی گزاریں۔ یہاں اتنا اچھا پڑھایا جاتا ہے اور اتنی محبّت ملتی ہے کہ اسکول سے چُھٹی کرنے کو دِل نہیں کرتا۔‘‘ پینٹنگ اور آرٹ کی تعلیم بچّوں کے تعلیمی شوق کو جِلا بخشتی ہے، بچّے ان کلاسز میں رنگوں کے ساتھ کھیلتے کھیلتے بہت کچھ سیکھ جاتے ہیں۔بلاشبہ’’ ہرسُکھ اسکول‘‘ جدّت، تہذیب وتمدّن اور روایات وثقافت کا ایک حسین، بہترین امتزاج ہے۔ 

تازہ ترین