عفت بانو
آئے دن اخبارات میں یہ خبریں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں کہ پاکستان سے غیر قانونی طور پر بیرونِ ملک جانے والے افراد یا تو سرحدی محافظوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے یاگرفتار ہوگئے یا یہ خبر آتی ہے کہ لانچ ڈوب گئی اور اس میں سوار تمام افراد جو غیر قانونی طور پر ملک سے باہر جارہے تھے سمندر کی بے رحم لہروں کا شکار ہوگئے ۔خبروں کے مطابق دیار غیر جانے والے بیش تر نوجوان تھے جو یا تو پڑھنے یا پھر روزگار کی تلاش میں مستقبل کے لیے جا رہے تھے۔ یہ خبریں ہر حساس پاکستانی کو بے چین کرتی ہیں ۔سوال یہ ہے کہ، کیا وجہ ہے کہ ہمارا نوجوان اپنے ملک میں رہ کر محنت کرنے کے بجائے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اپنے وطن اپنے گھر ،اپنے والدین ،بہن بھائیوں سے دور کیوں جاناچاہتا ہے؟ دراصل آج کے مضمون میں چند وجوہ درج ذیل ہیں۔
بیش تر نوجوانوں کو راتوں رات امیر بننے کی خواہش ہوتی ہے اور یہ احمقانہ سوچ کہ شاید دوسرے ملکوں میں انہیں اچھا روزگار ملے گا۔ شاید وہاں درختوں پر پیسے لگے ہوئے ہیں جنہیں توڑ کر اپنی اور اپنے گھر والوں کی خواہشات پوری کی جاسکتی ہیں ۔
ہمارا سماجی ڈھانچا بھی ایساہے کہ غریب اور متوسط طبقے میں والدین اپنے بیٹوں پر اپنی خواہشات کابوجھ ڈال دیتے ہیں کہ پڑھ لکھ کر دوپیسے کمائے گا، اب مکان بھی یہی بنائے گا بہنوں کی شادیاں بھی یہی کرے گا یوں اپنے والدین کی خواہشات کی تکمیل کے لئے یہ نوجوان جان کی بازی لگادیتے ہیں کچھ یقیناً کامیاب بھی ہو جاتے ہوں گے ،لیکن بعض اپنے والدین کو زندگی بھر کا دکھ دے جاتے ہیں۔ ترقی کرنے کی خواہش کوئی بری بات نہیں ، ملک سے باہر جاکر تعلیم حاصل کرنے کی روایت بہت پرانی ہے ہمارے مشاہیر کی اکثریت نے برطانیہ و جرمنی کے اعلٰی تعلیمی اداروں میں نام پیدا کیا لیکن وہ لوگ قانونی طور پر ملک سے باہر جاتے تھے اور اب بھی جو لوگ قانونی طور پر ملک سے باہر جاتے ہیں وہ بیرونِ ممالک میں کام کر کے زرِ مبادلہ بھیجتے ہیں خود بھی کامیاب رہتے ہیں اور وطنِ عزیز کے لئے بھی مفاد کاباعث بنتے ہیں ۔
یہاں مسئلہ تو ان بے آسرا لوگوں کا ہے جن کے پاس وسائل کی کمی ہے نہ اعلیٰ تعلیم اور نہ ہی قانونی طور پہ ملک سے باہر جانے کے لئے خطیر رقم، ایسے نوجوانوں کو حقائق کا سامنا کرتے ہوئے اپنے ملک میں رہتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیا وجہ ہے کہ ہمارے نوجوان اپنے ملک میں وہی کام کرنے سے کتراتے ہیں جو باہر جاکر باآسانی کرلیتے ہیں ۔
بہت سے نوجوان اپناآبائی پیشہ اختیار کرنے سے گھبراتے ہیں پتہ نہیں، کیوں باہر جاکر پیسہ کمانے کے حوالے سے ہمارے ہاں بے شمار غلط فہمیاں ہیں۔ کہاوت ہے، ’’دور کے ڈھول سہانے‘‘ جب کہ سچ بات یہ ہے کہ اگر ہمارے نوجوان اپنے ملک میں رہ کر اتنی ہی محنت کریں جو باہر جاکر کرتے ہیں تو کامیابی یہاں بھی ان کا مقدر ہوسکتی ہے ،تاہم اگر کوئی باہر جانا بھی چاہے تو اسے پہلے تمام معلومات حاصل کرنی چاہئے۔ آج کے دور میں تو نیٹ پر تمام معلومات دستیاب ہیں۔ جس ملک میں جانا چاہتے ہیں ۔وہاں کے بارے میں آپ کو علم ہونا چاہئے کہ آپ کی تعلیم اور ہنر کے مطابق وہاں آپ کیا کام کرسکتے ہیں اور کتنے پیسے کماسکتے ہیں اگر آپ مطمئن ہوں تب ہی اگلا قدم اٹھائیں، لیکن کبھی دوسروں کی باتوں میں آکر کوئی فیصلہ نہ کریں۔
افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ، ہمارے ملک میں ایسے ظالم، بے رحم اور بے حس لوگ موجود ہیں جو نوجوانوں کو سبز باغ دکھا کر اُن کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں اس لئے جب کوئی نوجوان ملک سے باہر جانے کا ارادہ کرے تو اس ایجنٹ کے بارے میں تفصیلی اور درست معلومات بھی حاصل کرنا چاہئے، جس کے ذریعے وہ باہر جانا چاہتا ہے کبھی بھی غیر قانونی طور پر ملک سے باہر جانے کا نہ سوچیں اور اپنے دوستوں کو بھی اس حوالے سے آگاہ کریں ۔
جہاں تک ان بے ایمان اور دھوکہ باز لوگوں کا تعلق ہے جو مستقبل کے سنہرے سپنے دکھا کر لوٹتے ہیں حکومت کو ان کے خلاف سخت کاروائی کرنی چاہئے اور ساتھ ہی ساتھ نوجوانوں کے لئے ملازمت کے نئے مواقع مہیا کرنے چاہئے۔ وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان بار بار کہتے ہیں کہ ملک میں سیاحت کے حوالے سے بہت ترقی ہوسکتی ہے تو اب دیر کاہے کی یقیناً سیاحت وسیع شعبہ ہے اس میں بہت سے لوگوں کو باقاعدہ ملازمت مل سکتی ہے۔ شمالی علاقہ جات کے نوجوانوں کے لئے سیاحت کے حوالے سے بہت سی ملازمتیں نکلنی چاہیے، تاکہ وہ اپنے علاقے میں رہ کر باعزت روزگار حاصل کرسکیں لوگ کام تو اب بھی وہاں کرتے ہیں لیکن اگر اس کام کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہوجائے تو کیا بات ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کو مشاہرے یعنی تنخواہوں کے حوالے سے بھی سوچنا چاہئے اور مہنگائی کو سامنے رکھتے ہوئے تنخواہوں کاتعین کرنا چاہئے جہاں تک نجی شعبے کا تعلق ہے حکومت کو اس پر بھی نظر ڈالنی چاہئے کہ آیا یہ لوگ اپنے ملازمین کو کچھ سہولتیں بھی دے رہے ہیں معقول مشاہرہ بھی دے رہے ہیں یا صرف کام لے رہے ہیں، کیوں کہ اگر اپنے ملک میں ملازمت کا حصول بھی آسان ہو، مشاہرہ بھی معقول ہو تو پھر کوئی بھی اپنے گھر کا آرام چھوڑ کر پردیس جانے کا کیوں سوچے ۔
غرض ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت نوجوانوں کے تحفظ کے لئے خصوصی قانون سازی کرے دھوکہ بازی سے باہر بھیجنے والوں کو سخت سزائیں دی جائیں۔ نوجوان ہی تو ہمارا سرمایہ ہیںان کے خوابوں کو تعبیر دینا ہمارا اور آپ کا ہی کام ہے۔